Saturday, 12 April 2025
    1. Home/
    2. Khalid Mehmood Rasool/
    3. Zinda Civil Society Ka Khwab

    Zinda Civil Society Ka Khwab

    قومیں کیوں ناکام ہو جاتی ہیں؟ چند سال قبل ڈیرک ایجے مولو اور پروفیسر رابنسن کی لکھی اس کتاب نے دنیا بھر میں خوب شہرت پائی۔ مصنفین نے کئی صدیوں پر محیط سیاسی، معاشی اور معاشرتی لٹریچر کی عرق ریزی کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اجتماعی شرکت پر استوار سیاسی اور معاشی ادارے قوموں کی خوشحالی کا باعث بنتے ہیں۔

    جب کہ استحصال پر استوار قومی ادارے ناکامی اور غربت کی طرف دھکیلنے کا سبب بنتے ہیں۔ گزشتہ 50/60 سالوں کے دوران دنیا میں حیرت انگیز، انہونی اور انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ جن معاشروں نے ان تبدیلیوں کو بروقت بھانپ لیا اور اپنے آپ کو ان تبدیلیوں کے لیے تیار کر لیا، وہ ترقی کی شاہراہ پر صدیوں کا سفر عشروں میں طے کر گئے۔ چین، ویتنام، جنوبی کوریا، تائیوان، سنگاپور اور ہانگ کانگ کی مثالیں روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ پچاس ساٹھ سال پہلے ان قوموں کے حالات کیا تھے اور آج کیا ہیں!

    پاکستان کو آزاد ہوئے 76 برس ہو چکے۔ ہر گزرتے سال یہ سوال بار بار زیر بحث آتا ہے کہ پاکستان ترقی کی شاہراہ پر اپنا سفر مستقل مزاجی کے ساتھ کیوں طے نہیں کر پایا؟ معاشرے میں عدم استحکام، عدم توازن اور انتشار کی کیفیت کیوں ہے؟ سول سوسائٹی میں قانون کی حکمرانی نہیں، سیاست کا عمل اجتماعیت کے بجائے سیاسی خانوادوں اور ریاست کے طاقت کے دیگر مراکز کے ساتھ سمجھوتوں پر استوار ہوگیا ہے۔

    سیاسی عمل میں روپے پیسے اور سمجھوتوں کا راستہ محفوظ جب کہ اصول اور بے لچک عوامی موقف کا راستہ خارزار ہے۔ اکثر سوال اٹھتا ہے کہ ہمارے دانشور ایسی صورت حال میں قابل عمل موثر حل تجویز کیوں نہیں کرتے؟ اپنے تئیں کئی دانشور سول سوسائٹی کی رہنمائی کا کردار کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کچھ کامیاب اور کچھ تاریک راہوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔

    اسلم گورداسپوری اسی قافلے کے ایک قابل ذکر اور روشن خیال کردار رہیں۔ اوائل جوانی سے انھوں نے شاعری، عملی سیاست اور قلمی سفر کا آغاز کیا۔ وہ پیپلز پارٹی کے بانیوں اور ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے دانشور ساتھیوں میں سے ایک ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے انھیں "شاعر عوام" کے خطاب سے نوازا۔ اسلم گورداس پوری سیاست، فلسفے، شاعری اور عوامی حقوق کی جہد مسلسل کا منفرد اور ممتاز نام ہیں۔ متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ سیاست و سماج کے علاوہ فلسفے میں بھی ان کی گہری دلچسپی ہے۔

    ان کی تازہ ترین کتاب سول سوسائٹی اور دانشوروں کا کردار ان کی فکری زندگی کا نچوڑ ہے۔ گزشتہ ہفتے ان کی اس کتاب کی تقریب رونمائی ہوئی۔ (اس کتاب کو جمہوری پبلکیشنز لاہور میں شایع کیا ہے)انھوں نے یونانی اور بعد کے زمانوں کے نامی فلسفیوں، سیاسی نظریات، سیاسی تحریکوں اور تاریخی واقعات کے مطالعے اور غور و فکرکے بعد یہ فکر انگیز کتاب تحریر کی ہے۔

    کتاب کا بیشتر حصہ سول سوسائٹی کی تشکیل اور مختلف ادوار کے نظریات پر مشتمل ہے۔ اس پس منظر اور جائزے کی بنیاد پر انھوں نے ایک کامیاب سول سوسائٹی کے خدو خال واضح کیے ہیں اور پاکستانی معاشرے میں موجود عدم استحکام، عدم توازن اور انتشار کا حل تجویز کرنے کی کوشش کی ہے۔

    چند اقتباسات نمونے کے طور پر۔۔ انسانی تہذیبوں کا سلسلہ ہزاروں لاکھوں سال پرانا ہے۔ سول سوسائٹی کی بات کا تصور دنیا میں اس وقت پیدا ہوا جب دنیا کے ملکوں میں کسی نہ کسی حوالے سے ملکوں جمہوری اقتدار کی حکمرانی کا سلسلہ مرحلہ وار شروع ہوا۔ ہر چند کے وہ جمہوری نظام آج کے جمہوری نظام حکومت سے قطعی مختلف اور محدود پیمانے پر تھا۔ قدیم ایتھنز کی محدود جمہوریت کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک مکمل جمہوری ریاست یا جمہوری نظام حکومت ریاست میں فکری ازادی کے بغیر ممکن نہیں۔

    جمہوری معاشرے یعنی سول سوسائٹی کے لیے فلسفیوں کی طرح دانشوروں، شاعروں، مصوروں، تاریخ دانوں اور فلسفی سیاست دانوں کا ہونا از حد ضروری ہے۔ آج کے عہد میں ہر سول سوسائٹی یا جمہوری معاشرے کے لیے سائنس دانوں اور پروفیشنل علم و تعلیم کا ہونا بے حد ضروری ہے کہ ان ماہرین کے زیر اثر کسی بھی معاشرے میں بادشاہی یا شخصی یا فوجی اقتدار کی ہرگز کوئی ضرورت یا گنجائش ہو ہی نہیں سکتی۔

    دنیا میں سول سوسائٹی کے معلم اور معمار فلسفی سیاست دان ہی ثابت ہوئے ہیں جو اپنے عوام اور اپنے معاشرے میں سیاسی معاشی، ثقافتی اور جمہوری آزادیوں میں برابری کے اصولوں کے اقتدار اور حکومت کے اصول رکھتے ہوں عوام کی رائے کے تابع فرمان ہوں۔

    فلسفی دانش وروں کے مطابق ریاست ایک مکمل اکائی کی حیثیت رکھتی ہے جس کے متحرک ادارے ہوتے ہیں۔ سب سے افضل ریاست کا قانون ساز ادارہ ہوتا ہے۔ دوسرے نمبر پر عدلیہ کا ادارہ ہے۔ اس کے بعددیگر پیداواری شعبے آتے ہیں۔

    اکثر سوال کیا جاتا ہے کہ آخر دنیا کے مسلمانوں کی عزت کیوں نہیں ہوتی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ دنیا میں ان قوموں کا عزت و احترام ہے جو دنیا کی تہذیب و تمدن میں اضافہ کرتی ہیں۔ اسلم گورداسپوری کے مطالعے اور سیاسی شعور کا حاصل یہ کتاب پاکستانی سول سوسائٹی کے بنیادی مسائل کا انتہائی علمی اور تاریخی محاکمہ اور آگے بڑھنے کی دانشمندانہ تجاویز پر مبنی یے۔ ضرورت ہے کہ اس موضوع پر ایسی مزید کتابیں لکھی اور پڑھی جائیں تاکہ سر شام ٹی وی اسکرینوں ہر سجنے والی انفوٹینمنٹ اور سوشل میڈیا پر مچی بے معنی ہاہاکار سے ہٹ کر سول سوسائٹی کی بہتر تشکیل پر غور وفکر کی نوبت آ سکے۔

    Check Also

    Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

    By Qasim Imran