موہن داس کرم چند گاندھی ہندوستان کے بابائے قوم تھے، وہ 1893سے 1914تک جنوبی افریقہ میں مقیم رہے، ان کی تعلیم اور ابتدائی سیاسی تربیت جنوبی افریقہ میں ہوئی، ان کا بچپن اور جوانی بہت سادگی سے گزری۔ جنو بی افریقہ قیام کے دوران اکثر انہیں قبض اور سر درد رہتا تھا، انہوں نے کسی اخبار میں اس کا علا ج پڑھا کہ صبح کا ناشتہ ترک کرنے سے یہ مسئلہ حل ہوجائے گا، گاندھی جی نے یہ نسخہ آزمایا لیکن کو ئی فرق نہ پڑا۔ ان کے ایک جرمن دوست نے بتا یا قبض کا واحد علا ج "رجوع باالفطرت " ہے اورگاندھی جی نے اس پر عمل شروع کردیا، اس کا طریقہ یہ تھا کہ گاندھی جی ایک باریک کپڑے کی پٹی لے کر اس پر صاف مٹی کی تہہ جماتے اور اسے پانی میں تر کر کے پیٹ پر باندھ لیتے تھے، گاندھی جی نے خود نوشت میں لکھا ہے کہ یہ نسخہ تیر بہدف ثابت ہوا اور قبض سے میری جان چھو ٹ گئی۔ 1914 کے بعد وہ ہندوستان تشریف لائے اورہندوستانی سیاست میں "ان " ہو گئے، یہ وہ زمانہ تھا جب قائد اعظم ہندوؤں کے ساتھ مل کر مشترکہ جدو جہد کر رہے تھے، گاندھی جی سیاست میں آئے اور آتے ہی چھا گئے، ایک وقت ایسا آیا کہ وہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے مشترکہ لیڈر کے طورپر سامنے آئے، تحریک ہجرت اور تحریک ترک موالات میں ان کا کردار بنیادی تھا۔
ابتداء میں محمد علی جناح اور گاندھی ایک پیج پر تھے مگر ہندوؤں کی تنگ نظری کی وجہ سے جلد ہی یہ راستے جدا ہوگئے اوریہ جدائی اس قدر شدید ہوئی کہ 1920کے بعد گاندھی جنا ح کے سب سے بڑے حریف کے طور پر سامنے آئے۔ گاندھی جی کی فطرت تھی کہ وہ جب تک کسی کام میں خود کو اذیت میں نہ ڈالتے اس وقت تک انہیں مزہ نہیں آتا تھا، اس کے برعکس جناح ایک اصول پسند اور قانونی آدمی تھے اور ٹو دی پوائنٹ بات کر تے تھے، گاندھی جی اپنی سیاسی زندگی میں کئی بار جیل گئے، ماریں کھائیں، بھوک ہڑتال کی لیکن جناح ایک دفعہ بھی جیل گئے اور نہ کبھی بھوک ہڑ تال کی نوبت آئی، جناح کی زندگی نزاکتوں سے پر تھی، اچھا کھانا، اچھا پہننا اور اچھی جگہوں پر رہنا۔ گاندھی جی روحانیات پر بھی یقین رکھتے تھے اور ان کا ہر کام وجدان اور روحانیت کے تابع ہوا کر تا تھا جبکہ جناح کے ہاں روحانیت اورجذباتیت کا نام و نشان تک نہیں تھا، وہ آخردم تک اپنے بے پناہ عزم اور قوت استدلال کی بنیاد پر لڑتے رہے۔ ایک دفعہ جناح اور گاندھی میں کسی مسئلے پر اختلا ف ہو گیا، جناح کا خیال تھا کہ گاندھی نے کسی معاملے میں وعدہ شکنی کی ہے لیکن گاندھی اسے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، جناح کے سیکرٹری نے بتایا "سر گاندھی جی کا کہنا ہے انہوں نے وعدہ شکنی نہیں کی بلکہ ان کی روحانی قندیل نے انہیں فیصلہ بدلنے پر مجبور کیا ہے "جناح اصولی آدمی تھے فورا غصے میں آ گئے ـ: "قندیل کی ایسی کی تیسی، یہ شخص ایمانداری سے کیوں تسلیم نہیں کر تاکہ اس سے غلطی ہو ئی ہے۔"
عمران خان نے شیخ رشید کو وزیر داخلہ بناکر ایک اورسنگ میل عبور کر لیا اورمیں اس عظیم کامیابی پر عمران خان، پی ٹی آئی اور ان کے نوجوان سپورٹرز کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اگر آپ اس مبارکباد کا مزہ دوبالا کرنا چاہتے ہیں تو یوٹیوب پر حامد میرکے ٹاک شو کی وہ ویڈیو دیکھ لیں جس میں عمران خان ہاتھ اٹھا کر کہتے ہیں کہ میں اللہ سے دعا کرتا ہوں مجھے شیخ رشید جیسا کامیاب سیاستدان نہ بنائے اور اگر آپ یہ مزہ سہ بالا کرنا چاہتے ہیں تو وہ ویڈیو دیکھ لیں جس میں عمران خان کہتے ہیں شید ے ٹلی کو تو میں اپنا چپڑاسی بھی نہ رکھوں۔ مجھے یقین ہے کہ اب عمران خان، حکومتی ترجمان اور پی ٹی آئی کے سپورٹرز اس عظیم "یوٹرن" کے فضائل اور تاویلات کرنا شروع کر دیں گے لیکن میں ان سب فضائل، تاویلات اور وضاحتوں کے بارے میں صرف وہی کہنا چاہوں گا جو قائدا عظم نے گاندھی کی روحانی قندیل کے بارے میں کہا تھا کہ ان سب یوٹرنز کی ایسی کی تیسی!۔ عمران خان، پی ٹی آئی، حکومتی ترجمان اور نوجوان سپورٹرز ایمانداری سے کیوں تسلیم نہیں کرتے کہ ہم نے حصول اقتدار کے لیے سب ڈھونگ رچایا تھا۔
یہ ایمانداری سے کیوں تسلیم نہیں کرتے کہ ہم نے 50 لاکھ گھروں کا جھوٹا وعدہ کیا تھا، ہم نے 200 ارب منہ پر مارنے پر بھی قوم سے جھوٹ بولاتھا، ہم ایک کروڑ نوکریاں بھی نہیں دے سکے، ہم 2 روپے یونٹ بجلی بھی فراہم نہیں کر سکے، ہم نے 45 روپے پیٹرول پر بھی قوم سے جھوٹ بولا تھا اور ہم نے نوکریوں کی بارش پر بھی عوام کو دھوکا دیا ہے۔ یہ ایمانداری سے کیوں تسلیم نہیں کرتے کہ ہم نے آئی ایم ایف سے بھیک مانگنے پر بھی عوام کو دھوکا دیا تھا، ہم اب بھیک بھی مانگ رہے ہیں اور خودکشی بھی نہیں کر رہے، ہم زرداری اور دوسرے لٹیروں کا باہر پڑا پیسہ بھی واپس نہیں لا سکے، ہم پاکستان کو ریاست مدینہ بھی نہیں بنا سکے اور ہم کشمیر پر بھی سیاست کر تے رہے۔ یہ ایمانداری سے کیوں تسلیم نہیں کرتے کہ ہم ایکسٹینشن والی بات پر بھی قائم نہیں رہ سکے، ہم غریب کو روزگار بھی فراہم نہیں کر سکے، ہم لوگوں کو فری علاج بھی نہیں دے سکے اور ہم چوروں کی اسمبلی میں نہیں بیٹھوں گا والی بات پر بھی قائم نہیں رہ سکے۔ یہ ایمانداری سے کیوں تسلیم نہیں کرتے کہ ہم پٹرول، گیس اور بجلی بھی سستی نہیں کر سکے، ہم ٹیکس ایمنسٹی پر بھی عوام کو الو بناتے رہے، ہم آزاد امیدواروں کو نہ خریدنے والی بات پر بھی قائم نہیں رہ سکے، سکیورٹی اور پروٹوکول نہ لینے کا وعدہ بھی پورا نہیں کر سکے ا ور ہم وزیر اعظم ہاؤس اور گورنرہاؤسز پر بلڈورزربھی نہیں چلا سکے۔
یہ ایمانداری سے کیوں تسلیم نہیں کرتے کہ ہم مختصر کابینہ والی بات پر بھی جھوٹ بولتے رہے، سائیکل پر وزیر اعظم ہاؤس جانے والی بات سے ہیلی کاپٹر پر آ گئے اورہم عام کمرشل فلائٹ سے بیرون ملک دوروں سے چارٹرڈ طیاروں پر آگئے۔ یہ ایمانداری سے کیوں تسلیم نہیں کرتے کہ ہم نے پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کے بارے میں بھی عوام سے جھوٹ بولا، ہم نے کراچی کے قصائیوں کو نفیس ترین لوگ کہہ کر عوام کا مذاق اڑایا۔ یہ ایمانداری سے کیوں تسلیم نہیں کرتے کہ ہم عافیہ صدیقی کوبھی واپس نہیں لا سکے، ہم موروثی سیاست کو ختم کرنے پر بھی عوام سے مذاق کرتے رہے اور ہم بنی گالہ کے محل پر بھی جھوٹ بولتے رہے۔ مجھے یقین ہے یہ لوگ یوٹرنز کی اس لمبی ہوتی فہرست کو کبھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ غلطی تسلیم کرنا بڑے پن اور بڑے ظرف کا کام ہے اور یہ لوگ اس ظرف سے خالی ہیں، یہ گالی تو دے سکتے ہیں، جھوٹ تو بول سکتے ہیں، یوٹرنز کے فضائل تو بیان کر سکتے ہیں مگر یہ کبھی غلطی تسلیم نہیں کر سکتے۔
میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ ایک دفعہ اپنے ضمیر سے پوچھ کر بتائیں کیا عمران خان اور دیگر سیاستدانوں کی سیاست میں اب کوئی فرق رہ گیا ہے، اگر عمران خان نے بھی یہی سب کرنا تھا تو پہلوں سے ہمیں کیا تکلیف تھی، کم ازکم ملک اس کرب میں تو نہیں تھا جس سے یہ آج گزر رہا ہے۔ خدار ا!عمران خان کی ضد سے نکلیں، یہ سب ایک جیسے اور ایک باغ کی مولی ہیں، آپ اگلے پچاس سال بھی لگے رہیں اس کھیت سے یہی مولیاں نکلیں گی، اب کوئی اور راستہ تلاش کریں، تلاش کرنے والوں کو منزل مل ہی جاتی ہے۔