ہم اس غلط فہمی میں غلطاں تھے کہ سرکار کی جانب سے تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد حکومت ان دو کروڑ بچوں کے لئے سرگرم، پریشان اور سروے بھی کرارہی ہے کہ کن تعلیمی اداروں میں نئے بچے داخل کرنے کی گنجائش ہے انکی فہرستیں تیار کرائی جائیں، تاکہ سکول سے باہر بچوں کو تعلیم سے آراستہ کیا جائے، مگر عقدہ جب کھلا تو ہمارے اوسان خطا ہوگئے کہ ساری دوڑ دھوپ سرکاری تعلیمی اداروں کو گورنمنٹ ایجوکیشن فائونڈیشن کے حوالہ کرنے کی جارہی ہے، جس کے ناتواں کندھوں پر پبلک پرائیویٹ پاٹنرشپ کے تحت ملک کی شرح خواندگی کو فروغ دینے اور پسماندہ علاقہ جات سکولز کا قیام کی ذمہ داری ہے۔
سرکاری تعلیمی اداروں کی مالکان اور این جی اوز کو حوالگی کے عوض طلبا و طالبات اس پیسے سے پڑھیں گے جو فی طالب علم کے حساب سے سرکار دے گی، نوے کی دہائی سے قائم اِس فائونڈیشن کے فرائض منصبی میں یہ بھی شامل ہے کہ ایک کلومیٹر رداس کے اندر جہاں سرکاری سکول موجود نہیں وہاں پیف کے اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ طلبا و طالبات کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جائے، اس ضمن میں چولستان میں ہر قبیلہ کے بچوں تک رسائی کے لئے موبائل سکول سسٹم بھی متعارف کرایا گیا۔
نجانے اس پالیسی سے اب کیوں انحراف کیا جارہا ہے، سرکار کے زیر اہتمام سکول مذکورہ فائونڈیشن کے حوالہ کئے جارہے، پنجاب میں یہ تعداد تیرہ ہزار سے زائد بتائی جارہی ہے، ان کے یوٹیلٹی بلز فائونڈیشن ادا کرے گی، یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ نجی ادارے یومیہ اجرت کی بنیاد پر اساتذہ بھرتی کریں گے۔ صرف وہ سکول فائونڈیشن کے حوالہ کئے جائیں گے جن میں بچوں کی تعداد کم ہے، آئوٹ سورس کا یہ منصوبہ تین مراحل میں مکمل ہوگا، سرکار کے اس فیصلہ سے اساتذہ کرام میں بڑی بے چینی پائی جاتی ہے اس منصوبہ سے خواتین اساتذہ کے متاثر ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔
بدقسمتی رہی ہے کہ ارض پاک میں جو شعبہ زیادہ تختہ مشق بنا ہے، وہ تعلیم ہی ہے، قیام پاکستان کے وقت ہر چند قومی وسائل زیادہ نہ تھے پھر بھی تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری رہا، بعد ازاں نجی تعلیمی ادارے قائم ہوئے، بھٹو مرحوم نے سب کو قومی ملکیت میں دے دیا۔ اس وقت نور خاں تعلیمی پالیسی کا نفاذ ہو رہا تھا، اچھا ہوتا کہ تعلیمی ماہرین کی مشاورت سے مابعد اثرات کا جائزہ فیصلہ سے پہلے لیا جاتا۔ 80 کی دہائی میں پھر نجی تعلیمی اداروں کے قیام کے لئے باقاعدہ قانون سازی کی گئی، سماج کا بڑا طبقہ اس بات پر متفق ہے، اس عمل سے تعلیم "برائے فروخت" بن کر رہ گئی ہے، نظام تعلیم مزید منقسم ہوگیا ہے، امیر اور غریب کے تعلیمی اداروں میں باقاعدہ حد فاصل قائم ہے، یکساں نظام تعلیم کے دعوے اب صرف کتابوں میں ملتے ہیں۔
سرکاری سکولزمیں زیر تعلیم بچوں کی تعداد اگر کم ہے تو استاد کا کیا جرم ہے، تعلیمی پالیسی بنانے، نصاب مرتب کرنے، تعلیمی سہولیات فراہم کرنے میں اس کا کردار تو واجبی سا ہے۔ سرکار جدید رجحانات سے تعلیمی اداروں میں اگر دلچسپی پیدا کرتی تو بچے کشاں کشاں چلے آتے، اس کے باوجود استاد کسی غفلت کا اگر مرتکب ہوتا ہے تو اس کے لئے قانون موجود ہے۔ تعلیمی پسماندگی کا بڑا سبب یہ ہے کہ جی ڈی پی کا صرف ڈیڑھ فیصد خرچ ہوتا ہے، جس میں تنخواہیں بھی شامل ہیں، وہ تمام سیاسی جماعتیں جو اب تلک برسر اقتدار رہی ہیں، سب کے منشور میں شامل ہے کہ جی ڈی پی کا4 فیصد تعلیم پر خرچ ہوگا، مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا کا معاملہ رہا۔ تعلیمی بجٹ2017 سے مسلسل کم ہورہا ہے، کہا جاتا ہے دو کروڑ بچوں کو سکول میں لانے کے لئے جو منصوبہ بنایا گیا اس کے لئے 25 ارب مختص کی نوید سنائی گئی مگر بجٹ میں صرف دس کروڑ رکھے گئے۔
اساتذہ کرام کا شمار ان سرکاری ملازمین میں ہوتا ہے، جو تعلیمی حرج کے باوجود تدریس کے علاوہ بہت سے فرائض انجام دیتے ہیں، طلبا و طالبات کی کم تعداد کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس وقت بھی ہزاروں آسامیاں سکول کیڈر میں خالی ہیں، اچھا ہوتا اگر سرکار تعلیم کے مسائل پر ایک کمیشن بناتی اسکی سفارشات کی روشنی میں تعلیمی اداروں کے مستقبل کا فیصلہ کرتی، دیگر ممالک میں لوکل گورنمنٹ اور تعلیمی افسران سکول کیڈر کی کنٹرولنگ باڈی ہوتے ہیں اور یہ سیاسی مداخلت سے مبرا رہتے ہیں۔ ان کے پرائیویٹ ادارے بھی سرکار کے کنٹرول میں ہیں۔
تعلیمی حالت زار کے باوجود سروے بتاتے ہیں کہ عوام کی غالب تعداد اب بھی سرکاری تعلیمی اداروں پر اعتماد کرتی ہے۔ اسکی بڑی وجہ سستی تعلیم ہی ہے، جسکی فراہمی آئینی طور پر سرکار کی ذمہ داری ہے۔ قومی ذمہ داری سے راہ فرار محض اس لئے کرنا کہ بجٹ کا بڑا حصہ اساتذہ کی تنخواہوں پر اُٹھ جاتا ہے، دانش مندی نہیں۔ سرکاری تعلیمی ادارے ہی وہ مقامات ہیں جہاں بشر کی قسمت نوع ہی تبدیل نہیں ہوتی بلکہ ایک مقدس فرض کی تکمیل بھی یہاں ہوتی ہے۔
دنیا بھر میں قوم کی تربیت کے لئے تعلیمی اداروں سے بہتر کوئی جگہ نہیں ہے، ارباب اختیار یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ این جی اوز بہتر تعلیم دے سکتی ہیں، پہلی تعلیمی کانفرنس کے موقع پر بانی پاکستان نے فرمایا، ہمیں اگر ترقی کرنا ہے تو سنجیدگی کے ساتھ تعلیم کے مسئلہ کو حل کرنا ہوگا، تعلیمی پالیسی ہماری ثقافت، تاریخ سے ہم آہنگ ہو، دنیا کی ترقی کو سامنے رکھتے ہوئے نظام تعلیم وضع کریں۔ یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ نظام تعلیم عوام کو ایک منظم، باکردار قوم بنانے میں بری طرح ناکام رہا، ہماری تعلیمی پالیسی میں بانی پاکستان کے فرمودات کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی، تعلیمی اداروں میں گروہی، لسانی جھگڑے، روشن خیالی اس بات کے غماز ہیں کہ مادہ پرستی تربیت پر غالب ہے اور تعلیمی نظام اس شعر کا مصداق ہے۔
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ۔ املاک بھی اولاد بھی فتنہ۔
اس وقت والدین کی بڑی تعداد بچوں کو تعلیم دلوانے میں نہ صرف سنجیدہ ہے بلکہ بھاری بھر معاشی بوجھ بھی برداشت کر رہی ہے، مگر سرکار اس نظام کو ایمان، اتحاد، تنظیم کے بجائے نفع اور نقصان کے ترازو میں تول رہی ہے۔ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے عالمی اداروں کی خوشنودی کے بجائے تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جاتا تو بہتر ہوتا، سرکار کی طرف سے ہر مجوزہ پالیسی پر تاثر یہی دیا جاتا ہے کہ قوم کے وسیع تر مفاد میں اپنائی جارہی ہے، شہروں، قصبات میں مگر تعلیمی اداروں کے قیمتی ترین رقبے او ر وسیع عمارات کو این جی اوز کی دسترس میں دینے کی پالیسی دال میں کچھ کالا ضرور ظاہر کرتی ہے۔