"دنیا میں کوئی عمل اور کوئی نیکی چھوٹی نہیں ہوتی"۔ انہوں نے چلتے چلتے جملہ اچھال دیا اور میں تفصیل طلب نظروں سے انہیں دیکھنے لگا۔ وہ رُکے، میرا ہاتھ پکڑا اور گھڑی کی طرف دیکھ کر بولے: "ہمارے پاس مزید بیس منٹ باقی ہیں، چلو میں تمہیں اس جملے کے عملی مظاہر دکھاتا ہوں "۔ میں نے گردن ہلا کر رضامندی ظاہر کی اور ہم نیچے گھاس پر بیٹھ گئے۔
انہوں نے بولنا شروع کیا: "آپ کو معلوم ہے قیام پاکستان کے بعد لاکھوں لوگوں نے ہجرت کی تھی، یہ لاکھوں لوگ پاکستان کے مختلف علاقوں میں آباد ہو گئے، میرے اجداد انڈیا کے ضلع انبالہ سے ہجرت کر کے گوجرانوالہ کے غیر معروف علاقے میں آباد ہو گئے۔ باقی رشتہ دار کہاں آباد ہوئے میرے اجداد کو اس کا علم نہیں تھا، دن مہینوں اور مہینے سال میں بدلتے گئے، ستر کی دہائی میں دادا دادی کو علم ہوا ہمارے کچھ رشتہ دار سرگودھا کی کسی تحصیل میں آباد ہیں، آنا جانا ہوا اور دونوں خاندان ایک دوسرے سے مل گئے۔
ایک بار دادا انہیں ملنے گئے تو گاؤں کے چودھری نے بتایا ہمارے گاؤں میں ایک مولوی صاحب لاہور کے کسی دینی ادارے سے پڑھ کر آئے ہیں، ہم نے مسجد کے ساتھ ایک چھوٹا سا حفظ کا مدرسہ شروع کیا ہے آپ اپنے چھوٹے بیٹے کو یہاں بھیج دیں۔ دادا واپس آ گئے اور بات آئی گئی ہو گئی۔ کچھ عرصہ بعد چودھری صاحب دادا کو ملنے گوجرانوالہ آئے اور دوبارہ اس بات کا تذکرہ ہوا، دادا حفظ کے لیے بیٹے کو اتنی دور بھیجنے پر راضی نہیں تھے مگر چودھری صاحب نے انہیں قائل کر لیا اور یوں میرے چچا حفظ کے لیے سرگودھا سے ساٹھ ستر کلو میٹر دور ایک غیر معروف گاؤں میں چلے گئے۔
وہ سانس لینے کے لیے رکے تو میں ان کے منہ کی طرف دیکھنے لگا، مجھے یہ کہانی کچھ زیادہ اپیل نہیں کر رہی تھی۔ بہر حال وہ دوبارہ بولنے لگے اور میں سننے لگا: "میرے چچا وہاں تین سال رہے، تین سال میں انہوں نے حفظ مکمل کیا اور واپس آ گئے، یہ ہمارے خاندان میں پہلا حافظ تھا، اس سے پہلے ہمارے خاندان میں دینی علم یا حفظ قرآن کا کوئی ذوق شوق نہیں تھا۔ چچا نے اس کے بعد درس نظامی کی بھی کتب پڑھیں اور ساری زندگی خدمت دین میں مصروف رہے۔ ان کے تین بیٹے حافظ اور ایک عالم بنا اور یہ سب خدمت دین میں مصروف ہیں۔ چچا کو دیکھ کر ہمارے والد کو بھی شوق ہوا کہ وہ اپنی اولاد کو حافظ بنائیں اور خدمت دین کے لیے وقف کریں، چنانچہ والد صاحب نے ہم سب بھائیوں کو دنیاوی تعلیم کے
بجائے دینی تعلیم کے لیے وقف کیا اور اب الحمد للہ ہم پانچ بھائی حافظ اور تین عالم ہیں۔ ان میں سے ایک ختم نبوت کے کام سے جڑے ہوئے ہیں اور بہت اچھی سطح پر ختم نبوت کا کام کر رہے ہیں، ایک لاہور کے نامور دینی ادارے میں استاد اور مفتی ہیں اور باقی بھائی بھی خدمت دین میں مصروف ہیں۔ نوے کی دہائی میں والد صاحب نے بھائیوں کو حفظ قرآن کی راہ پر ڈالا تو برادری میں سے کئی اور لوگوں کو بھی شوق ہوا اور انہوں نے بھی اپنے بیٹوں کو اس راہ پر لگا دیا، اب یہ روایت اگلی نسل میں بھی چل رہی ہے اور والد صاحب کے پوتے اور نواسے بھی حافظ قرآن بن رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ اگلی نسل زیادہ بہتر انداز میں خدمت دین میں مصروف ہو گی اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا۔
سرگودھا کے ایک غیر معروف گاؤں میں چند بچوں کے ساتھ حفظ کا سلسلہ شروع کرنا اور چودھری صاحب کا محض رواروی میں دادا جان کو بیٹے کے لیے قائل کرنا بظاہر یہ معمولی عمل تھا مگر آج یہ عمل پھل پھول چکا ہے اور اس کے اثرات پاکستان کے مختلف خطوں میں دکھائی دے رہے ہیں۔ " وہ بات کر کے خاموش ہوئے اور میں نے ہاں میں گردن ہلا دی۔ انہوں نے گھڑی کی طرف دیکھا، سلام کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا اور تیز قدموں سے چلتے ہوئے نظروں سے اوجھل ہو گئے۔
اس دن مجھے اندازہ ہوا کہ کوئی عمل چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا، عمل عمل ہوتا ہے خواہ چھوٹا ہو یا بڑا اور اللہ تعالیٰ ہمارے اعمال دیکھ کر نہیں بلکہ اس کے پیچھے جو نیت کارفرما ہوتی ہے اس کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں۔ کسی کے ایک چھوٹے سے عمل سے اس کی دنیا و آخرت سنور سکتی ہے۔ کہتے ہیں لکھنؤ میں ایک حجام ہوا کرتا تھا، وہ اپنا صندوقچہ لے کر گھومتا رہتا تھا اور جہاں کوئی آدمی ملتا حجامت کر دیتا تھا، اس کی عادت تھی کہ اگر اسے معلوم ہوتا شہر میں کہیں کوئی جنازہ ہے تو اپنا صندوقچہ کسی کے حوالے کر کے فوراً جنازے میں شریک ہو جاتا تھا۔
کئی بار ایسا ہوا کہ اسے حجامت کے لیے کوئی گاہک نہیں ملا اور وہ دو تین جنازے پڑھ کر گھر چلا گیا، اس کا ساری زندگی یہی معمول رہا۔ یہ حجام مولانا عبدالباری فرنگی محلی کی بھی حجامت کرتا تھا، مولانا عبدالباری کی وفات ہوئی تو ان کا جنازہ ایک بہت بڑے گراؤنڈ میں لایا گیا، لوگ ہندوستان بھر سے ان کے جنازے میں شرکت کے لیے آ رہے تھے، اتفاق سے اسی دن حجام کا بھی انتقال ہو گیا، لوگ مولانا عبد الباری کا جنازہ پڑھ کر فارغ ہوئے تو مجمع میں اعلان ہوا کہ ایک اور جنازہ بھی آ گیا ہے، تمام لوگ صفیں بنائے رکھیں، کچھ تاخیر کی وجہ سے وہ لوگ بھی جنازے میں شریک ہو گئے جو دیر سے آنے کی وجہ سے مولانا کے جنازے میں شریک نہیں ہو سکے تھے، اس طرح حجام کا جنازہ مولانا کے جنازے سے بڑا ہو گیا اور ہر کوئی اس کی قسمت پر رشک کرنے لگا۔
بظاہر حجام کا چھوٹا سا عمل اس کے لیے قابل رشک بن گیا ورنہ ایک حجام کے جنازے میں زیادہ سے زیادہ کتنے لوگ شریک ہو سکتے تھے۔ احادیث میں بھی چھوٹے چھوٹے اعمال کی ترغیب اور ان پر بڑے اجر کی بشارت دی گئی ہے، حدیث میں آتا ہے کہ ایک راستے میں درخت گر گیا، اس کی ٹہنیاں پورے راستے پر پھیل گئیں اور لوگوں کو آنے جانے میں پریشانی ہونے لگی، ایک آدمی نے ان ٹہنیوں کوکاٹ کر الگ کر دیا اور اس عمل کی وجہ سے وہ جنت کا مستحق بن گیا۔
ایک شخص نے کتے کو شدید پیاس کی حالت میں دیکھا، اس نے اسے پانی پلا دیا اور اللہ تعالیٰ کو اس کا یہ عمل اتنا پسند آیا کہ اسے جنت میں داخل کر دیا۔ ایک شخص نے عرض کیا: "اے اللہ کے رسولؐ! کیا ہمیں جانوروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے پر بھی اجر ملے گا؟ آپؐ نے فرمایا: "ہر جان دار کے ساتھ اچھا سلوک کرنے پر اجر ہے۔ " ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے ایک ایسا شخص پیش ہو گا جس نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی نیک کام نہیں کیا ہو گا، اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: "تم نے پوری زندگی میں کبھی تو کوئی اچھا کام کیا ہو گا؟
وہ عرض کرے گا، یا اللہ میں نے کبھی کوئی اچھا کام نہیں کیا، ہاں میں ایک کام کرتا تھا کہ میں نے جن لوگوں کو قرض دیا تھا میں جب ان سے قرض وصولی کے لیے اپنے ملازم کو بھیجتا تھا تو اس سے کہتا تھا کہ مقروض کے ساتھ نرمی سے پیش آنا، وہ جتنا آسانی سے واپس دے سکیں لے لینا اور جو واپس نہ کر سکے اسے چھوڑ دینا اور معاف کر دینا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جا میں نے بھی تجھے معاف کیا۔ "
آپ بھی اپنے دائیں بائیں دیکھیں، کسی دکھی کا دکھ بانٹ لیں، کسی غریب کی مدد کر دیں، کسی یتیم کے سر پر ہاتھ رکھ دیں، کسی قرض دار کو مہلت دے دیں، کسی بھوکے کو کھانا کھلا دیں، کسی کی مسکراہٹ کی وجہ بن جائیں، کسی کو تسلی دے کر اس کے دل کا بوجھ ہلکا کر دیں، کسی نفرت یا دشمنی کو مٹانے میں ثالث بن جائیں، کسی ذہین بچے کی فیس کا اہتمام کر دیں، کسی کی بیٹی کی رخصتی میں معاون بن جائیں، کسی جانور کا احساس کر لیں، کسی پرندے کی خوراک یا پانی کا اہتمام کر دیں۔ ہو سکتا ہے آپ کا ایک چھوٹا سا عمل آپ کی دنیا و آخرت بدل دے۔