اکتوبر 1949میں چائنہ کی کمیونسٹ پارٹی نے نیشنلسٹ پارٹی کو شکست دے کر عوامی جمہوریہ چین کے قیام کا اعلان کر دیا، ماؤزے تنگ کمیونسٹ پارٹی کے صد رتھے، وہ 1954میں چین کے صدر منتخب ہوئے اور اس کے بعد چین میں ایک نئے دور کا آغاز ہو۔ صدر منتخب ہوتے ہی انہوں نے ایک انقلابی نعرے کا اعلان کیا "ترقی کی جانب عظیم چھلانگ"(Great Leap Forward) اس نعرے کے پیچھے یہ مفروضہ کارفرما تھا کہ چین کو زرعی معاشرے سے نکال کرصنعتی اور سوشلسٹ سماج میں تبدیل کیا جائے۔ 1958 میں یہ نعرہ زبان زد عام ہو گیا، حکومتی سطح پر اس کے نفاذ کے لیے کوششیں شروع ہو گئیں۔ بڑے پیمانے پر تبدیلیاں لائی گئیں، دیہاتی چینیوں کے لیے لازمی زراعت کے قوانین متعارف ہوئے، نجی زراعت ممنوع ٹھہری، دیہاتیوں کو قائل کیا گیا کہ وہ مشترکہ کھیتوں میں مل کر کام کریں اور پورے ملک میں زرعی ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ ماؤزے تنگ کا خیال تھا کہ زرعی سماج سے صنعتی انقلاب کی طرف منتقلی سے چین بہت جلد ایک بڑی طاقت بن کر ابھرے گا، زراعت سے حاصل شدہ دولت کو صنعتی منصوبوں پر لگانے کے احکامات جاری ہوئے، ان منصوبوں کی تعمیر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ماؤزے تنگ نے زرعی پیداوار کو دو اور تین گنا کر نے کا حکم جاری کر دیا۔ یہ حکم نامہ وزیروں اور مشیروں سے ہوتا ہوا صوبوں اور بیوروکریسی تک پہنچا، بیوروکریسی کی راہداریوں سے یہ حکم ضلعی سطح اور بالآخر دیہاتی حکام تک پہنچ گیا۔ نچلی سطح پر کسان پریشان حال تھے، مشترکہ کھیتوں میں کام کرنے کاجذبہ دم توڑ چکا تھا اور دیہاتی سطح پر زراعت ختم ہو چکی تھی۔ سالانہ پیداوار پہلے سے بھی کم ہو چکی تھی مگر دیہاتی حکام نے افسران بالا کو بڑھا چڑھا کر رپورٹس پیش کیں، یہ رپورٹس ضلعی انتظامیہ تک پہنچیں تو انہوں نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا، بیوروکریسی کے افسران نے بھی حسب معمول اس میں چند صفروں کا اضافہ کر دیا، سیکٹریوں نے اپنا حصہ ڈال کر اسے وزیروں اور مشیروں کے سامنے پیش کر دیا اور آخرکار جب یہ رپورٹ حکام بالا تک پہنچی تو زرعی پیدوار اصل سے پچاس فیصد بڑھ چکی تھی۔ ان رپورٹس پر اعتماد کرتے ہوئے چینی حکومت نے خیال کیایہ پیداوار عوام کی ضرورت سے زیادہ ہے، خصوصاً چاول کی فصل بڑھا چڑھا کر پیش کی گئی لہذا حکومت نے لاکھوں ٹن چاول برآمد کرنے کا اعلان کر دیا۔
حکومت نے چاول سے حاصل شدہ سرمائے سے اسلحہ اور بھاری مشینری خرید لی، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صرف چند ما ہ میں چین عظیم قحط کا شکا رہو گیا۔ چینی معیشت بیٹھ گئی، 56ملین چینی مر گئے، خانہ جنگی کا ماحول بنا، تشدد اور قتل و غارت گری کا آغاز ہوا او ر پورا چین افرا تفری کا شکار ہو گیا۔ یہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا خود ساختہ قحط تھا اور اس قحط سے خوفناک قتل عام کا آغاز ہوا، ماؤزے تنگ اور کمیونسٹ پارٹی پر شدید تنقید ہوئی اور پارٹی کے سینئر ارکان لیو شاؤچی اور ڈینگ شیائوپنگ نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ ایک طرف چین داخلی سطح پر قحط کا شکار تھا اور دوسری طرف دنیا اس قحط سے بے خبر چینی زراعت کے کرشموں سے مسحور ہو چکی تھی، عالمی پریس چین اور ماؤزے تنگ کے گیت گا رہا تھا، دنیا کے دوسرے ممالک چینی ماڈل کو اپنانے کے منصوبے بنا رہے تھے اور کچھ نے تو شروعات بھی کر دی تھیں۔ تنزانیہ کے صدر جولیس نارائر سب پر سبقت لے گئے، جولیس نارائر نے چینی طرز پر زرعی پالیسی جاری کر دی، کسانوں کو مشرکہ کھیتوں میں کام کرنے پر اکسایا گیا، نجی زراعت پر پابندی لگا دی اور نچلی سطح پر پالیسی کے نفاذ کے لیے پولیس اور فوج کو مکمل اختیارات دے دیے۔ فوج نے لاکھوں کسانوں کو اجتماعی کھیتوں میں منتقل کر دیااور انہیں بزور کام پر مجبور کیا۔ سرکاری پریس میں ان کھیتوں کو جنت نظیر فارم ڈکلیئر کیا جاتا تھا، جب یہ کسان فارمز میں پہنچے تو انہیں کچھ بھی میسر نہیں تھا، کھیت نہ گھر، کاشتکاری کے لیے زمین نہ ہل چلانے کے اوزار۔ یہاں بھی وہی کھیل کھیلا گیا، دار الحکومت دار السلام میں بیٹھ کر رپورٹس لکھی گئیں اور ان رپورٹس میں بتایا گیا کہ فلاں علاقے کے کسانوں کو فلاں فارم میں منتقل کر دیا گیا ہے، بتایا گیا کہ ملک بہت اوپر جا رہا ہے، زراعت ترقی کر رہی ہے اور کسان خوشحال ہو رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افریقہ کا وہ ملک جو غذائی اجناس برآمد کر تا تھا درآمد کرنے پر مجبور ہو گیا، صرف دس سال میں تنزانیہ آسمان سے زمین پر آ گرا، ملکی معیشت تباہ و برباد ہو گئی اورکسان پچاس سال پیچھے چلا گیا۔
میں موجودہ حکومت کی کارکردگی دیکھتا ہوں تو مجھے ماؤزے تنگ اور جولیس نارائریاد آ جاتے ہیں، پی ٹی آئی حکومت کو اقتدار سنبھالے تقریبا دو سال ہو نے والے ہیں، ان دو سالوں میں ملک کے کسی بھی شعبے میں بہتری آئی ہو تو مجھے بتا دیجئے، قرضوں میں کمی ہوئی ہو، معیشت بہتر ہوئی ہو، آئی ایم ایف سے قرض نہ لیا ہو، یا قرض لیا ہو اور شرم سے خود کشی کر لی ہو، دوسرے ممالک اور مالیاتی اداروں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلا یا ہو، غریب آدمی اوپر آیا ہو، کرپشن ختم ہو ئی ہو، امیر وں کو ٹیکس نیٹ میں لایا ہو، لوگ غربت کے مارے خودکشیوں سے بچ گئے ہوں، ماں باپ بھوک کے مارے اولاد کو ذبح نہ کر رہے ہوں اور بے روزگاروں کو روز گار ملا ہو۔ ملک میں کوئی نیا منصوبہ شروع ہوا ہو، وزیر اعظم ہاؤس میں یونیورسٹی بنی ہو، گورنر ہاؤسز ختم ہوئے ہوں، امیر اور غریب ایک لائن میں کھڑے ہوئے ہوں، قانون امیروں اور غریبوں سب پر یکساں لاگوہوا ہو اور چینی چوروں کو سزا ہوئی ہو۔ مجھے دکھا دیجئے ہیلتھ سسٹم میں کوئی بہتری آئی ہو، کوئی نیا ہسپتا ل بنا ہو، پہلے سے موجود ہسپتالوں میں کوئی نئی سہولت متعارف ہوئی ہو، غریب کا علاج مفت ہوا ہو، غریبوں کو صحت کارڈ دیے گئے تھے ان پر کسی کا علا ج ہوا ہو، ڈینگی کنٹرول ہواہو، پولیو کیسز ختم ہوئے ہوں، ڈاکٹروں کے مسائل حل ہوئے ہوں اور بی ایچ یو کی سطح پر وہ تمام سہولیات دستیاب ہوں جو پہلے ادوار میں میسر تھیں۔ مجھے دکھا دیجئے ایجوکیشن سسٹم میں کوئی بہتری آئی ہو، یکساں نصاب تعلیم رائج ہو ا ہو، امیر اور غریب اکٹھے تعلیم حاصل کرتے ہوں، یونیورسٹیوں میں ریسرچ کا رجحان بڑھا ہو، کالجز کے نظام میں بہتری آئی ہو، سکولوں میں بہتری آئی ہو، اساتذہ کے مسائل حل ہوئے ہوں، پرائیویٹ سکولوں کا احتجاج ختم ہو ا ہو۔ مجھے دکھا دیجئے ٹرانسپورٹ سسٹم میں کوئی بہتری آئی ہو، مزید سڑکیں بنی ہوں، پہلے سے موجود سڑکیں اپنی اصلی حالت پر رہی ہوں، کسی اور شہر میں میٹرو یا اس کا متبادل انتظام ہو ا ہو، صرف تین ماہ بعد چلنے والی اورنج ٹرین دو سال بعد بھی چلی ہو، فردوس مارکیٹ والے حلال انڈر پاس کے علاوہ کسی اور انڈرپاس کی بنیاد رکھی گئی ہو، ٹرینوں کا سسٹم بہتر ہوا ہو، وقت کی پابندی ہوئی ہو، پی آئی اے کے مسائل حل ہوئے ہوں اور عوام کی سہولت کے لیے کوئی منصوبہ شروع ہوا ہو۔ کالم کی تنگ دامنی کے پیش نظر یہاں تمام شعبوں کا تذکرہ ممکن نہیں، بنیادی مقدمہ یہی ہے کہ ان دوسالوں میں یہ ملک کسی بھی شعبے میں دو انچ آگے بڑھا ہو تو مجھے دکھا دیجئے، میں نے شروع میں لکھا تھا یہ ملک اپنی موجودہ ہیئت کو بھی برقرار رکھ لے تو بڑی بات ہو گی۔ صرف دو سالوں میں ملکی تاریخ کا سب سے زیادہ قرض لیا جا چکا ہے۔ سرکاری ادارے، میڈیا اور حکومتی ترجمان بائیس کروڑ عوام کو پاگل بنا رہے ہیں، یہ ملک ڈوب رہا ہے، یہ غلط ٹریک پر چل رہا ہے۔ حکومتی رپورٹس، اقتدار کے پجاری، ضرورت سے زیادہ پر امید لکھاری اور حکمران ماؤزے تنگ بن کر اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں، خاکم بدہن پانچ سال بعد یا اس سے قبل جب یہ ملک یکے بعد دیگرے مختلف بحرانوں کا شکار ہو گاتب چینی عوام کی طرح ہماری آنکھیں کھلیں گی کہ ہمارے ساتھ ہوا کیا۔