کسی فکر کی تشکیل و اشاعت میں اس عہد کے سیاسی و سماجی عوامل اہم ہوتے ہیں، فکر کا تعلق سماج کے کسی بھی دائرے سے ہو وہ اپنے عہد سے لاتعلق نہیں رہتی۔ فروعی مذہبی افکار، سائنس، فلسفہ، معاشی اور سماجی علوم اپنے عہد کے سیاسی و سماجی تناظر میں پروان چڑھتے ہیں۔ جو قانون ارتقاء انسانی حیات میں کارفرما ہے وہی قانون سماج اور افکار پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ تنازع للبقاء اور بقائے اصلح کی ستم ظریفیاں یہاں بھی جاری وساری رہتی ہیں۔ مختلف افکار اپنے عہد کے سیاسی وسماجی منظر نامے پر تنازع للبقاء کی جنگ لڑتے ہیں جسے تلقی بالقبول حاصل ہو جائے وہ بقائے اصلح کے درجے پر فائز ہو جاتا ہے اور دیگر کاعرصہ حیات محض صفحات تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے اور بعض افکار کو صفحات کا پیرہن بھی نصیب نہیں ہوتا اور وہ تاریخ کے صفحات سے نسیا منسیا ہوجاتے ہیں۔
اسلامی روایت میں موجود مختلف فقہی مکاتب فکر بھی اسی اصول کے مطابق نموپذیر ہوئے، عموما خیال کیا جاتا ہے کہ اسلامی روایت میں صرف چار متداول فقہی مکاتب ہی پروان چڑھے، ایسا ہرگز نہیں ہے، قرون اولیٰ میں ان چار کے علاوہ بھی مختلف فقہی مکاتب تھے مگر انہیں تلقی بالقبول حاصل نہیں ہوااوروہ مرورایام کے ساتھ اپنا وجود برقرا رنہیں رکھ پائے۔ ان چاروں کو جو قبولیت عامہ نصیب ہوئی اس کے بھی سیاسی وسماجی عوامل تھے، مثلا فقہ حنفی کی نشر واشاعت میں ایک اہم عامل عہدہ قضاء تھا، امام ابو یوسف جو فقہ حنفی کے بانی امام ابوحنیفہ کے شاگرد خاص تھے عہد عباسی میں قاضی القضاۃ کے منصب پر فائز تھے، اس عہد میں منصب قضاۃ فقہ حنفی کے سانچے میں ڈھل چکا تھا، اس لیے عہد عباسی میں جتنی بھی قانون سازی ہوئی اس میں فقہ حنفی کو بنیاد بنایا گیا۔ عہد عباسی میں جتنے بھی نئے لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ان کی تعلیم و تربیت بھی قاضیوں کے ذمہ تھی اور قضا کا عہدہ پہلے ہی مشرف با حناف ہو چکا تھا۔
ایک اہم عامل حکومتوں کی سرپرستی تھی، فقہ حنفی کو تاریخ کے مختلف ادوار میں حکومتی سرپرستی بھی میسر رہی، شروعات امام ابو یوسف سے ہی ہو گئیں تھیں، ابن حزم لکھتے ہیں کہ دو فقہی مسالک کو شروع میں ہی حکومتی سرپرستی میسر رہی جس کی وجہ سے انہیں تلقی بالقبول حاصل ہوا، مشرق میں فقہ حنفی اور مغرب میں فقہ مالکی۔ ابن خلدون لکھتے ہیں کہ فقہ حنفی کے پیرو کار سندھ و ہند، عراق و خراسان، چین اور ماوراء النھر سمیت تمام عجمی علاقوں میں موجود ہیں کیونکہ عراق کا سرکاری مسلک فقہ حنفی تھا اور عموما سرکاری مسالک کو ہی مقبولیت نصیب ہوتی ہے۔ ایک اہم وجہ فقہ حنفی میں موجود توسع تھا، منقولات کی کثرت، فقہ تقدیری اور تخریج مسائل کی سہولت بھی اہم عوامل تھے۔
جب ایک بار کسی فکر کو قبولیت عامہ نصیب ہو جائے تو وہ نسل در نسل چلتی ہے، انسانی فطرت کی سب سے بڑی کمزوری آباؤ اجداد کے دین و مسلک کو چھوڑ کر کوئی نیا راستہ اختیار کر نا ہے، اس کی شدت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس فطرت انسانی کا تذکرہ خود قرآن نے کیا ہے، جتنے بھی انبیاء و رسل مبعوث ہوئے سب کو اپنی اقوام کی طرف سے یہ استدلا ل سننے کو ملا کہ کیا ہم اپنے آباء کے دین کو چھوڑ دیں۔ یہی وجہ ہے کہ فقہ حنفی کو تاریخ کے مختلف ادوار میں جو تلقی بالقبول نصیب ہواوہ آج بھی جاری و ساری ہے، عہد عباسی، سلطنت عثمانیہ اور برصغیر میں مغلیہ سلطنت، ان تما م ادوار اور سلطنتوں کے ماتحت خطوں میں فقہ حنفی ہی رائج رہی۔
فقہ مالکی کو مغرب میں اثر ورسوخ نصیب ہوا، اندلس کی اسلامی سلطنت اور صقلیہ میں فقہ مالکی ہی رائج رہی، آج بھی شمالی امریکہ، مغربی افریقہ، کویت، بحرین، متحدہ عرب امارات اور بعض افریقی ممالک میں فقہ مالکی رائج ہے۔ فقہ مالکی کی اندلس میں تشکیل و اشاعت کے متعلق مقدسی لکھتے ہیں کہ خلیفہ کی ایک مجلس میں فقہ حنفی اور فقہ مالکی کے آئمہ موجود تھے، خلیفہ نے پوچھاامام ابوحنیفہ کہاں سے تعلق رکھتے ہیں، بتایا گیا کوفہ سے، دریافت کیا امام مالک کہاں سے منسوب ہیں، بتایا گیا مدینہ سے، فورا حکم صادر فرمایا کہ ہمارے لیے امام دار الہجرت کافی ہیں، تمام احناف کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا کہ ایک ملک میں دو مسلک نہیں چل سکتے۔ فقہ شافعی وحنبلی کی تنفیذ و اشاعت کے بھی اپنے اسباب وعوامل تھے۔ مصر میں فاطمی اور ایران میں صفوی حکومتوں کی وجہ سے ان علاقوں میں فقہ جعفریہ کو فروغ حاصل ہوا۔
مندرجہ بالا سطور میں صرف فقہی و قانونی افکار اور ان کی ترویج واشاعت کے اسباب وعوامل پربات ہوئی، جو اصول فقہی و قانونی افکار میں مؤثر ہے وہ عقائد، الہیات اور مابعد الطبعیات افکار میں بھی کارگر ہے، وہ سیاسی ومعاشی افکار اور دیگرسماجی علوم وفنون کی تشکیل میں بھی اپنا وزن ڈالتا ہے، وہ سائنسی نظریات اور فلسفیانہ افکار میں بھی ایک مؤثر عامل کے طور پر ظہور پذیر ہوتا ہے۔ مغربی جامعات میں یہ بحث معرکۃ الآراء رہی ہے کہ مذہب، علوم وفنون کی تشکیل اورکسی علمی روایت کے ارتقاء میں اس عہد کے سیاسی و سماجی عوامل کس حد تک کر دار ادا کرتے ہیں۔
مؤرخین اور تہذیبوں کے عروج وزوال پر کام کرنے والے اہل علم کا بنیادی استدلال بھی یہی ہے کہ تاریخ انسانی میں جن تہذیبوں کو عروج نصیب ہواوہ اس عہد کے سیاسی و سماجی عوامل کا لازمی نتیجہ تھا۔ اسی مقدمے پر مستشرقین نے اپنی عمار ت کھڑی کی کہ اسلام کا ظہور و نفوذ اور عروج اس کے الہامی مذہب ہونے کی دلیل نہیں، نہ ہی محمدؐ کسی مافوق الفطرت ہستی کے نمائندہ اور مبعوث کیے ہوئے تھے بلکہ یہ اس عہد کے سیاسی و سماجی عوامل تھے جنہوں نے اسلام کو فروغ بخشا اور مسلمانوں کو عروج۔ اسی بنیاد پر وہ ساری اسلامی تاریخ کو ریشنلائز کر کے دیکھتے ہیں، آپ مغرب میں اسلام پر لکھی جانے والی کسی کتاب کا مطالعہ کر لیں اس کے پیچھے یہی بنیادی فکر کار فرما نظر آئے گی۔ اسی فکر اور روش کو بعد میں جدیدیت پسند مسلمانوں نے اپنایا، بلکہ یہ دو ہاتھ مزید آ گے نکل گئے اور داخلی سطح پر فکری پراگندگی کا شکار ہوئے، نصوص کو سیاق و سباق کے دائرے میں بندکرد یا، خود بھی افراط وتفریط کا شکار ہوئے اور سادہ لوح مسلمانوں کو بھی" مذبذبین بین ذالک "کے مقام پر لاکھڑا کیا۔
حاصل بحث یہ ہوا کہ کسی علمی روایت کے ارتقاء میں ا س عہد کے سیاسی و سماجی عوامل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن اس شر ط کے ساتھ کہ یہ عوامل ہی سب کچھ نہیں ہوتے بلکہ اس روایت کا اپنا وجود اور داخلی سٹرکچر بھی اہم ہوتا ہے، روایت کا اپنا سٹرکچرمضبوط نہ ہو تو سیاسی و سماجی عوامل بھی اسے سپورٹ نہیں کرتے۔