حقیقت کا ادراک یہی ہے کہ نئے سال کا انتساب ملک مبشر احمد خان کے نام کیا جائے! کہ ان کے کارہائے نمایاں قدم قدم پر بکھرے ہیں شاید کسی اور کیلئے یہ رسم پوری نہ کرپاتا، وہ ایک ایسا انسان ہے جو یقین کی آخری حدوں تک یہ ادراک رکھتا ہے کہ جب امیدیں مایوسیوں میں بدل جائیں۔ جب دست و بازو کی کارفرمائیں شل اور مادی طاقتوں کا چراغ گل ہوجائے تو اشک بار آنکھیں لیکر انسان اس بارگاہ کا رخ کرتا ہے جس کے دامانِ کرم سے کائنات کا ہر ذرہ وابستہ ہے۔
اس عالم سے منہ موڑ کر اس دروازے پر دستک دیتا ہے جو ہمیشہ کھلا رہتا ہے، اس حالتِ درماندگی میں کمزور ہاتھ جب قوی مطلق کے حضور پھیلتا ہے تو رحمت کے انمول موتیوں سے مالامال ہوجاتا ہے، یہ نوائے درد کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے اور ملک مبشر احمد خان کے کان عرصہ سے اس ادراک کی گونج سن چکے!
زندگی دیوانوں کی سرشت میں ایک کھیل ہوسکتی ہے لیکن جو اہل جنون ہوں، مقصدیت کے قائل ہوں، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، دل کی ہر دھڑکن کو اپنے قول و فعل کا امیں ٹھہراتے ہوں زندگی ان کیلئے ایک تجربہ گاہ سے کم نہیں ہوتی، کڑا امتحاں ہوتی ہے ملک مبشر احمد خان جیسے آفیسر کورے کاغذ کی مانند اپنا سفر حیات شروع کرتے ہیں اور تجربات کا ایک بیش بہا خزانہ اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔
وطن عزیز میں بہت کم لوگوں کے اندر احساس جاگتا ہے اور شاید اس کا پس منظر یہ ہے کہ جو ذات شکم مادر میں ہماری صورت گری کرتی ہے وہی ذات احساس و خیال کی صورت گر بھی ہے، احساس ایک ایسا لفظ ہے جو ہمارے معاشرے میں بے حسی کا شکار ہے، احساس کا تعلق در اصل دل سے ہے کیونکہ جس سوچ کو دل جنم دیتا ہے اسے احساس کہتے ہیں، میرے ناقص علم کے مطابق احساس ایسی چیز ہے جس سے ہم اپنی ذات کی تکمیل کیلئے کوشش کرتے ہیں۔
ایک اہلکار کیلئے جو احساس ملک مبشر احمد خان کے دل میں جاگتا دیکھا کسی اور کو اس نہج پر نہیں پایا، کسی بوڑھے ناتواں اہلکار کیلئے صلہ رحمی ان کا ہی خاصہ ہے یہی وجہ ہے کہ میں جس اہلکار سے ملا ملک مبشر احمد خان کے گن گاتا ہوا ملا، جن کے چہروں پر تھکان و غبار پھیلا ہو ان کے چہروں پر ملک مبشر احمد خان کے لفظوں سے خوشی کے رنگ بکھرتے ہیں۔
دراصل ہمارے معاشرے میں پولیس محکمہ سے وابستہ افراد کی جو شبیہ ہے، وہ اس قدر مسخ کردی گئی ہے کہ انہیں جذبات اور احساس سے عاری اور انسانی دردمندی سے خالی وجود سمجھاجاتا ہے۔ ان سے احساسِ انسانیت کی توقع عبث سمجھی جاتی ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے کہ یہ بھی اسی انسانی معاشرہ کے افراد ہیں۔ ان کے پاس بھی گداز دل ہے۔ ان کے شب وروز بھی انسانی دکھ درد سے گھرے ہوئے ہیں۔
یہ مسائل میں گھرے ہونے کے باوجود صرف اپنے نہیں بلکہ معاشرے کے خوابوں کو بھی زندہ رکھتے ہیں۔ جرائم، حادثات اور واردات پر ان کی نگاہ ضرور ہوتی ہے مگر اجتماعی واردات اور انسانی المیہ سے یہ بے خبر نہیں ہوتے۔ عام انسانی واردات کا ان کے ذہن پر بھی بہت گہرا اثر ہوتا ہے۔ یہ بھی اسی سماج کا ایک حصہ ہیں جہاں سے تخلیقی احساس کو تحرک ملتا ہے۔
انہیں بھی اسی انسانی معاشرہ سے موضوع اور مواد ملتا ہے۔ یہ سوچنا کہ ان کی آنکھیں بند ہیں، یہ غلط تصور ہوگا بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ سماج کی جتنی جہتوں اور نفسیات پر ان کی نظر رہتی ہے، شاید ہی دوسروں کی ہو۔ صحیح معنوں میں تجربات اور مشاہدات کی دولت انہیں ہی نصیب ہے۔ وہ مشاہدہ جو جذبات کو تحیر اور تازگی عطا کرتا ہے، جو اظہار کو توانائی بخشتا ہے۔ حالات کی کشمکش اور تناؤسے بھی ان کے احساس کو تحریک ملتی ہے۔
میری جستجو کا دائرہ محدود ہے کہ میرے پاس نہ زیادہ وسائل ہیں، نہ فرصت، نہ میں کسی بڑی دانش گاہ سے وابستہ ہوں، نہ آس پاس کسی کتب خانہ کا ذخیرہ ہے، کہ ہم جیسوں کی ساری توانائی توزندگی بھر لکھنے اور گھریلوتناؤہی میں ختم ہوجاتی ہے۔ ایسے میں کیسی جستجو، کہاں کا ذوق و شوق۔۔ پھر بھی جب میں نے ملک مبشر احمد خان کی خدمات کے حوالے سے تلاش کرنی شروع کی تومحسوس ہوا کہ مختلف میدانوں میں ان کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔
انہوں نے معاشرہ کو یہ محسوس کرنے پر مجبور کیا کہ ان کا منصبی فرض اور ان کی رگوں میں انسانیت کا درد رواں دواں ہے۔ ان کا حساس ذہن سماجی اور محکمانہ مسائل کے ادراک میں جتنا کامیاب ہے، کسی اور آفیسر میں کم دیکھا۔ ان کے باطن میں احساس کا ارتعاش ہے۔ ان کے اندر جذبات کا دریا موجزن ہے۔ انہوں نے محکمہ پولیس میں رہتے ہوئے اپنی تخلیقی سرگرمیاں جاری رکھیں، موضوعات کی وسعت پر منصف کی کرسی پر بیٹھنے والوں کو لیکچر سے لیکر خوبصورت احساسات اور انسانی جذبات سے انسانیت کے کینوس کو روشن رکھا۔
ان احساسات میں معاشرتی مسائل اور المیے بھی شامل ہیں اور وہ واردات بھی جو پتھر دل انسان کو موم کر دیتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کا تعلق بھی اسی انسانی معاشرہ سے ہے جہاں ہرلمحہ مختلف طرح کے حادثات وقوع پذیر ہوتے ہیں اور ان کا اثر ان کے ذہنوں پر بھی پڑتا ہے۔
وطن عزیز میں کلیدی نشست پر بیٹھا اگر ہر آفیسر اپنے اندر ملک مبشر احمد خان جیسی صلاحیتیں پیدا کر لے توانسانی معاشرہ میں دل گرفتگی کے ساماں کم ہوجائیں گے اور احساس کی تلملاہٹ وجود کو منتشر نہ کر سکے گی۔