روایت اور علماء کے بارے میں، ہمارے عہد کے سوالات میں سے چند یہ ہیں ـ: دینی روایت اور علماء خود کو اپنے عصر سے ہم آہنگ نہیں کر پاتے، یہ ہمیشہ نئے تصورات کا انکار کرتے ہیں، ہرنئی ایجاد میں انہیں سازش نظر آتی ہے، یہ ہر نئے نظریے کے خلاف لٹھ اٹھا لیتے ہیں، یہ انسانی شعور کو پتھر کے دور میں دھکیلنا چاہتے ہیں اورآج ہم اسی رویے کی وجہ سے زوال پذیر ہیں۔ اس مقدمہ پر مزید تفریعات کچھ اس انداز میں ہوتی ہیں : پہلے یہ نئی ایجادات کا انکار کرتے ہیں پھر انہی کا سہارا لے کر میدان میں اترتے ہیں، پہلے نئے تصورات سے مذہب خطرے میں پڑ جاتا ہے بعد میں انہی تصورات کو مذہب سے ہم آہنگ کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ پہلے سماجی تغیرات کی مزاحمت کرتے ہیں جب مزاحمت کام نہیں آتی تو اسے عین اسلام قرار دے دیتے ہیں۔
اس مقدمہ کے اثبات کے لیے جو مثالیں بطور استشہادپیش کی جاتی ہیں ان میں تصویر کا مسئلہ، مائیکرو فون، لاؤڈ سپیکر اورٹی وی کا جواز سر فہرست ہیں۔ بعض "اہل علم " اس مقدمہ کے اثبات میں اس قدر وسیع القلب واقع ہوئے ہیں کہ ماضی کے "جرائم" بھی روایت اور علماء کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں، مثلا آج اگرہم زوال پذیر ہیں تو اس کی وجہ روایت اور علماء ہیں کہ انہوں نے پندرھویں صدی میں چھاپہ خانہ کو حرام قرار دیا، سمندری سفر پر قدغنیں لگائیں، سائنسی علوم کا انکار کیا، برٹش سرکار اور انگریزی زبان کے خلاف مزاحمت کی وغیرہ۔ روایت اور علماء کے ناقدین کا یہ بنیادی مقدمہ ہے، اس کا مستدل اور تفریعات بھی گزر چکی۔ یہ مقدمہ اور استدلال صحیح ہے یا غلط، لازم ہے کہ عقلی و منطقی بنیادوں پراس کا تجزیہ کیا جائے۔
روایت اور علماء کے منصب کا بنیادی وظیفہ کیا ہیـ، یہی کہ دین کو اصلی شکل میں برقرار رکھا جائے۔ دین کی اصل کیا ہے، وہ جو رسول اللہ پر نازل ہوا اور روایت کی صورت میں امت تک پہنچا۔ دین کا مخاطب انسان اور سماج ہے اور یہ دونوں زمان و مکان کے پابند ہیں، زمان و مکان کے اندر رہتے ہوئے اس کے ساتھ بسر کرنا انسانی مجبوری ہے۔ اب صورت واقعہ یوں ہے کہ انسان اور سماج تغیر پذیر ہیں اور اس کے ساتھ انہیں دین کے ساتھ بھی رشتہ استواررکھنا ہے، دین اپنی اصل کے اعتبار سے جس قدر اپنے ماخذ سے قریب تر ہو گا اسی قدر شفاف، بدعتوں سے مبرا اور اور صحیح مزاج کا حامل۔ اس لیے علماء کے لیے لازم ہے کہ جب تک ممکن ہو وہ دین کو سماجی تغیرات اور نئے تصورات سے محفوظ رکھیں۔ جب تک یہ دین اپنی اصل صورت اور ماخذ کے قریب تر ہو گا اس کے مزاج کے درستگی اور خرافات سے دوری کا اہتمام ہوتا رہے گا۔ اگر دین کو انفعالی مزاج کا حامل بنا دیا جائے تو دین اپنی اصلی شکل میں، عیسائیت کی طرح عمل تو کیا کتابوں میں بھی محفوظ نظر نہ آئے۔
یہ بطور خاص اہل مذہب کا رویہ نہیں بلکہ حیات
انسانی کے ہر شعبہ میں یہی قانون رائج ہے، ہر نئے نظریے اور تصور کو ابتداء مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، سوشل سائنسز اور نیچرل سائنسز کے میدان میں یہی اصول کارگر ہے۔ اس میں مسلم و غیر مسلم کی بھی تخصیص نہیں، مشرقی اور مغربی معاشروں میں یہ مزاحمت یکساں ہے۔ جب امر واقع یہ ہے تو علماء کو بھی اس حوالے سے سپیس ملنی چاہئے، لازم ہے کہ نئے تصورات و تغیرات کو بیک آن قبول کرنے کی بجائے ان پر غور و فکر اورسنجیدگی سے ان کا جائزہ لیا جائے۔ انہیں حوادث زمانہ کی چھلنی سے گزارا جائے، جب تک ان کی اہمیت و افادیت مسلم نہ ہو اور سماج کا مجموعی ذہن انہیں اپنانے پر رضا مند نہ ہو تب تک انہیں موقوف رکھا جائے۔ بعد میں عموم بلویٰ کی کیفیت میں بھی مطلقا قبول نہ کیا جائے بلکہ شرعی اصولوں کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کیا جائے۔
مثلا گزشتہ کچھ عرصے سے اہل علم کے مابین ٹی وی کے جواز اور عدم جواز کی بحث متنازع فیہ رہی ہے، علماء کے ایک طبقے نے اس کی اثر پذیری کے پیش نظر، بادل نخواستہ اس کے جواز اور اس کے ذریعے ابلاغ کی اجازت دی ہے۔ آج سماج میں شاید ہی کوئی فرد ہو جس کی ٹی وی تک رسائی نہ ہو اور وہ اس کی اثر پذیری سے محفوظ رہا ہو۔ انسانی مزاج کی مجبوری ہے کہ وہ خیر کے مقابلے میں شر کی طرف جلد ی مائل ہوتا ہے، اب اگر ٹی وی کے ذریعے معاشرے میں شر کوعام کیا جا رہا ہے تو خیر کا بھی تھوڑا بہت اہتمام ہو چاہئے۔ اسی اصول کے پیش نظر اس کے جوازکی گنجائش دی گئی، فرض کریں اگر یہ جواز آج سے تیس چالیس سال پہلے پیش کر دیا جاتا تو شاید وہی لوگ جو آج یہ اعتراض کررہے ہیں، علماء کے خلاف وہ ہذیان بکتے کہ الامان۔
دینی روایت اور علماء کے اس رویے کی ایک وجہ بذات خود سائنس اور سائنسی علوم ہیں، ہر نئی ایجاد کے بارے میں ابتداء سائنس کے نظریات مختلف ہوتے، جب تک کوئی حتمی نظریہ سامنے نہ آئے تب تک اس کے خلاف مزاحمت لازم ہے ورنہ سائنسی نظریات کی طرح مذہب بھی بازیچہء اطفا ل بن جائے۔ مثلا لاؤڈ اسپیکر کے مسئلے میں جب تک یہ ثابت نہیں ہوا کہ یہ امام کی ہی آواز ہے جسے مشین بلند کر کے آگے پہنچاتی ہے تو علماء نے بھی جواز کا حکم صادر کر دیا، گویا ان سوالات اور اعترضات کا اصل محل مذہب اور اہل مذہب نہیں بلکہ خود سائنس اور سائنسی علوم کے ماہرین ہیں۔ اگر علماء بھی عام اہل علم کی طرح انفعالی کیفیت کا شکار ہو جائیں تو دینی تصورات ہر آن بدلتے رہیں اوردین کے اصل مزاج اور شناخت کو بحال رکھنا نامحال ہو جائے۔ اس سے یہ بھی مترشح ہوا کہ میں اجتہاد کی نفی نہیں کر رہا، اجتہاد لازم مگر حامل اجتہاد کا مزاج دین کی اصل روح سے ماخوذ ہونا چاہئے نہ یہ کہ انفعال مزاجی اس کے رخ کا تعین اور اس کی فکری و نظریاتی صورت گری کرے۔
ایک اہم وجہ عروج و زوال کا فلسفہ ہے، جب کوئی قوم دور زوال سے گزرتی ہے تو مقابل تہذیب اور اس کے تصورات و نظریات کے بارے میں اس کی حساسیت ضرورت سے بڑھ جاتی ہے۔ اسلامی تہذیب اس معاملے میں کچھ ذیادہ ہی محتاط ہے کہ اس کی اپنی بنیادیں اور کڑے معیارات ہیں۔ دین کو اصل شکل میں برقرار رکھنے کی ایک صورت روایت سے وابستگی ہے، روایت پرستی صرف مذہبی سماج کا مسئلہ نہیں بلکہ عام سیکولر معاشروں میں بھی روایت کی پاسداری کی جاتی ہے۔ برطانیہ کا آئین تحریری طورپر موجود نہیں، یہ محض روایات کا مجموعہ ہے۔ روایت پرستی کی ایک اہم مثال امریکہ کی عدالتی تاریخ کا واقعہ ہے، سپریم کورٹ میں کیس دائر ہوا کیا کاغذی نوٹوں سے قرض کی ادائیگی ممکن ہے، سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ دستور میں قرض کی ادائیگی سونے سے تو ہوتی ہے کرنسی نوٹوں سے نہیں۔ اس فیصلے نے امریکی سیاست میں جو ہلچل مچائی وہ الگ داستان ہے۔
جب شخصیت پر سطحیت غالب اور گہرائی مغلوب ہوتوذہن میں اس طرح کے سوالات اور اعتراضات جنم لیتے ہیں جن کا اظہار شروع میں کیا گیا۔ مطالعہ محدود ہوتوانسان تجزیے کی صلاحیت سے محروم ہوتاہے۔ تجزیہ نہ ہو تو اعتدال بسیر ا نہیں کرتا، اعتدال رخصت ہو جائے تو خبط کے جال انسان کا گھیراؤ کرتے ہیں۔ یہی وہ لمحہ ہے جب انسان خود کو عقل کل سمجھنے کے زعم میں مبتلا ہو تاہے، اور اگر سطحیت کے ساتھ تعصب بھی ہمنوا ہو جائے توانسان کو مرفوع القلم ہی سمجھنا چاہئے کہ اس کیفیت کے لیے اس سے بہتر اصطلاح ممکن نہیں۔