برصغیر کی دینی روایت پر بات کی شروعات کہاں سے کی جائیں، 1857 کو بنیاد بنایا جائے، اورنگریب عالمگیرکے عہد کو لے لیا جائے، مغلیہ سلطنت سے شروعات کی جائیں یا اس سے بھی قدیم اسلامی سلطنتوں کی بنیاد پر مقدمہ استوار کیا جائے۔ بات کی شروعات جہاں سے بھی ہو لازم ہے کہ خطہ ہند کے مشرف با سلام ہونے پر ایک نظر ڈال لی جائے۔ عرب و ہند کے تعلقات کی تاریخ بہت قدیم ہے، بعثت نبوی سے قبل ہندوستان کے مختلف قبائل کی، بغرض تجارت عرب آمد کے نشانات ملتے ہیں، یہ قافلے ہندوستان اور یمن کا تجارتی سامان شام اور مصر لے جاتے تھے، اثنائے سفر یہ لوگ مکہ مکرمہ میں قیام کرتے اور "زمزم" سے سیراب ہوتے تھے۔ ان تجارتی مراسم کی وجہ سے زمانہ قدیم میں ہی ہندوستان کی اکثر مصنوعات اور اشیائے خوردونوش ناریل، لونگ، صندل، چاول، گیہوں اور دیگر اشیاء عرب کی منڈیوں تک پہنچ چکی تھیں۔ دس ہجری میں نجران سے بنوحارث بن کعب کے مسلمانوں کا وفد آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے ان کو دیکھ کر فرمایا "یہ کون لوگ ہیں جو ہندوستانی معلوم ہوتے ہیں۔" ان میں سے بعض ہندوستانی قبائل حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کے دور میں حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کر چکے تھے۔
اہل ہند کی طرح بعض عرب قبائل کی، بغرض تجارت ہندوستان آمد کے نشانات بھی ملتے ہیں، یہ عرب تاجر مالابار کے ساحلی علاقوں پر قیام کرتے تھے، کہا جاتا ہے کہ ریاست کیرالا کا راجہ چیر امن پیرو مل خدمت اقدس میں حاضر ہو کر مشرف باسلام ہو چکا تھا، جزیرہ سراندیپ (سری لنکا) بھی عرب تجار کی اہم قیام گاہ تھی، بعض عرب تجار اسلام کی آمد سے قبل یہاں مستقل رہائش پذیر ہو چکے تھے، یہی وہ عرب قبائل تھے جنہیں راجہ داہرکے کارندوں نے واپس حجاز جاتے ہوئے لوٹ لیا تھا۔ راجا داہر کی سرکشی محمد بن قاسم کی ہندوستان آمد کی وجہ بنی، یہ خطہ ہندوستان کی طرف اسلامی خلافت کی طرف سے پہلی مہم جوئی تھی۔ محمد بن قاسم کو ناگاہ واپس جانا پڑا، بعد میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنے دور اقتدار میں اہل سندھ و ہند کے نام دعوتی خطوط لکھے جن میں توحید و رسالت کی
دعوت اور بت پرستی سے باز رہنے کی تلقین کی گئی تھی، ان خطوط کا فوری اثر یہ ہوا کہ بہت سے ہندو راجہ دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ یہ ہندوستان میں اسلام کے اولین نقوش تھے، بعد میں تاریخ کے مختلف ادوار میں مسلم حکمرانوں نے یہاں سلطنتیں قائم کیں۔
اسلامی عہد کا ہندوستان خوبصورت اور ترقی یافتہ ہندوستان تھا، ریاست کے تمام باشندگان کو یکساں حقوق میسر تھے، اسلامی تہذیب کے علمی وتہذیبی اثرات یہاں پہنچ چکے تھے، ہندوستان مختلف علوم وفنون کا مرکز بن چکا تھا، قرب و جوار سے لوگ حصول علم کے لیے ہندوستان کا رخ کرتے تھے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی تاریخیں تو بہت لکھی گئیں مگر علمی تاریخ کی طرف ذیادہ توجہ نہیں دی گئی، یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی کارناموں سے تو ایک جہاں واقف ہے مگر ان کے علمی کارناموں سے خال خال لوگ ہی واقف ہیں۔ محمد تغلق کے عہد میں ہندوستان اور مصر کے درمیان تعلقات عروج پر تھے، اس دور کا ایک مصری سیاح اپنے سفر نامہ میں لکھتا ہے کہ صرف دلی میں ایک ہزار مدرسے تھے جن میں ایک شافعی اور باقی حنفی المسلک تھے۔ مسلمان اپنے مذہبی ذوق کی بنا پر تعلیم و تعلم کو لازم گردانتے تھے، درسگاہوں کا قیام اورعلماء و طلبہ کی خدمت کار سعادت تھا۔ اکبر بادشاہ نے صوبوں کے گورنروں کے نام ایک فرمان جا ری کیا تھا کہ جہاں تک ممکن ہو علم وہنر کی اشاعت کرتے رہیں۔
ہندوستان بھرمیں کوئی علاقہ ایسا نہیں تھا جہاں مختلف علوم و فنون کے ماہرین موجود نہ ہوں، یہ اہل علم اپنے فن میں کمال رکھتے تھے اور ان کی شہرت نزدیکی بلادو امصار تک پھیلی ہوتی تھی، اکثر اوقات انہیں قریبی ممالک سے دعوت دی جاتی کہ وہ ان علاقوں میں آ کر علوم وفنون کے چراغ روشن کریں۔ اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں علم و ہنر کی یہ اشاعت عروج پر تھی، اسی عہد میں فتاویٰ عالمگیری جیسی کتاب مرتب ہوئی، تعلیم کے لیے الگ عمارتیں قائم نہیں کی جاتی تھیں، یہ کام مساجد سے لیا جاتا تھاا ور ہر مسجد بذات خود ایک درسگاہ ہوا کرتی تھی۔ مسجدوں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے حجرے طلبہ اور علماء کی رہائش کے کام آتے تھے۔ ایک اہم ذریعہ تعلیم خانقاہیں ہوا کرتی تھیں، صوفیاء کرام تزکیہ نفس کے ساتھ مختلف علوم کی محفلیں سجاتے تھے۔ حکومتوں کی طرف سے خانقاہوں کو جو وظائف جاری ہوتے وہ طلباء کی رہائش اور طعام پر خرچ ہوتے تھے۔
ہندوستان میں، تاریخ کے مختلف ادوار میں رائج نصاب کوچار حصوں میں تقسیم کیاجا سکتا ہے، پہلے دور کے نصاب میں فقہ اور علم فقہ کا رجحان پروان چڑھا، دوسرے دور کے نصاب میں معقولات کا حصہ غالب رہا، تیسرے دور کے نصاب کا آغازعہد ِ اکبری سے ہوتا ہے، یہ اپنے وقت کا بہترین نصاب تھا اس میں معقولات و منقولات دونوں ساتھ ساتھ چلتے نظر آتے ہیں۔ چوتھے دور کا نصاب ملا نظام الدین سہالوی کا مرتب کردہ تھا جو آج بھی رائج ہے اوراس کی شہرت درس نظامی کے عنوان سے ہے۔ اگرچہ اس نصاب پر نظر ثانی اور جدید علوم و فنون کو اس میں شامل کرنے کی ضرروت ہے مگر یہ شمولیت دیگر علوم کی توہین و تقصیرپر نہیں بلکہ ان سے مضبوط رشتہ جوڑے رکھنے کی شرط پر ہونی چاہئے۔
ہندوستان شروع سے ہی ایک تکثیریت زدہ معاشرہ رہا ہے، گوتم بدھ کے زمانے میں ہندوؤں میں ذات پات کا سسٹم عروج پر تھا، نچلی ذاتوں کو زندہ رہنے کا حق بھی نہیں تھا، گوتم بدھ کا ظہور ہندومذہب میں حد سے بڑھی ہوئی طبقاتی تقسیم کا رد عمل تھا، اگرچہ گوتم بدھ کی تعلیمات سے اس میں بہتری آئی مگر کچھ ہی عرصے بعد وہی برائیاں ہندوستانی سماج میں لوٹ آئیں۔ مسلمانوں کی آمد کے بعد ایسا ہر گز نہیں ہوا، ریاست کے تمام شہریوں کو ہر طرح کی مذہبی و سیاسی آذادی حاصل تھی۔ کسی طبقہ و ذات پر بے جا پابندیاں نہیں لگائی گئیں، یہی وجہ ہے کہ اسلامی عہد کے ہندوستان میں شرح خوانداگی تاریخ کے مختلف ادوار میں سب سے زیادہ رہی۔ جو نو مسلم دائرہ اسلام میں داخل ہوتے تھے ا ن کی تعلیم و تربیت کا خاطر خواہ انتظام و انصرام کیا جاتا تھا، صاحب حیثیت مسلمان اپنے طور پر لائبریریاں اور درسگاہیں قائم کرتے تھے اور لوگ دور دراز سے تحصیل علم کے لیے ان درسگاہوں کا رخ کرتے تھے۔
مسلمانوں سے قبل جتنے بھی حملہ آور یہاں وارد ہوئے سب نے ہندوستان کو لوٹا اور تباہ و برباد کیا مگر مسلمانوں کی تاریخ یہ نہیں تھی، کر ہ ارض کے دیگر خطوں کی طرح مسلمانوں نے یہاں بھی تعلیم و تہذیب کی داستانیں رقم کیں، مقامی آبادی کو دعوت اور اخلاق سے زیر کیا اور ہندوستان کی تعمیر و ترقی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ انگریز کی آمد سے قبل تک ہندوستان دنیا کا ترقی یافتہ اور متمول ترین خطہ تھا، پھر انگریز آیا، تقسیم کیا، حکومت کی، لوٹا اور چلا گیا۔ انگریز کی آمد کے بعد ہندوستان کیا سے کیا ہوا، اس بدیہی حقیقت سے ساری دنیا باخبر ہے۔