میں نے کچھ عرصہ پہلے یہ واقعہ پڑھا تھا، میں کتاب اور مصنف کا نام بھول گیا ہوں لیکن وہ واقعہ آج بھی میرے ذہن پر نقش ہے۔ اس واقعے نے میری سوچ اور فکرکے زاویے تبدیل کر دئیے تھے اور اس واقعے کو پڑھنے کے بعد میری زندگی میں ایک سو اسی ڈگری کا چینج آ گیا تھا۔ مجھے اب کوئی گالی دے، برا بھلا کہے، الزام لگائے یا سر عام میری عزت نیلا م کر دے میں بس خاموش رہتا ہوں۔ یقینا آپ جاننا چاہیں گے کہ وہ واقعہ کیا ہے جس نے مجھ میں اتنا صبر اور میری ذات میں ا تنا ٹھہراؤ پیدا کر دیا ہے۔
ایک آدمی نے کسی صحابی کو برا بھلا کہا، صحابی کا نام مجھے یاد نہیں ہے شاید عبداللہ نام کے کوئی صحابی تھے، انہوں نے اس آدمی کی ملامت کو صبر سے سنا اور فرمایا: "بھائی اگر میں آخرت میں کامیاب ہوگیا تو اس ملامت کی کوئی پروا نہیں ہے کہ یہ سب جھوٹ ہے اور اگر میں آخرت میں ناکام ہوگیا تو میں اس سے بھی برا ہوں جو تو مجھے کہہ رہا ہے"۔ یہ واقعہ کیا ثابت کرتا ہے؟ یہ ثابت کرتا ہے کہ ایک مسلمان کی زندگی میں آخرت مرکز ہونی چاہئے، کسی مسلمان کی کامیابی و ناکامی کا معیار آخرت میں کامیابی اور ناکامی کی بنیاد پر ہونا چاہئے۔ کسی مسلمان کے اچھے یا برے ہونے کا انحصار اس کے اعمال کی بنیاد پر ہونا چاہئے اور اگر ہم کسی مسلمان کو جج کرنا چاہیں تو ہمیں دیکھنا چاہئے کہ اس کے نامہ اعمال میں آخرت کے لیے کیا ہے۔
آپ قرآن کھول کر دیکھ لیں آپ کو سارا قرآن آخرت مرکز اعمال کی دعوت دیتا نظر آئے گا۔ اللہ نے سورہ عصر میں ساری انسانیت کو خسارہ قرار دیا ہے سوائے وہ جن کے نامہ اعمال میں ایمان اور عمل صالح ہوں گے اور وہ صبر اور حق کی دعوت دیں گے۔ قرآن کی طرح حدیث میں بھی انسانی زندگی کو آخرت مرکز ہونے پر زور دیا گیا ہے۔ قصہ مختصر! اسلام کا فلسفہ زندگی یہ ہے کہ انسان کی زندگی آخرت مرکز ہونی چاہیے اور اسلام کا فلسفہ کامیابی یہ ہے کہ حقیقی کامیابی آخرت کی کامیابی ہے۔ اس سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اگر ہم کسی انسان کو جج کرنا چاہیں تو اس کے لیے ہمارے پاس معیار اور پیمانہ کیا ہونا چاہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کو پاکستان تشریف لائے دو ہفتے ہو چکے، ان دو ہفتوں میں ڈاکٹر صاحب نے اسلام آباد اور کراچی کے پروگرامز میں جو گفتگو کی وہ سوشل میڈیا پر زیر بحث ہے۔ اپنے اور پرائے سب تنقید کے نشتر اٹھا کر ان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی خوبی یہ ہے کہ وہ مداہنت پسند نہیں ہیں۔ جو بات حق سمجھتے ہیں اسے کہہ دینے کی ہمت اور جرأت رکھتے ہیں۔ ان کے تشریف لانے سے کم از کم ہماری مداہنت پسندی عیاں ہوگئی ہے۔
اسلام آباد میں یتیم بچیوں کی تقریب میں انہوں نے جس طرز عمل کا اظہار کیا ان کے نزدیک وہ ٹھیک تھا۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہمارے ہاں ایسی تقریبات میں بے پردگی کا ارتکاب ہوتا ہے اور ہم مداہنت اختیار کرتے ہوئے اسے جواز بخشتے ہیں۔ ہمارے ہاں خواتین کی بے پردگی اتنی عام ہو چکی ہے کہ مذہبی تقریبات میں بھی اس کا کھلم کھلا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ محفل نعت بھی ہو تو خواتین بن سنور کر اس میں شریک ہوتی ہیں۔
سرکاری، نجی اور تعلیمی اداروں کی تقاریب میں اختلاط مرد و زن کا علی الاعلان ارتکاب کیا جاتا ہے۔ کالج اور یونیورسٹی سطح پر مخلوط تعلیم سے جو مفسدات پیدا ہو رہے ہیں ہماری مداہنت نے اسے بھی قبول کر رکھا ہے۔ ہماری ڈرامہ انڈسٹری، مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا نے اختلاط مرد و زن، ناچ گانا اور فحاشی کو جس طرح ہمارے لیے قابل قبول بنا دیا ہے یہ ہماری مداہنت کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ اب ایسے میں اگر ڈاکٹر صاحب دین کا صحیح مزاج ہمارے سامنے رکھ رہے ہیں تو ہمیں عجیب تو لگے گا۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نبی کی ازواج کو غیر محرم کے سامنے اپنی آواز کو پست رکھنے کا حکم دیا ہے۔
فرمایا اگر تم اللہ سے ڈرتی ہو تو غیر محرم سے بات کرتے ہوئے اپنی آواز میں نرمی مت پیدا کرو، اس سے یہ اندیشہ ہے کہ مخاطب جس کے دل میں مرض ہے وہ تم میں دلچسپی لینا شروع کر دے گا۔ میں یہاں کالم کو سنجیدہ علمی حوالوں سے بوجھل نہیں بنانا چاہتا صرف یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کا طرز عمل کچھ اتنا بھی غیر مناسب نہیں تھا کہ ہمیں اتنی وحشت ہونے لگتی۔
اسی طرح کراچی میں پلوشہ نامی لڑکی کے سوال کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے جو کہا اسے بھی درست تناظر میں دیکھنے کے بجائے مرضی کے معانی اور مرضی کا سیاق و سباق پیش کرکے تنقید کی گئی۔ ڈاکٹر صاحب کا مؤقف تھا کہ تم اسلام پر الزام لگا رہی ہو کہ یہ اسلام ہے لہٰذا تم معافی مانگو اور یہ معافی کا مطالبہ خود سے نہیں بلکہ اللہ سے تھا کہ اللہ سے معافی مانگو تم اسلام کے بارے اتنی بڑی بات کہہ رہی ہو۔ دوسری بات یہ کہ پلوشہ کے لبرلز اور سرخوں سے رابطے خود ساری کہانی سنا رہے ہیں کہ سوال پوچھنے کی نیت اور اس کے پیچھے چھپے مقاصد کیا تھے۔
ڈاکٹر صاحب پر تنقید کرنے والوں میں لبرلز اور مسلمان دونوں شامل ہیں۔ لبرلز کا شوق تنقید تو سمجھ میں آتا ہے کہ ان کی روزی روٹی اس سے وابستہ ہے مگر اہل مذہب کی تنقید چہ معنی دارد؟ اس پر غور کیا تواندازہ ہوا ڈاکٹر صاحب پر تنقید کرنے والوں میں سے زیادہ تر وہ ہیں جن کا تعلق تجدد پسندوں کے فہم دین سے ہے۔ مثلاً اکثر تنقید کرنے والے غامدی صاحب کے متاثرین یا ان کے متاثرین کے متاثرین ہیں اور تنقید کی وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب دین کا جو صحیح مزاج پیش کر رہے ہیں اس کی زد براہ راست اس تجدد پسند دین پر پڑ رہی ہے جو غامدی صاحب اور ان کے متاثرین نے متعارف کرایا ہے۔
کچھ تنقید کرنے والے وہ روایت بے زار ہیں جو اپنی فکری کج روی کی وجہ سے ہمیشہ متنازع رہے ہیں اور اپنا احساس محرومی ڈاکٹر صاحب ایسوں کی خدمات پر کیچڑ اچھالنے سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ میں ان مذہب پسند تنقید نگاروں سے کہنا چاہوں گا کہ آپ قرآن و حدیث پر آئیں۔ قرآن و حدیث نے کسی انسان کو جج کرنے اور اس پر تنقید کا معیار آخرت مرکز ہونا بتایا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے نامہ اعمال میں لاکھوں لوگوں کا قبول اسلام ہے مگر آپ کے نامہ اعمال میں کیا ہے؟
میں ہرگز نہیں کہتا کہ ڈاکٹر صاحب غلطی سے مبرا ہیں مگر تنقید کرتے ہوئے کم از کم ان کی خدمات اور اپنی اوقات کو تو سامنے رکھنا چاہیے۔ رسول اللہﷺ نے حضرت علی ؓسے فرمایا تھا کہ تمہارے ذریعے کسی ایک انسان کا ہدایت کے راستے پر آ جانا ہزاروں سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے نامہ اعمال میں تو لاکھوں لوگوں کا راہ راست پر آنا لکھا ہے مگر تنقید کرنے والوں کے نامہ اعمال میں کیا ہے؟ اس لیے تنقید کرنے والوں کو یقینا پہلے سوچنا چاہیے اور ڈاکٹر صاحب کی آخرت مرکز زندگی اور اپنی زندگی کو سامنے رکھ کر بات کرنی چاہیے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کے دورہ پاکستان کا نقد فائدہ یہ ہوا ہے کہ دین کے باب میں ہماری مداہنت واضح ہوگئی۔ دین کے وہ مطالبات جن کے بارے میں اس سماج کی حساسیت ختم ہو چکی تھی اور خود مذہبی طبقے نے اس پر مداہنت اختیار کر رکھی تھی ڈاکٹر صاحب کی گفتگو اور طرز عمل نے اسے جھنجھوڑا ہے۔ اہل مذہب کو اس پر غور کرنا چاہیے اور دین کو اپنے صحیح مزاج کے ساتھ پیش کرنے کی ہمت اور جرأت کرنی چاہیے۔ رہے لبرلز تو انہیں اپنی جہنم میں جلنے دیں، ڈاکٹر صاحب کچھ مہینوں کے لیے ان کے مزید جلتے رہنے کا اہتما م کر چلے ہیں۔