Wednesday, 27 November 2024
  1. Home/
  2. Liaqat Rajpar/
  3. Saith Giyan Chand Ki Samaji Khidmat

Saith Giyan Chand Ki Samaji Khidmat

پاکستان بننے سے پہلے سندھ میں ہندوؤں کی سماجی، ادبی اور علمی خدمات اتنی زیادہ ہیں کہ ہم انھیں آج تک یاد کرتے ہیں۔ لاڑکانہ شہر میں ہندو برادری کے سرکردہ افراد نے عوامی علاج کے لیے ڈسپنسریاں، اسپتال، اسکول، مسافر خانے بنوائے۔ بیل، گھوڑے اورگدھے جب گرمیوں یا پھر سردی کے موسم میں آتے تو ان کے لیے سایہ دار اسٹینڈ پانی پینے کے لیے حوض جگہ جگہ بنے ہوئے تھے، جنھیں میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔

لاڑکانہ میں ایک باغ تھا جس کا نام تھا گیان باغ۔ جہاں پر لوگ تفریح کی غرض سے آتے تھے اور وہاں تک آنے کے لیے کشتی چلتی تھی جس کا کوئی کرایہ نہیں ہوتا تھا کیونکہ اس کے مالک سیٹھ گیان چند موٹوانی نے یہ باغ عام لوگوں کی تفریح کے لیے بنایا تھا، جس میں ایک بڑا پنکھا چلتا تھا جس کی ہوا اتنے بڑے باغ میں آنے والوں کو لگتی تھی، اس باغ میں عورتوں اور بچوں کے لیے الگ انتظام تھا۔ سیٹھ نے اپنا گھر بھی اسی باغ کے اندر ایک کونے پر بنایا تھا۔

گیان چند موٹوانی 1878 میں اپنے والد دیوان چنڈومل کے گھر لاڑکانہ میں پیدا ہوئے تھے، ان کی والدہ شری متی شامل بائی بڑے امیر خاندان تولانی سے تعلق رکھتی تھیں۔ گیان کے والد وکیل تھے۔ گیان چند نے ڈبل پروموشن حاصل کرتے ہوئے چار سندھی اسٹینڈرڈ پاس کرنے کے بعد 1888 میں پہلے انگریزی اسٹینڈرڈ میں داخلہ لیا اور پھر اپنی ذہانت اور محنت سے پہلے اور دوسرے اسٹینڈرڈ میں پورے شکارپور ضلع میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اس وقت شکار پور ضلع کی حد لاڑکانہ، سکھر، جیکب آباد سے لے کر سیہون تک تھی۔

گیان 13 برس کے تھے کہ ان کے والد اس دنیا سے چلے گئے ان کی فیملی مسائل میں گھرگئی کیونکہ وہ لوگوں کی امانتیں اپنے پاس رکھتے تھے جس میں سونا، چاندی اور روپیہ ہوتا تھا۔ کبھی کبھی اپنے پاس رکھی ہوئی رقم بھی فلاحی کاموں میں صرف کردیتے تھے اور جیسے ہی ان کے اپنے پیسے آتے وہ دی ہوئی رقم کو پورا کردیتے۔ جب وہ 1891 میں مرگئے تو ان کی طرف 5 ہزار روپے رہتے تھے۔ گیان کی والدہ نے اپنے شوہرکا قرضہ اتارنے کے لیے اپنے سارے سونے کے زیورات بیچ دیے اور اپنے آپ کو قرض کی بلا سے آزاد کروایا۔

جب گیان 16 برس کے ہوئے تو ان کی شادی تیجل بائی سے ہوگئی۔ گیان نے ٹیلی گرام اسکول سکھر میں تین مہینے کورس میں داخلہ لیا جہاں سے انھوں نے 25 دن کے اندر یہ تربیتی کورس مکمل کرلیا جس کی وجہ سے انھیں باگڑجی ریلوے اسٹیشن پر 15 روپے ماہانہ تنخواہ پر ٹیلی گراف ماسٹرکے طور پر بھرتی کیا گیا، اس کے بعد ان کا سکھ ریلوے اسٹیشن تبادلہ کیا گیا اور وہاں پر انھیں 20 روپے ماہانہ ملنے لگے اب وقت گزرتا گیا اور ان کی تنخواہ بڑھتی گئی اور پروموشن ہوتے رہے۔ انھوں نے ٹیلی گراف میں استعمال ہونے والے سامان کے بارے میں کافی جانکاری حاصل کرلی۔ اب انھیں خیال آیا کہ وہ بجلی کے سامان سے بزنس شروع کریں، انھوں نے اپنی ماں سے تین ہزار روپے ادھار لے کر سکھر میں ایک بجلی کے سامان کی دکان کھول لی اور یہ دور تھا 1909 کا۔

اس زمانے میں ٹارچ استعمال کرنے کا بڑا رواج تھا، ایک ٹارچ ان کو 6 آنے میں پڑتی تھی اور وہ اسے ایک سے ڈیڑھ روپے میں بیچتے تھے جس سے انھیں بڑا مالی فائدہ ہونے لگا۔ یہ ایک اہم بات ہے کہ اس زمانے میں ٹارچ ابھی بمبئی میں متعارف نہیں ہوئی تھی۔ ہندوستان کے کئی شہروں میں یہ نئی چیز تھی جس کو وہ 8 روپے فی کس بیچنے لگے۔ اب ان کے پاس تقریباً 15 ہزار روپے جمع ہوگئے تو انھوں نے ریلوے کی نوکری سے استعفیٰ دے دیا۔ جب ان کی بیوی کا 1915 میں انتقال ہوا تو سکھر چھوڑکر لاڑکانہ اپنے بچوں کے پاس چلے آئے۔ ایک بیٹا نانک اور بیٹی پیدا ہوئی تھی۔

1912 میں کراچی کا رخ کیا اور وہاں پر ایک جاننے والے ایسر داس سے ملے جس سے انھوں نے 60 ہزار روپے بزنس کرنے کے لیے ادھار لیے، جس نے انھیں ایلفسٹن صدر میں 150 روپے کرائے پر دکان لے کرکاروبار شروع کیا۔ گیان نے اپنے بچے اپنی ماں کے سپرد کیے اور وہ وہیں لاڑکانہ میں پڑھنے لگے۔ 1913 میں انھوں نے دوسری شادی سیتا نام کی لڑکی سے کرلی۔ اب گیان کی عمر 35 سال تک پہنچ چکی تھی۔ جب 1914 میں پہلی عالمگیر جنگ شروع ہوئی تو ہر طرف کاروبارکو نقصان ہوا، یہ جنگ تقریباً 1918 تک چلتی رہی، وہ 1919 میں کراچی چھوڑ کر بمبئی چلے آئے جہاں پر انھوں نے 750 روپے پر ایک کرائے پر دکان لے کرکاروبار شروع کیا جس میں انھوں نے بڑی رقم لگا دی۔

گیان شروع ہی سے بجلی کے سامان کا کاروبارکرتے رہے تھے جس میں کافی مہارت ہوگئی تھی وہ جرمنی، امریکا اور دوسرے ممالک سے سامان منگواتے تھے، بڑی بڑی فرموں اور بینکوں سے بھی رابطہ ہوا، اب وہ سامان بھی بڑے پیمانے پر منگوانے لگے، اور وہ بمبئی کے بزنس ٹائیکون بن گئے۔ انھوں نے اپنے دونوں بیٹوں کو جس میں آنند جو دوسری بیوی سے پیدا ہوا تھا انھیں کاروبار میں لگا لیا جو بڑی جلدی کاروبارکو سمجھ گئے، توگیان بزنس ان کے حوالے کرکے لاڑکانہ چلے آئے، جہاں پر سب سے پہلے گیان نے باغ قائم کیا۔

انھیں گھر سجانے کا بڑا شوق تھا انھوں نے اپنے گھرکا فرنیچر، قالین اور دوسرا سامان امپورٹ کیا تھا۔ اس زمانے میں لاڑکانہ میں چند اچھے بنگلے تھے جس میں تولانی فیملی، لاہوری فیملی، غیبی خان چانڈیو وغیرہ جنھیں خاص طور پر لوگ دیکھنے کے لیے آتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد بھٹو صاحب نے اس باغ کو خرید کر پھر عوام کی تفریح کے لیے استعمال کرنے کا حکم دیا اور اس کا نام تبدیل نہیں کیا لیکن کچھ عرصے بعد کچھ لوگوں نے اس کا نام باغ ذوالفقار رکھ دیا۔

گیان غریبوں کو صحت کی مفت سہولتیں دینے کے لیے لاکھوں روپے خرچ کرتے تھے، ایک شیوا منڈلی ڈسپنسری قائم ہوئی تھی۔ کئی اسکولوں، اسپتالوں میں انھوں نے چھت کے پنکھے، پانی کے نلکے، کنوئیں، طلبا کے بیٹھنے کی بینچیں دی تھیں۔ جب 1921 میں مفت شیوا منڈلی ڈسپنسری قائم ہوئی تو سب سے زیادہ رقم گیان نے دی تھی اور وہ ماہانہ 200 روپے چندا دیا کرتے تھے۔ اس ڈسپنسری کے وہ 1934 سے 1938 تک صدر بھی رہے اور اس کے زمانے میں یہ ڈسپنسری 1938 میں سرکار میں رجسٹر بھی ہوئی جب کہ یہ ڈسپنری 1924 میں قائم ہوئی تھی۔

جب 1929 میں لاڑکانہ میں وبائی کالرا کی وجہ سے کئی سو لوگ مرگئے اور اس میں دوائیوں کے خرچے کے علاوہ مرنے والوں کی تدفین کا خرچہ بھی یہ سب سے بڑھ کر دیتے تھے۔ 1930 میں ایک بڑا سیلاب آیا تھا جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ بے گھر اور بے سہارا ہوگئے تھے، کھانے، ادویات اور دوسرے اخراجات کرنے کے لیے وہ اپنا پیسہ پانی کی طرح بہاتے تھے۔ لوگوں کو دالیں، گھی، آٹا، چاول اور دوسری اشیائے خورونوش دیتے تھے۔ وہ سیلاب متاثرین کو ہر ماہ 150 روپے بھی دیا کرتے تھے۔

گیان چندکو تعلیم سے بڑا لگاؤ تھا، اس لیے وہ بغیرکسی تفریق کے مسلمانوں کے غریب و نادار طلبا کی ٹیوشن فیس کا خرچہ برداشت کرتے تھے اور مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکالرشپ دیا کرتے تھے۔ بیوہ عورتوں میں مفت سلائی مشینیں تقسیم کرتے تاکہ وہ کپڑے سلائی کرکے روزی کمائیں۔ مسلمانوں اور ہندو غریب افراد میں اگر موت ہوجاتی تو مردے کو دفن کرنے اور جلانے کا خرچہ دیا کرتے۔ اس موقع پر جو بھی چیزیں کام آتی تھیں وہ بھی مہیا کرتے جیساکہ لالٹین، تیل، چٹائی، لکڑیاں وغیرہ۔ محرم کے دنوں میں وہ سبیل لگاتے، جلوس میں شریک لوگوں کے لیے ٹھنڈا پانی اور طبی سہولت بھی دیا کرتے۔

انھوں نے اپنے والد، والدہ اور خاندان کے بارے میں لکھوانے کے لیے کچھ رائٹرزکی خدمات حاصل کیں۔ ہندو مذہب کے بزرگوں کے بارے میں بھی کئی چیزیں لکھوائیں اور معلوم نہیں وہ محفوظ بھی ہیں یا نہیں۔ آخر کار وہ 16 جون 1943 میں اس جہان کو چھوڑکرچلے گئے مگر اپنے پیچھے کئی سماجی بھلائی کے کام چھوڑ بطور یادگار چھوڑ گئے۔ ہمیں چاہیے کہ اچھے کام جس کسی کے بھی ہوں انھیں قائم رکھیں یہ نہیں کہ ان کے بنائے ہوئے اور چھوڑے ہوئے سماجی علمی کاوشوں کو مٹا کر اپنے نام کی تختی لگا دیں۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran