چارلی چپلن بیسویں صدی کا سب سے بڑا کامیڈین تھا۔ اگر پچھلی دو صدیوں کے کامیڈینزکی لسٹ بنائی جائے تواس کا نام ٹاپ پر آئے گا، اس کے شو دنیا بھر میں دیکھے جاتے تھے، اور ڈاکٹر اور نفسیات دان، ذہنی بیماروں اور ڈپریشن کے مریضوں کو اس کے شو دیکھنے کا مشورہ دیتے تھے۔ چارلی چپلن کا پورا نام سر چارلس اسپنسر تھا، وہ سولہ اپریل 1889کو لندن میں پیدا ہوا، والدہ کا نام ہنا اور والد کا نام چارلس چپلن سنیئر تھا۔ چارلی ایک سال کا تھا، جب اس کے والدین کے درمیان علیحدگی ہوگئی اورگھر کی ساری ذمہ داری اس کی والدہ پر آ گئی۔
چارلی کے لیے یہ صورتحال تکلیف دہ تھی، وہ ہر صبح گھریلو کا موں سے فارغ ہو نے کے بعد بہترین لباس پہنتا، جوتے پالش کرتا اورجاب ڈھونڈنے کے لیے شہر میں نکل جاتا۔ ان دنوں بلیک مور تھیٹریکل ایجنسی کا بڑا نام تھا، چارلی ہر روزاس کے دفتر چکر لگاتا مگر ناکام لوٹتا، ایک دن کمپنی کے منیجر ہملٹن نے چارلی کی مستقل مزاجی دیکھتے ہوئے اسے ڈرامے کے لیے سلیکٹ کر لیا، ڈرامے کا نام تھا "شرلاک ہومز"اور اس میں چارلی نے ایک کم عمر ملازم لڑکے کاکردار ادا کیا۔ ڈرامے کی ریکارڈنگ کے لیے چالیس ہفتوں کا ٹور تھا، اور اس کے لیے چارلی کو دو پونڈ دس شیلنگ فی ہفتہ معاوضہ ملتاتھااورچارلی کے لیے بارہ سال کی عمر میں یہ اچھا معاوضہ تھا۔
اس ڈرامے نے چارلی کو سکرین کی دنیا میں متعارف کرایا اور بہت جلد چارلی اپنے فن میں مشہور ہوگیا۔ اسی دوران اس کی ماں کی وفات ہو گئی اور اسے پوری زندگی افسوس رہا کہ، کسمپرسی میں اس کا ساتھ نبھانے والی ماں اس کی کامیابی اور عروج کے دن نہ دیکھ سکی۔ 1908میں انیس سال کی عمر میں اس نے ایک فلمی کمپنی جوائن کی جو اسے امریکا لے گئی، یہاں اس نے مختلف پروڈیوسرزسے معاہدے کیے، ان معاہدوں سے چارلی کو ہر ہفتے ایک سو پچاس ڈالر ملنے لگے، 1914میں اس نے ایک اور کمپنی جوائن کی جو اسے ہر ہفتے دوسو پچاس ڈالر دینے لگی۔ 1920کا عشرہ، چارلی کی زندگی کا سنہرا دور تھا، اس دور میں اس کی کئی یادگا ر فلمیں ریلیز ہوئیں۔
1940میں بننے والی فلم دی گریٹ ڈائریکٹر، میں چارلی نے ہٹلر اور مسولینی کو طنزومزاح کا نشانہ بنایا۔ چارلی بیسویں صدی کے پہلے نصف کا واحد اداکار تھا، جس کی تصویر چھ جولائی1925کے ٹائم میگزین نے سرورق پر شائع کی۔ چارلی کی وفات25 دسمبر1977کو سوئٹزرلینڈ میں ہوئی، اس کی موت کے تین مہینوں بعد اس کی ڈیڈ باڈی چرا لی گئی، باڈی چرانے والوں نے خطیر رقم کا مطالبہ کیا لیکن پولیس کی بروقت کارروائی سے ڈیڈ باڈی کو بازیاب کرالیا گیا۔ اس کے بعد اس کی قبر کو چھ فٹ موٹی کنکریٹ کی دیوار سے محفوظ کیا گیا ہے۔
ہم واپس آتے ہیں، ایک بار چارلی چپلن شدید ڈپریشن کا شکار ہو گیا، ڈپریشن طویل ہوئی تو وہ ایک نفسیاتی معالج کے پاس گیا اور اسے اپنی صورتحال بتائی، چارلی نے بتایا کہ اس پر ہر وقت افسردگی چھائی رہتی ہے، بے چینی کا احساس شدید ہو تا ہے اور نوبت خود کشی تک آ جاتی ہے، ڈاکٹرنے توجہ سے اس کی بات سنی اور بڑی سنجیدگی سے دو لفظی علاج تجویز کیا۔" آ پ چارلی چپلن کے شو دیکھا کریں "۔ چارلی نے بڑی بیچارگی سے جواب دیا کہ، چارلی تو میں ہی ہوں مگر بدقسمتی ہے کہ، میں لوگوں کو ہنساتا ہوں لیکن میر ا دل اندر سے روتا ہے۔
چارلی نے ساری زندگی لوگوں کو ہنسایا، خوشیاں بانٹیں، مگر زندگی کے آخر میں وہ لوگوں کے لیے مذاق بن کر رہ گیا۔ ایک بار انٹرویوکے دوران اس نے اپنی حالت کا اظہار ان الفاظ میں کیا:I always like to walk in th rain، so that no one can see me crying" میں ہمیشہ یہ چاہوں گا کہ بارش میں واک کروں، تاکہ کوئی انسان میرے بہتے ہوئے آنسوؤں کو نہ دیکھ سکے "۔ چارلی کے یہ آخری عمرکے الفاظ تھے، اس نے سات دہائیوں تک لوگوں کو ہنسایا، دنیا کو محظوظ کیا مگر اس کی اپنی حالت یہ تھی کہ وہ ہر لمحہ بے چین رہتا تھا، ڈپریشن کا شکار تھا اور اس نے کئی بار سنجیدگی سے خودکشی کے بارے سوچا تھا۔
دو ہزار اکیس گزر چکا ہے اور بائیس کی شروعات ہو چکی، لوگ گزرے سال کی کامیابیاں گنوا رہے ہیں اور مستقبل کے پلان بنا رہے ہیں، کامیابی کے نسخے بتانے والے ہرطرف ہیں مگر ناکامی، پریشانی اور دکھ درد کے ساتھی کو تسلی دینے والا کوئی نہیں۔ لاکھوں کروڑوں لوگ ایسے ہیں، جن کے لیے دوہزار اکیس کوئی اچھا تاثر چھوڑ کر نہیں گیا، کسی کا پیار اساتھ چھوڑگیا، کسی کو گھریلو پریشانیوں نے گھیرے رکھا، کوئی روزگار کے سلسلے میں پریشان رہا اور کسی کے خواب ادھورے رہ گئے۔ یہ کالم انہی لوگوں کے لیے ہے، دنیا ہر لمحہ تغیر پذیر ہے، یہاں ثبات اگر ہے تو صرف تغیر کو، غم اور خوشی سدا نہیں رہتے، اچھے برے حالات بھی وقتی ہوتے ہیں، اللہ نے قرآن میں ان الفاظ میں تسلی دی ہے کہ "بے شک تنگی کے بعد آسانی ہے"۔
آزمائش طویل ہو سکتی ہے مگر بہر حال اس نے ختم ہونا ہوتا ہے، بسا اوقات یہ آزمائشیں، مشکلیں اور مصیبتیں انسان کو ربّ کے قریب کر دیتی ہیں۔ اللہ بندوں کو خوشی اور غم دونوں حالتوں میں مبتلا کرکے آزماتا ہے، اوراس نے آزمائش کے دوران نماز اور صبر کی تلقین کی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی اہم ہے کہ، از خود حالات سے نکلنے اور امکانات ڈھونڈنے کے مواقع پیدا کیے جائیں۔ یہ دنیا امکانات کے ساتھ قائم ہے، اس دنیا میں کبھی کسی کو کامل درجے کی خوشی اور اطمینان نصیب نہیں ہوا، اور نہ ہو سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ، دنیا ادھوری اور ناقص ہے، اس کی خوشیاں ادھوری ہیں، یہاں انتہائی خوشی کا اظہار بھی آنسوؤں کی صورت میں کرنا پڑتا ہے۔
ہمیں جو لوگ بظاہر مطمئن، خوشحال اور پر سکون دکھائی دیتے ہیں، وہ اندر سے کھوکھلے، مضطرب اور بے چین ہوتے ہیں۔ چارلی چپلن دنیا کو ہنساتا رہا، لوگ سمجھتے رہے وہ بہت خوشحال اور مطمئن ہے، مگر اس کی کیفیت یہ تھی کہ وہ اندر سے شکست خوردہ اور ٹوٹا ہوا انسان تھا۔ وہ بارش میں چلنے کو پسند کرتا تھا، تاکہ لوگوں کو اندازہ نہ ہو کہ، اس کی آنکھوں سے بہنے والے قطرے اس کے غموں کی بوندیں ہیں یا بارش کا پانی۔ ڈاکٹر اور نفسیات ڈپریشن کے مریضوں کو اس کے شو تجویز کرتے تھے اورلوگ اس کی پرفارمنس دیکھ کر ٹھیک بھی ہو جاتے تھے۔
مگر چارلی خود کس کیفیت سے دوچار تھا، اس کا اندازہ شاید کسی کو نہیں تھا۔ جو حال چارلی چپلن کاتھا وسیع پیمانے پر کائنات کے ہر فرد کی یہی کہانی ہے۔ جو لوگ دو ہزار اکیس کو کامیاب قرار دے رہے ہیں اور بائیس کے لیے قراردادیں مرتب کر رہے ہیں، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انہوں نے سب کچھ حاصل کر لیا، اور وہ آئیڈیل خوشی اور اطمینان حاصل کر چکے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں گزرے سال میں کسی منفی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا، اورانہیں دوسروں کی نسبت خوشی اور اطمینان کے بہتر امکانات میسر رہے۔
اس لیے دوہزار اکیس جن کے لیے بہتر تاثر چھوڑ کر نہیں گیا وہ جان لیں کہ، حالات کا یہ ہیر پھیر وقتی اور عارضی ہے، دنیا میں کوئی حالت دائمی اور مستقل نہیں ہوتی، پریشانیاں، دکھ، مصیبتیں اور حالات کا جبر بھی عارضی ہوتا ہے، بس آپ نے اللہ پر اعتماد اور صبر و نمازکے ساتھ امکانات پر غور کرنا ہے۔ وقت اور حالات آپ کے ہاتھ میں ہیں، لہٰذا مثبت ذہن کے ساتھ انہیں اپنے حق میں بدلنے کی کوشش کریں، یہ اکیس اور بائیس کچھ نہیں ہوتا۔