میں ایک دوست کو ڈراپ کرنے کے لیے لاہور کے فیروز پور روڈ پر سفر کر رہا تھا، جنرل اسپتال کے سامنے فٹ پاتھ پر کورونااور عالمی حالات سے بے نیاز چند نشئی ایک ہی سرنج سے ٹیکے بھر بھر ایک دوسرے کولگا رہے تھے، وہ کوئی سفوف بھی ٹیکے میں مکس کر رہے تھے۔
ان میں سے نسبتا ایک نوجوان کوہم نے اشارہ کیا، وہ پہلے تو گھبرایا لیکن جیسے ہی میں نے اسے پانچ سو کانوٹ دکھایا، وہ دوڑتا چلاآیا، میں نے اس معقول دکھائی دینے والے نوجوان کو گاڑی میں بٹھالیا اوراسے بتایاکہ گھبراؤ نہیں میں ایک مزدور صحافی ہوں، کوئی پولیس والا نہیں، صرف چند باتیں بتائو، پھر یہ پانچ سو روپے تمہارے۔ میں نے پوچھا کہ تم یہ کیا چیز ٹیکوں میں ملا رہے ہو۔ اس نے جواب دیاکہ ہیروئن( خداکی پناہ ایک توٹیکہ نشہ آور اوپر سے اس میں بھی ہیروئن کی ملاوٹ، ایسی قوم سے تو کورونا بھی پناہ مانگتاہوگا) نشہ کیوں کرتے ہو؟
میں نے روایتی سوال داغا، اس نوجوان نے بتایا کہ وہ چار بہنوں کااکلوتا بھائی اور ایک بچے کاباپ ہے، باپ کا محلے میں ہی کریانہ اسٹورتھا۔ چاربیٹیوں کے بعد ماں باپ کی بڑی منتوں، مرادوں کے نتیجے میں اس کی اس عالم مصائب میں آمد ہوئی۔ لاڈلہ تھا، پڑھائی میں دل نہ لگا تو والدین نے اسے کریانہ اسٹور پرہی بٹھا دیا۔ باپ نے تین بہنوں اور اس کی شادی اپنی زندگی میں ہی کر دی، اسے خدا نے ایک بیٹے سے بھی نوازدیا۔ بعد میں اس کاباپ اس دار فانی سے کوچ کر گیا، بس یہیں سے اس کی تباہی کی داستان شروع ہوگئی۔
چند بری صحبت میں مبتلا دوستوں نے پہلے تو اسے سگریٹ کا عادی بنایا، پھر چرس نوشی کی تربیت دی جو ترقی کرتے کرتے ہیروئن، پھر ہیروئن ملے نشہ آور انجیکشنوں تک جاپہنچی۔ اس دورانیے میں جنرل اسٹور بمعہ راس المال نذرخمار ہوا، بے قرار ماں اس صدمے کی تاب نہ لاکر چار پائی پر ایسی گری کہ پھر اسے قبر میں ہی سکون ملا، بیوی اور بچہ سسرال والے لے گئے۔ رشتے داروں اوردوستوں نے منہ پھیر لیا، اب یہ صاحب سارادن سڑکوں پر بھیک مانگتے ہیں، جو مال غنیمت وصول ہوتا ہے، اس سے نشہ خرید تا اور پیٹ کا دوزخ بھرتا ہے۔
شنگھائی پل کا جوحصہ کچا جیل روڈ کی طرف اترتا ہے اس کے نیچے بے روزگار، لاوارث بے گھر اور نشیوں کی پناہ گاہ ہے، سردی گرمی برسات خزاں میں وہیں زمین پرسر رکھ کر سوجاتے ہیں۔ اس نوجوان کے بقول اگر نشہ نہ کریں تو یوں لگتا ہے جیسے کوئی جسم میں چھریاں مار رہاہے۔ موشن لگ جاتے ہیں اور الٹیاں آنا شروع ہوجاتی ہیں، جسم میں ناقابل برداشت درد ہوتا ہے اور بندہ چلنے پھرنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔
یوں تو منشیات لاہورمیں کیا پشاور سے کے کر کراچی تک ہر جگہ آسانی سے مل جاتی ہیں لیکن اس نشئی نوجوان کے بقول لاہور میں چونگی امر سدھو کاعلاقہ بھی منشیات فروشوں کی جنت ہے، اس علاقے میں نشئیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ پولیس کا ذکر کرنا، ویسے ہی فضول ہے، اگر کسی ملزم کو تھانے لے جائیں تو اس کے ریٹ بڑھ جاتے ہیں، اس کے بعد اسے منشیات سمیت تھانے سے رخصت کر دیاجاتاہے کہ جابچہ! قوم کے نوجوانوں میں موت بانٹ، بیویوں کے سہاگ اجاڑ، مائوں کی گود سونی کر، بہنوں سے بھائی چھین لے اور وطن کی جڑیں کھوکھلی کر دے۔
یہ ایک نوجوان کی کہانی نہیں ہے بلکہ ہر اس گھر کی کہانی ہے جہاں کوئی نشے کا عادی فرد موجود ہے۔ گھروں کی چار دیواریوں میں پتہ نہیں کیسے کیسے دکھ و الم پل رہے ہوتے ہیں، ہم اس کا اندازہ نہیں کرسکتے ہیں۔ سوال یہ ہے اس کاذمے دار کون ہے؟ ویسے یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے، سیدھی سی بات ہے کہ اس کی ذمے دار حکومت ہے جس نے انسداد منشیات کے بیسیوں ادارے بنا رکھے ہیں، ان کے افسروں اور اہلکاروں کی تنخواہوں اور مراعات پر سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے ماہانہ خرچ ہوتے ہیں لیکن وہ ایک ٹکے کاکام نہیں کرتے۔ ہاں اگر راناثنااﷲ کوپکڑنا ہو تو"ملزم" رنگے ہاتھوں موٹر وے سے پکڑا بھی جاتا ہے، لیکن لاہور یا ملک کے دیگر شہروں اور قصبوں کے گلی محلوں میں موت بانٹنے والے ان کے قابو میں نہیں آتے۔
میرا ایک دوست تبدیلی سرکار کا دیوانا ہے، یوں سمجھیئے، وہ اس مشہور ضرب المثل کاعبداﷲ دیوانا ہے جو بیگانی شادی میں دھمال ڈالنے پہنچ جاتا ہے۔ اس نے کہیں ٹی وی پر منشیات فری پاکستان کا اشتہار دیکھا تو موصوف نے کسی دفتر میں کال کرکے کچھ معلومات دیں۔ میرا دیوانہ دوست خوشی سے کہہ رہا ہے کہ وعدہ کیا گیاکہ ان ملک دشمن عناصر کو مانیٹر کیا جائے گا، پھر پتہ چلا کہ کوروناکی وباء ہے، لاک ڈائون میں بہتری آ تے ہی کارروائی کی جائے گی (سبحان اللہ )
خداپاکستانی نوجوانوں پررحم کرے۔ لگتا ہے کہ منشیات کو پاکستان کے خلاف بطورففتھ وارجنریشن استعمال کیاجا رہاہے۔ دشمنوں کا مشن ہے کہ پاکستان کی نوجوان نسل کو منشیات میں غرق کردو کہ کوئی نامور آدمی پیدا ہی نہ ہو۔ عمران خان کاش کرپشن فری پاکستان کے بجائے منشیات فری پاکستان کانعرہ لگاتے اور پھر اسے پورا کرکے دکھاتے تو شاید ان سے بڑا پاکستان کامحسن اور کوئی نہ ہوتا۔ میرے پی ٹی آئی کے عبداﷲ دیوانا نامی دوست فرماتے ہیں کہ اس نے اپنے کزن سمیت اپنے ارد گردکتنے ہی نشئی موت کے گھاٹ اترتے دیکھے ہیں۔
بقول اس کے کہ ایک بار وہ کسی نشئی کولیکر پولیس کے پاس جاپہنچا اوردرخواست کی کہ ازراہ عنایت موت کے سوداگروں کی نشاندہی کے لیے اس نشئیکی خدمات حاضر ہیں لیکن اسے جواب ملا کہ صاحب یہ تو آپریشن والوں کا کام ہے۔ ہمارا کام توتحقیقات کرناہے۔ ہاں اگر کوئی دیہاڑی لگانی ہے تو ہم حاضر ہیں۔ عبداﷲ تو ویسے بھی دیوانا ہے، جذبہ انسانیت سے سرشار ہوکربولا، صاحب مجھے ایسے پیسوں کی ضرورت نہیں جن میں سے انسانی خون، مائون کی بد دعائیں، بہنوں کی آہیں، حسرتیں محرومیاں اور نجانے کیسے کیسے دکھوں کی سسکیاں سنائی دیتیں ہوں، لیکن تمھیں کیا۔
پروین شاکر یاد آ گئیں۔
ٹوٹی ہے مری نیند مگر تم کو اس سے کیا
بجتے رہیں ہوائوں سے درتم کو اس سے کیا
لے جائیں مجھے مال غنیمت کے ساتھ عدو
تم نے توڈال دی ہے سپر تم کو اس سے کیا
تم موج موج مثل صبا گھومتے رہو
کٹ جائیں مری سوچ کے پر تم کو اس سے کیا
تم نے تو تھک کے دشت میں خیمے لگا لیے
تنہاکٹے کسی کا سفر تم کو اس سے کیا
اوروں کا ہاتھ تھامو انھیں راستہ دکھائو
میں بھول جائوں اپناہی گھر تم کو اس سے کیا