ہمارے بعض قومی مسائل ایسے ہیں جن پرہر دور کے اہل علم نے لکھا اور اپنی گزارشات پیش کیں، انہی میں سے ایک دینی مدارس او ر ان کا نصاب و نظام ہے۔ دینی مدارس کے نصاب و نظام کے حوالے سے اتنا کچھ لکھا جا چکا کہ ایک اچھی خاصی ضخیم لائبریری وجود میں آ سکتی ہے۔ اس لکھے پر غور و فکر اور عمل کس قدر ہوا یہ البتہ سنجیدہ سوال ہے جس پر بات ہونی چاہئے۔ میں اس موضوع پر متعدد بار لکھ چکا ہوں، سچی بات ہے کہ اب اس موضوع پر لکھتے ہوئے مایوسی ہوتی ہے، یہ مایوسی مجھ تک ہی کیا محدود اس بابت تو حضرت تھانوی ؒ جیسے اصحاب علم بھی مایوسی کا اظہار کر چکے ہیں، آج انہی اصحاب کے کچھ اقتباسات لکھ رہا ہوں ہو سکتا ہے کسی طرف سے تازہ ہوا کا کوئی جھونکا نصب ہوجائے۔ دینی مدارس کے نصاب و نظام میں ضروری اضافوں کے حوالے سے حضرت تھانویؒ کا ارشاد گرامی ہے:"یہ میری بہت پرانی رائے ہے اور اب تو رائے دینے سے بھی طبیعت افسردہ ہو گئی ہے اس لیے کہ کوئی عمل نہیں کرتا، تعزیرات ہند کے قوانین اور ڈاک خانہ اور ریلوے کے قواعد بھی مدارس اسلامیہ کے درس میں داخل ہونے چاہئیں، میری یہ بہت پرانی رائے ہے مگر کوئی مانتا اور سنتا ہی نہیں۔"
اس مسئلہ پر سب سے زیادہ بحث مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ نے کی ہے، ان کا نقطہ نظر تھاکہ نصاب میں تین طرح کی تبدیلیوں کی ضرورت ہیـ:"تخفیف یعنی بھاری بھرکم نصاب کو کم کیا جائے اور ایک ہی فن میں درجنوں کتابیں الگ الگ پڑھانے کے بجائے تین چار اہم اور زیادہ مفید کتابوں کی تعلیم دی جائے، تیسیر یعنی مشکل پسندی کا طریقہ ترک کر کے غیر متعلقہ مباحث میں طلبہ کے ذہنوں کو الجھانے کی بجائے نفس کتاب اور نفس مضمون کی تفہیم کو ترجیح دی جائے، اثبات وترمیم یعنی غیر ضروری فنون کو حذف کر کے جدید اور مفید علوم کو شامل کیا جائے۔" حضرت بنوریؒ نے اس سلسلہ میں جن نئے علوم کو نصاب میں شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا ان میں تاریخ اسلام، سیرت النبی، جدید عربی ادب و انشا، جدید علم الکلام، ریاضی اور معاشیات بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ مولاناآزاد ؒ نے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا:" حضرات! مجھے معاف کیجئے گا، 14، 15 برس تک لڑکے پڑھتے ہیں اور دس سطریں عربی کی نہیں لکھ سکتے، اگر لکھیں گے تو ایسی جس کو ایک عرب نہ پہچان سکے، تو یہ ایک بہت بڑا نقص ہے جو ہندوستان میں پیدا ہواہے، میں نے بھی انہی چٹائیوں پر بیٹھ کر انہی کتابوں کو پڑھا ہے اور میری ابتدائی تعلیم کا وہ سرمایہ ہیں، ایک منٹ کے لیے بھی میرے اندر مخالفت کا خیال پیدا نہیں ہو سکتا مگر میرا دل اس بارے میں زخمی ہے، یہ معاملہ تو ایسا تھا کہ آج سے ایک سو برس پہلے ہم نے اس چیز کو محسوس کیا ہوتا اور اس حقیقت کو تسلیم کیا ہوتا کہ اب دنیا کہاں سے کہاں آ گئی ہے اور اس بارے میں ہمیں کیا تبدیلی کرنی ہے۔
اگر سو برس پہلے ہم نے تبدیلی نہیں کی تو کم از کم پچاس برس پہلے کرلینی چاہئے تھی، آج ہم اپنے مدرسوں میں جن چیزوں کو معقولات کے نام پر پڑھا رہے ہیں یہ وہ چیزیں ہیں جن سے دنیا کا دماغی کارواں دو سو برس پہلے گزر چکاہے، آج ان چیزوں کی موجودہ دنیا میں کوئی جگہ نہیں ہے۔" مفتی محمد شفیع صاحبؒ لکھتے ہیں ـ:"درس نظامی جو اب تک ہمارے مدارس میں رائج ہے، علوم دینیہ کی حفاظت واشاعت کے لئے تو بلاشبہ کافی ہے مگر ملکی، دفتری ضروریات آج بالکل بدلی ہوئی ہیں، آج فارسی زبان کی جگہ انگریزی نے لے لی ہے اور قدیم معقولات کی جگہ نئی سائنس و فلسفہ اور دوسرے علوم جدید ہ نے لے لی ہے، اگر ہمارے متقدمین اپنے زمانہ کی ضروریات کے پیش نظر فارسی زبان کو اپناسکتے تھے، یونانی منطق وفلسفہ اور ریاضی کی تعلیم کو نصاب کا ایک بڑا جزء بناسکتے تھے تو ان کا اتباع آج اس میں نہیں کہ ہم آج بھی وہی منسوخ شدہ سکے لے کر بازاروں میں پھریں بلکہ وقت کی ضروریات کے مطابق انگریزی زبان اور فنون جدیدہ کو پڑھنا پڑھانا وہی درجہ رکھتا ہے جو اس زمانہ میں فارسی زبان اور یونانی فلسفہ کا تھا۔
اگر آج اس حقیقت کو سمجھ کر ہمارے علماء فارسی زبان کی جگہ انگریزی کو اور یونانی فلسفہ کی جگہ جدید سائنس اور فلسفہ کو دیں تو اس میں نہ علوم دینیہ کی تعلیم میں کوئی غلط تصرف ہے اور نہ یہ اسوہ اسلاف ہی سے مختلف ہے۔ مضر اسباب سے مکمل پرہیز کرتے ہوئے انگریزی زبان اور عصری علوم وفنون کو پوری کوشش اور توجہ سے حاصل کیا جائے تو وہ پچھلے منطق وفلسفہ سے زیادہ اسلامی عقائد اور اسلامی علوم کے خادم نظر آئیں گے۔"ڈاکٹر ظفرالاسلام خان لکھتے ہیں:" انگریزی زبان کے ساتھ ہم نے جدید علوم کی بھی مخالفت کی اور انہیں اپنے مدارس میں پھٹکنے نہیں دیا حالانکہ ہم دہراتے نہیں تھکتے کہ ہمارے قدیم علماء دینی اور دنیاوی علوم دونوں کے ماہر ہوتے تھے، نتیجتاً مدارس سے ایسی کھیپ نکلنی شروع ہوئی جو اگرچہ علوم دینیہ میں ماہر تھی لیکن اپنے اردگرد اور دنیا کے حالات سے ناواقف تھی، یہی نہیں بلکہ وہ رائج الوقت زبان سے بھی نابلد تھی، دھیرے دھیرے یہ فرق بڑھتا ہی گیا یہاں تک ہمارے مدارس کے فارغین ریلوے ریزرویشن فارم اور بینک کا چیک بھرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوگئے۔ اس سب کے باوجود ہم نے اپنے مدارس کے نظام تعلیم پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا اور کبھی کبھارلیپا پوتی کرکے سمجھ لیا کہ بس مقصد پورا ہوگیا، آج بھی ہمارے مدارس کے فارغین دنیا کے لئے تیار نہیں، نہ ہی زمانے کی زبان اور عہد جدید کے رموز وقوانین سے واقف ہیں۔
ہم مدارس کو بند کرنے کا مطالبہ ہرگز نہیں کر رہے بلکہ ان میں ایسی تبدیلی چاہتے ہیں جس کی وجہ ہمارے علماء صحیح معنوں میں ملت کے قائد بن سکیں۔"مزید لکھتے ہیں:"سالانہ دسیوں ہزار فارغین مدارس کی کھیپ میں سے اگر سوپچاس بعض یونیورسٹیوں کے انسانی علوم کے شعبوں میں داخلہ لے پا جاتے ہیں یا دس بیس سعودی عرب یا مصر کی بعض یونیورسٹیوں میں داخل ہو جاتے ہیں یا چند کو عرب ممالک میں معمولی ملازمتیں مل جاتی ہیں تو اس سے فارغین مدارس کے جم غفیر کا بنیادی مسئلہ حل نہیں ہوتا ہے بلکہ ان کی اکثریت اپنی روزی روٹی کیلئے برسوں خاک چھاننے پر مجبور ہوتی ہے اور بالآخرکمترین پر راضی ہوکر حاشیے پر زندگی بسر کرتی ہے۔ مدارس ہماری ضرورت ہیں لیکن وہ ہماری صرف آدھی ضرورت پوری کرتے ہیں جبکہ ہم کو ایسے مدارس کی ضرورت ہے جو تعلیم کے متعلق ہماری تمام ضرورتوں کو پورا کریں۔ حالات اور وقت کا تقاضاہے کہ مدارس کے فارغین کا مسئلہ مدارس میں ہی حل کیا جائے یعنی نصاب تعلیم میں ہی ایسی بنیادی تبدیلیاں لائی جائیں کہ مدارس کے فارغین دین کے ساتھ دنیاوی علوم سے بھی لیس ہوں اور مدارس کی اسناد کو حکومت وقت مساوی مان لے۔
دینی مدارس کے موضوع پر پچھلے ستر سالوں میں بہت لکھا جا چکا اب لازم ہے کہ اس لکھے کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے اور نصاب و نظام میں بہتری کے جو امکانات موجود ہیں انہیں بلاتامل قبول کیا جائے تاکہ آئندہ نسل کو ان مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے جن سے آج ہم دو چار ہیں۔