بچے کے ہاتھ زخمی تھے اور اس کی انگلیوں سے خون بہہ رہا تھا، اس کے والد غصے سے لا ل پیلے ہو رہے تھے اور بچے کی گردن اور چہرے پر تشدد کے نشانات تھے۔ والد نے بچے کو کان سے پکڑ کر میرے سامنے کھڑا کیااور غصے سے بولے: "دیکھیں اس بچے نے میری زندگی عذاب بنا دی ہے، میں نے اسے زندگی کی ہر سہولت فراہم کی ہے لیکن یہ اس کے باوجود شرارتوں سے باز نہیں آتا، میں نے اسے شہر کے سب سے مہنگے اسکول میں داخل کر وایا ہے اور میں اسے ڈاکٹر بنانا چاہتا ہوں لیکن یہ سارا دن مٹی اور کیچڑ میں کھیلتا رہتا ہے۔ اس کی ماں دن میں چار باراس کے کپڑے تبدیل کر تی ہے لیکن یہ اس کے باوجود صاف نہیں رہتا۔ میں اسے کھیلنے کے لئے کھلونے لا کر دیتا ہوں اور یہ ان کے پرزے کھول کر ان کو الگ الگ کر دیتا ہے اور بعد میں خود ہی انہیں دوبارہ جو ڑ لیتا ہے۔ گھر میں موجود الیکٹرونکس کی کو ئی بھی چیز اس کی دسترس سے باہر نہیں، یہ کمپیوٹر کے ہارڈویئر پر تجربات کر تا رہتا ہے، موبائل کھول کر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے اور بعد میں دوبارہ انہیں جو ڑ دیتا ہے۔ گھر میں لگے پھول اور پودے اس سے پناہ مانگتے ہیں۔ یہ پھول توڑتا ہے، ان کی پتیاں الگ الگ کر تا ہے اور پھر ان پتیوں پر اپنے "سائنسی تجربات "شروع کر دیتا ہے "۔ بچے کے والد سانس لینے کے لئے رکے، میں نے ایک لمحے کے لئے بچے کی طرف دیکھا وہ معصوم صورت بنائے اس فرد جرم کو خاموشی سے سن رہا تھا، اس کے والد دوبارہ گویا ہوئے ــ:"میں نے اسے کتنی بار سمجھایا ہے کہ مٹی میں نہ کھیلا کرے، شرارتوں سے باز آئے، اپنا وقت گھر پر گزارے اور پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بنے لیکن اس کا کوا ابھی تک سفید ہے۔ میں اسے سمجھا سمجھا کے تھک گیا ہوں لیکن یہ میری نہیں سنتا اب آپ ہی اسے سمجھائیں "۔
میں نے بچے کی طرف دیکھا اس کا معصوم چہرہ اس کی بے گنا ہی کی چغلی کھا رہا تھا، میں نے بچے کو پیار کیا اور اسے باہر بھیج دیا۔ والد کی بے چینی اور پریشا نی حد سے بڑھی ہوئی تھی میں نے ان سے پوچھا: "آپ کو معلوم ہے بلب کس نے ایجاد کیا تھا "ان کا جوا ب نہیں میں تھا، میں نے پوچھا: " آپ کو معلوم ہے ٹیلی فون کا رسیور، برقی قلم، پیرافین کا غذ، بجلی سے روشنی، ووٹ گننے والی مشین، ٹی وی کی ابتدائی شکل اور آواز ریکارڈ کرنے والا آلہ کس نے ایجا دکیے تھے "ان کا جواب پھر نہیں میں تھا۔ میں نے کہا چھوڑیں میں آپ کو ایک بچے کا واقعہ سناتا ہوں۔ انہوں نے نظریں میرے چہرے پر گاڑ لیں اور میں نے واقعہ سنا نا شروع کیا: "اس بچے نے اپنی زندگی کاسب سے پہلا تجربہ چھ سال کی عمر میں کیا تھا، اسے آگ سے بہت پیار تھا اوراس نے اپنا پہلا تجربہ آگ پر کیا تھا، ایک دن وہ اپنے باپ کے گودام میں گیا اور اس نے وہاں آگ لگا دی، وہ یہ دیکھنا چاہتا تھا کی آگ لگنے کے بعد کیا ہو گا، وہ بڑی مشکل سے جان بچا کر بھا گا۔ سامنے اس کا باپ کھڑا تھا باپ نے اس کی خوب خبر لی اور اسے اس حماقت کی یہ سزا دی کہ پورے گاؤں کے سامنے اس کی خوب پٹائی کی اور اسے گھر سے نکال دیا "بچے کے والد کی دلچسپی بڑھنے لگی اور وہ مزید توجہ سے سننے لگے، میں نے دوبار بولنا شروع کیا: "جب وہ سات برس کا ہوا تو اس کے والد نے اپنا گھر شفٹ کر لیا لیکن بچے کے تجربات بدستور جا ری رہے۔ نئی جگہ پر آ کر بچے کے تجربات بھی ایڈوانس ہو گئے اور اب وہ ذر ااونچے درجے کے تجربات کرنے لگ گیا۔ مثلاً اس کو یہ بات ہمیشہ پریشان کر تی تھی کہ آخر پرندے ہوا میں کیسے اڑتے ہیں، اس نے کئی بار اپنے باپ سے بھی یہ سوال پوچھا لیکن اسے تسلی بخش جواب نہ ملا، آخر اس نے خودہی یہ راز ڈھونڈنا چا ہا اور نتیجہ یہ نکالا کہ پرندے اس لئے ہوا میں اڑتے ہیں کیونکہ وہ کیڑے مکوڑے کھاتے ہیں چنانچہ اس نے اپنے اس عجیب خیال کو تجربے کی کسوٹی پر کھنے کا ارادہ کر لیا۔ اس نے ایک مہینہ ادھر ادھر سے کیڑے مکوڑے اکھٹے کئے، انہیں کو ٹ کر ان کا شربت نکالا اور اسے ایک گلا س میں محفوظ کر لیا، اگلے دن جب کام کر نے والی لڑکی ان کے گھر آئی اس نے اسے مشورہ دیا اگر تم یہ گلا س پی جاؤ تو تم ہوا میں اڑ سکو گی۔ بیچاری لڑکی نے وہ گلاس پیا اور ہوا میں اڑنے کی بجائے زمین پر لیٹ گئی اور درد سے کراہنے لگی، لڑکی خوش قسمت تھی کہ اس کی زندگی بچ گئی لیکن بچے کو اس حماقت کی یہ سزا ملی کہ اسے رات کے کھانے سے ہاتھ دھونا پڑے۔"
میں نے محسوس کیا بچے کے والد کو میری بات سمجھ آ رہی تھی، میں نے بات آگے بڑھائی:"بچے کے والد جس نئی جگہ شفٹ ہو ئے تھے وہا ں ایک اونچا ٹیلا تھا جہاں سے جھیل ہیوران اور دریائے سینٹ صاف دکھا ئی دیتا تھا اور اس ٹیلے پر کھڑے ہو کر ان کانظارہ اور بھی دلکش دکھا ئی دیتا تھا، بچے کے والد نے اس ٹیلے پر ایک مینار بنا دیا تھا تاکہ لو گ اس مینا ر پر چڑھ کر اس جھیل اور دریا کا نظارہ کر سکیں اور وہ ان سے اس کا تھو ڑا سا معاوضہ لیتا تھا لیکن جب بھی کو ئی سیاح اس مینا ر پر چڑھنے کے لئے آتا مینا ر پہلے سے بک ہو تا تھا کیوں کہ وہ بچہ خود ہی بار بار اس مینا رپر چڑھتا اور کسی اور کو موقع ہی نہیں دیتا تھا اور ایک عرصے تک مینار کا "گا ہک "یہی بچہ تھا اور اس کے باپ کو اس مینا رسے کوئی خاص مالی فائدہ نہ ہوا۔ اس بچے نے اپنے گھر کا تہہ خانہ اپنے نام کیا ہوا تھا، اس تہہ خانے میں اس نے بوتلیں، مرتبان، کیمیائی دوائیں، کئی قسم کے کیڑے مکوڑے اور زہریلی دوائیں جمع کر رکھی تھیں اور وہ تہہ خانے میں کسی کو نہیں جانے دیتا تھا۔"اس سا رے واقعے کے بعد میں نے دوبار ہ بچے کے وا لد سے پوچھا "آپ جانتے ہیں یہ بچہ کو ن تھا "انہوں نے دوبارہ نا میں گردن ہلا دی، میں نے انہیں بتایا: "یہ بچہ تھامس ایلوا ایڈیسن تھا، دنیا کا سب سے بڑا مو جد۔ بلب، ٹیلی فون کے رسیور، برقی قلم، پیرافین کا غذ، بجلی سے روشنی، ووٹ گننے والی مشین، ٹی وی کی ابتدائی شکل اور آواز ریکارڈ کرنے والے آلے کا موجد۔ اس نے اپنی زندگی میں ہزاروں چیزیں ایجاد کیں اور انسانی تاریخ کا سب سے بڑا موجد کہلایا، اس کے دوستوں اور دشمنوں نے اسے ناکام بنانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن وہ ہر بار کامیاب ہوتا رہا، صرف بلب کی ایجا د کے حقوق اپنے نام محفوظ کروانے کے لئے اسے چودہ سال تک مقدمہ لڑنا پڑا، پورے دس سال تک امریکی میڈیا اس کی ناکامی کی خبریں چھاپتا رہا مگر وہ مستقل مزاجی سے اپنے کام میں مگن رہا۔ اسے امریکی تاریخ میں سب سے زیادہ اعزازات سے نوازا گیا، اسے بنی نوع انسان کا محسن قرار دیا گیا، اٹلی، جرمنی اور فرانس نے اسے خصوصی اعزازات سے نوازا اور آج بھی جب سائنس کے اسٹوڈنٹس کے سامنے "تھامس ایلوا ایڈیسن "کا نام لیا جاتا ہے تو ان کے سر ادب سے جھک جاتے ہیں۔"میں نے محسو س کیا بچے کے والد کو ساری بات سمجھ آگئی تھی اور اب وہ اجازت چا ہ رہے تھے، میں نے آخری جملہ کہا " اب آپ پر منحصر ہے کہ آپ دس سالہ بچے کو" بزرگ" بنانا چاہتے ہیں یااس کی شرارتوں کو نظرا نداز کر کے اس کی فطری صلاحیتوں کو پروان چڑھتے دیکھنا چاہتے ہیں "انہوں نے ایک معنی خیز مسکراہٹ چہرے پر سجائی اور ہاں میں گردن ہلاتے ہوئے رخصت ہو گئے۔