اکسیویں صدی کی شروعات سے ملکی اور عالمی سطح پر، مدارس اورارباب مدارس موضوع بحث ہیں، عالمی سطح پر اس بحث کا موضوع اور تناظر مختلف ہے لیکن ملکی سطح پر اس بحث کا دائرہ کار نصاب و نظام اور اسناد و روزگار کے گر د گھومتا ہے۔ ملکی سطح پر یہ بحث خود مدارس کے اندر اور خارجی سطح پر اٹھتی رہی ہے اور گزشتہ کچھ عرصے سے اس میں شدت آگئی ہے۔ خصوصاً سوشل میڈیا کی بے ہنگم آزادی نے اس بحث کو بہت ساری غلط فہمیوں اور مغالطوں کا شکار بنا دیا ہے۔ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے، ہر وہ شخص جس کا دینی مدارس کے نظم سے ادنیٰ سا بھی تعارف نہیں، یا مدارس کے وہ فضلاء جو دینی مدارس میں پڑھنے کے باوجود ان کی روح سے ہی نابلد ہیں، بے سرو پا تبصرے کرتے نظر آتے ہیں۔ ان تبصروں اور تنقید کا سارا زور اسناد اور روزگا ر کے گرد گھومتا ہے۔ اگرچہ یہ مسائل اہم ہیں مگر اتنے اہم بھی نہیں کہ مدارس کومحض روزگار کے لیے ڈگری ایورڈنگ انسٹی ٹیوٹ سمجھ لیا جائے اور اس کے علاوہ ان کے ہر کردار کی نفی کر دی جائے۔ مدارس کے مسائل کے حوالے سے سماج میں دو طرح کے نقطہ نظر موجود ہیں، کچھ موجودہ نصاب و نظام میں تبدیلی کے خواہاں اورکچھ اسی پر اصرار کرنے والے ہیں۔ تبدیلی کے ترجمان تو بہت ہیں اور انہیں مختلف پلیٹ فارمز سے بات کہنے کا موقع بھی ملتا رہتا ہے مگر اسی نصاب و نظام پر اصرار کرنے والوں کی نمائندگی بہت کم ہے اور انہیں بات کہنے کا موقع بھی کم ہی ملتا ہے۔
چودھری ذوالفقار صاحب تلاش کالم کے مستقل قاری ہیں اور لندن میں تیسری نسل کے ساتھ رہائش پذیر ہیں، مدارس اور ارباب مدارس کے بارے فکر مند رہتے ہیں، اکثر کالمز کے بعد فیڈ بیک دیتے اور اپنی گزارشات ای میل اور واٹس ایپ کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے مدارس کے حوالے سے اپنے تاثرات ارسال کیے، وہاں بیٹھ کر مدارس کے نصاب ونظام کے بارے فکر مند رہنا یقینا ان کی خوش بختی ہے۔ لندن جیسے شہر میں بیٹھا ایک مسلمان مدارس کے کردار کو کس زاویے سے دیکھتا ہے یہ جاننا اہم ہے، چوہدری صاحب کی تحریر تھوڑی طویل ہے مگر ان کا مؤقف جاندار ہے، میں تھوڑی بہت کمی بیشی کے ساتھ ان کی تحریر کے اہم نکات یہاں نقل کر رہا ہوں تاکہ موجودہ نصاب ونظام پر اصرار کرنے والوں کا نقطہ نظر بھی سامنے آ جائے۔ چودھری صاحب لکھتے ہیں:"میں عالم دین نہیں ہوں، ایک عام سا مسلمان ہوں، علماء کرام کے احترام کو فرض جانتا ہوں اور علماء کرام کی شان میں کسی بھی طرح کی گستاخی کو گناہ سمجھتا ہوں۔ چونکہ میں عالم دین نہیں ہوں، اس لئے حق تنقید نہیں رکھتا جو کچھ میں لکھنے جا رہا ہوں یہ میری ذاتی رائے ہے۔ کئی سال سے بعض علماء کرام کی آراء اخبارات میں چھپ رہی ہیں اور وہ اپنی تقاریر میں بھی ا ظہار فرماتے رہتے ہیں کہ مدارس کے نصاب میں جدید تعلیم کے مضامین بھی شامل ہونے چاہئیں۔ میں سمجھتا ہوں عالم دین کے لیے جو نصاب اور طریقہء تعلیم حضرت نانوتوی رحمہ اللہ نے مختص کیا تھا وہی نصاب اورطریقہ تعلیم سب سے افضل اور فوائد کے لحاظ سے بہتر ہے۔
علم دین حاصل کرنا اور دین اسلام کی ترویج و تبلیغ کے لئے کسی بھی طرح کی خدمات پیشہ نہیں فرض عین ہے اور جو لوگ اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لیے وقف کرتے ہیں انکا دین اسلام کی تعلیم کوپیٹ پوجا کے لیے حاصل کرنا مقصد نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ اگر عالم اور مبلغ بھی دنیاوی تقاضوں اور بشری ضروریات کے لیے دین سیکھے اور سکھائے گا تو عالم دین اور عیسائی پادری یا یہودی ربی میں کوئی فرق نہ رہے گا۔ جو عالم دین جتنے مجاہدہ سے تعلیم حاصل کر ے گااور دنیاوی تقاضوں کو قربان کرتے ہوئے خدمت دین میں مصروف ہوگا، توکل علی اللہ اسکا نصب العین ہوگا تو اسی قدر اللہ رب العزت اس سے دین کا کام لیں گے۔ عالم دین کی قربانی اور توکل علی اللہ کے دورس اثرات ہونگے۔ اخلاص اور قربانی کی وجہ سے پورے معاشرہ میں عزت و تکریم ہو گی، اس کی زبان سے نکلنے والا ہر لفظ پر اثر ہو گااوراس کا مشاہدہ ہم ہر روز کر رہے ہیں۔ اسی نصاب تعلیم اور طریقہ تعلیم سے حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ پیدا ہوئے، انور شاہ کشمیری، مفتی کفایت اللہ، مولانا الیاس کاندھلوی، مولانااشرف علی تھانوی، احمد علی لاہوری، حضرت یوسف بنوری، سید عطاء اللہ شاہ بخاری، مولاناشمس الحق افغانی، مولاناحسین احمد مدنی، حضرت مفتی محمود، مفتی محمد شفیع، مولانا عبدالحق رحمھم اللہ جیسے سیکڑوں نہیں ہزاروں نابغہ روزگار شخصیات پیدا ہوئیں۔ ہر شخصیت کا علم، تقوی اور زندگی کے ہر شعبہ میں خدمات ہمالیہ سے بلند تر ہیں۔ دنیا کا ہر گوشہ ان حضرات کی خدمات دینیہ کا گواہ ہے۔"
مزید لکھتے ہیں:" دین اسلام کے مخالفین کے سامنے بھی یہی بوریا نشین سیسہ پلائی دیوار بن کر ہر محاذ سنبھالے ہوئے ہیں۔ میں دنیاوی تعلیم کا گریجویٹ ہوں اور لندن میں تیسری نسل کے ساتھ رہ رہا ہوں، دیانت داری سے کہہ رہا ہوں کہ دنیاوی یونیورسٹی سے گریجویٹ کے مقابل چٹائی پہ بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے والا زیادہ فہم و شعور رکھتا ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ دیگر علوم میں دسترس بھی ضروری ہے تو اس کی بہترین مثال حضرت مفتی تقی عثمانی کی ذات موجود ہے، صرف بینکنگ کے بارے مفتی صاحب کی خدمات سے پورا عالم استفادہ کر رہا ہے۔ مفتی صاحب نے بھی مدرسہ میں وہی درس نظامی پڑھا ہے، مفتی صاحب کی طرح ہر عالم دین اپنی ذاتی استعداد سے کسی بھی شعبہ کی تعلیم ذاتی طور پہ حاصل کر سکتا ہے مگرمدرسہ کے نصاب میں تبدیلی یا اضافہ کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ اور نہ ہی دنیاوی تعلیم کے اضافی مضامین پڑھے بغیر عالم دین کی تعلیم میں کوئی کمی رہتی ہے۔ جو حضرات مدرسہ کے نصاب میں اضافی مضامین پڑھانے کو ضروری سمجھتے ہیں انکے مد
نظر روزگار کا بندو بست ہے۔ دار العلوم دیوبند میں کسی زمانہ میں درس نظامی کے ساتھ حکمت کا اضافی مضمون بھی پڑھایا جاتا تھا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ علماء کی ایک جماعت، متدین اساتذہ سے پڑھنے کے باوجود دینی خدمات کے بجائے حکمت کو پیشہ بناکر پیسہ کما نے میں مصروف ہو گئی اور اسی کمائی کے چکر میں دنیا سے رخصت ہو گئی۔ پورا علاقہ بے دین بلکہ ان کی اولادیں بے دینی کی زندگی گزار رہی ہیں، یہ میرے گاؤں اور گردو نواح کے واقعات ہیں جن کا میں عینی شاہد ہوں۔ میرے گاؤں سے دس میل گردو نواح میں حضرت حسین احمد مدنی سے چھ حضرات پڑھ کر آئے تھے جن میں سے صرف ایک مولانا عبداللہ رحمہ اللہ آف ملکہ نے اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لیے وقف کیا، علاقہ کے تقریباً ہر گاؤں میں ان کی دینی خدمات کے اثرات موجود ہیں۔ جبکہ مولانا مدنی کے باقی شاگرد حکیم کے طور پر مشہور ہوئے اور انہوں نے مستقل طور پر حکمت کو پیشہ بنالیا اور ساری زندگی حکمت ہی کرتے رہے۔ گویا حضرت کے تراسی فیصد شاگرد ایک مضمون (حکمت) کے اضافہ سے دینی تعلیم بھول کر حکمت ہی کو مقصد زندگی بنابیٹھے تھے۔ اب درس نظامی کے ساتھ کئی اضافی مضامین پڑھائے جا رہے ہیں جس کے نتیجے میں بابو مولوی پیدا ہو رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مضامین کے اضافہ کے بجائے درس نظامی سے فراغت کے بعدتبلیغی جماعت میں وقت لگایا جائے اور اہل اللہ کی صحبت اختیار کی جائے وگرنہ اضافی مضامین سے نتیجہ تراسی فی صد حکیم بننے سے بھی بڑھ جائیگا اور مدارس کی روح ختم ہو جائے گی۔" یہ لندن میں بیٹھے ایک فکرمند مسلمان کے خیالات ہیں، ان سے اتفاق و اختلاف ممکن ہے مگر اسناد اور روزگار کی بحث کے دوران ان پہلوؤں کو مدنظر رکھنا لازم ہے۔