دوسری جنگ عظیم عروج پر تھی، 1940میں نازی فوج شمال کی طرف سے فرانس کا گھیراؤ کر چکی تھی۔ ہٹلر کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا اور نازی فوج ہلاکو خان کے لشکر کی طرح راستے میں آنے والی ہر شے کو تہس نہس کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی، شمالی فرانس میں اکثریت یہودیوں کی تھی لہٰذانازی فوج کا اصل ہدف فرانسیسی یہودی تھے۔ شمال کی جانب سے محاصرے کے بعد فرانسیسی یہودیوں کے پاس صرف جنوبی فرانس کا راستہ بچا تھا کہ وہ اس راستے سے ہمسایہ ملک سپین یا پرتگال کی طرف ہجرت کر جاتے لیکن اس کے لیے مسئلہ یہ تھا کہ سپین یا پرتگال میں داخلے کے لیے ویزہ ضروری تھا۔ فرانس میں موجود پرتگالی قونصلیٹ میں پہلے ہی بہت رش تھا، جنگ سے خوفزدہ لاکھوں فرانسیسی ویزہ کے حصول کے لیے روزانہ پرتگالی قونصلیٹ کے باہر جمع ہو جاتے تھے، اب یہودی بھی اس رش میں شریک ہو چکے تھے۔
دوسری طرف پرتگالی حکومت نے قونصلیٹ کو ہدایات جاری کیں کہ وزارت خارجہ کی منظوری کے بغیر ویزے جاری نہ کیے جائیں، اب صورت حال عجیب شکل اختیار کر چکی تھی، لاکھوں یہودی پرتگالی قونصلیٹ کا محاصرہ کر چکے تھے جبکہ پرتگالی حکومت ویزے جاری کرنے کے حق میں نہیں تھی، قونصل جنرل اریسٹائڈس ڈی سوزا مینڈس نے اپنی نوکری داؤ پر لگا نے کا فیصلہ کر لیا، اس نے فرانسیسی یہودیوں کو دھڑا دھڑ ویزے جا ری کرنے شروع کر دیے اور دن رات مسلسل ویزے جار ی کرتا رہا، وہ اور اس کی ٹیم دس دن تک مسلسل ویزے جاری کرتے رہے، وہ چوبیس گھنٹوں میں صرف کھانے کے لیے پانچ منٹ کا وقفہ کرتے تھے، ٹھیک دس دن بعدجب نازی ٹینک جب شمالی فرانس پہنچے تو ڈی سوزا مینڈس تیس ہزاریہودیوں کو ویزے جا ری کر چکا تھا۔ پرتگالی حکومت کو خبر ہوئی تو اس نے ایک ٹیم بھیجی جو سوزا مینڈس کو گرفتار کر کے لے گئی اور اسے ہمیشہ کے لیے نوکری سے برخاست کر دیا گیا۔
یہاں آپ ایک حقیقت ملاحظہ کریں کہ وہ پرتگالی حکومت جو فرانسیسی مہاجرین کو قبول کر نے کے لیے تیار نہیں تھی، تیس ہزار جاری شدہ ویزوں کے بارے میں اس کے پاس بھی کوئی چارہ نہیں تھا، وہ اپنی ریاستی پالیسی کے باجود ان ویزوں کو قبول کرنے پر مجبور تھی، یہ ایک نمائشی کاغذ اور فرضی تحریر کا وہ جال تھا جس نے تیس ہزار یہودیوں کو موت کے منہ سے نکال لیا تھا۔ ہم سات ارب انسانوں نے اپنے ارد گر د بہت سے فرضی جال بن رکھے ہیں، ان میں سے ایک جال کاغذ کے ٹکڑے اور فرضی تحریروں کاجال ہے، زندگی میں بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ سچائی اور فرضی تحریر یں مد مقابل کھڑی ہوتی ہیں اور ہم جانتے بوجھتے فرضی تحریرو ں کو سچائی پر ترجیح دینے پر مجبورہوتے ہیں۔ ایک ٹریفک وارڈن جو خود ٹریفک اشاروں اور رولز پر یقین نہیں رکھتا وہ ہمیں ان کی خلاف ورزی پر سزائیں کر رہا ہوتا ہے، کیوں، کیونکہ یہ فرضی تحریروں میں لکھا ہوا ہے۔ کاغذی کرنسی کے بارے میں ہر صاحب شعور جانتا ہے کہ یہ محض نمائشی کاغذ اور فرضی تحریر ہے مگر اس کے باوجود ہم سب اس پر ایمان رکھتے ہیں۔
تقسیم کے وقت پنجاب کو دوحصوں میں بانٹ دیا گیا، بہت سی قوموں اور برادریوں کو جغرافیائی سرحدوں کا اسیر بنا دیا گیا کیونکہ یہ فرضی تحریروں میں لکھ دیا گیا تھا حالانکہ سچائی اس کے متضاد کھڑی تھی۔ تحریر اور سچائی میں تصادم ہو تو سچائی کو ہار ماننا پڑتی ہے لیکن ہم سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ شاید سچائی یہی تھی، انیسویں اور بیسویں صدی میں کئی یورپی طاقتوں نے مل کرافریقہ پر قبضہ کر لیا تھا، اس ڈر سے کہ کہیں یہ طاقتیں آپس میں نبرد آزما نہ ہو جائیں انہوں نے فیصلہ کیا کہ مل بیٹھ کر افریقہ کو تقسیم کر لیا جائے۔ برطانیہ، فرانس اور جرمنی 1884میں برلن میں جمع ہوئے اور ایک ڈبل روٹی کی مانند افریقہ کو ٹکڑوں میں تقسیم کر لیا، قطع نظر اس کے کہ افریقہ کی جغرافیائی اور مذہبی و لسانی سچائیاں کیا کہتی ہیں۔ ان تینوں ممالک کے پاس افریقہ کے ساحلی علاقوں کے نقشے تو موجود تھے مگر براعظم کی اندرونی ساخت، جغرفیائی حقیقتیں اور مذہبی و لسانی سچائیاں کیا تھیں انہیں اس بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔
انہیں افریقہ کے اندرونی خطوں، تاریخ، مذہب اور قبیلوں کی سچائیوں سے بھی کوئی سروکار نہیں تھا اس لیے انہوں نے برلن کے ایک خوبصورت ہال میں صاف شفاف میز پر افریقہ کا نقشہ بچھایا، اس پر آڑی ترچھی لکیریں کھینچیں اور افریقہ کے مستقبل کا فیصلہ کر دیا، اصل سچائیاں سر پیٹتی رہیں مگر چند فرضی حروف پر مبنی تحریر ان سچائیوں کا منہ چڑا رہی تھی۔ بعد میں یہ ممالک افریقہ کے اندرونی علاقوں میں گئے تب اندازہ ہوا کہ یہ سب تو غلط تھا، لیکن دوبارہ جنگ کے خوف نے انہیں انہی نقشو ں پر جمے رہنے پر مجبور کر دیا، بعد میں یہی فرضی لکیریں نو آبادیات کی اصل سرحدیں قرار پائیں۔ بیسیوں صدی کے دوسرے نصف میں سامراجی طاقتیں واپس گئیں تو نئے ممالک نے بھی جنگوں کے خوف سے انہی لکیروں کوسر حد یں تسلیم کر لیا۔ موجودہ افریقی ممالک کے بہت سے مسائل کی جڑ یہی فرضی لکیریں ہیں جنہیں برا عظم افریقہ کی حتمی سچائیوں کے برعکس فرضی تحریروں نے قائم کیا اور سہارا دیا تھا۔
ان فرضی جالوں کی ایک عمدہ مثال ہمارا نظام تعلیم ہے، سرمایہ دارانہ نظام نے ہر چیز کو عددی اعتبار سے پرکھنا شروع کیا تو نظام تعلیم بھی اس کی زد میں آئے بغیر نہ رہ سکا، حکومتوں اور اداروں نے عددی زبان کو معیار بنایا تو تعلیمی اداروں نے بھی اسی معیار کو اپنا لیا اور اس طرح حقیقت اور سچائی عددی تحریر کے پیچھے چھپ گئی، اب تعلیمی اداروں میں اساتذہ اور طلبہ کی ذہانت و قابلیت کا معیار عددی نمبر سمجھے جاتے ہیں۔ ماضی میں ایسا نہیں تھا، امام ابوحنیفہ اور امام شافعی کے زمانے میں عددی اعتبار سے جانچ نہیں ہوتی تھی، شکسپیئر کے زمانے تک آکسفورڈ یونیورسٹی میں انڈر گریجوایٹ طلبہ کے لیے دو ہی درجے تھے، ڈگری کے ساتھ یا ڈگری کے بغیر۔ صنعتی دور میں عددی پیمانہ عروج پر پہنچا، پہلے تعلیمی اداروں کی کوشش ہوتی تھی کہ طلبہ کی ذہنی حالت کو بہتر بنایاجائے، انہیں غور و فکر اور تجزیے کی صلاحیت سے نوازا جائے لیکن بیسویں ا ور اکسیویں صدی میں نمبروں کو ہی سب کچھ سمجھا جانے لگا۔
تعلیمی اداروں میں ہر بچے کو علم ہے کہ حیاتیات، طب، کیمیا اور ریاضی میں اچھے نمبر آئیں گے تو وہ کامیاب تصور ہو ں گے، سرکاری اداروں میں بھرتی کے لیے بھی نمبروں کو ہی بنیاد بنایا جاتا ہے، جب سب کو معلوم ہے کہ قابلیت و صلاحیت کی بجائے عددی نمبر ہی اصل معیار ہیں تو کیوں نہ ا ن کو مقصود بنایا جائے۔ یہ فرضی نمبروں کا وہ جال ہے جس نے انسانی سماج کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے اورہم جانتے بوجھتے حتمی سچائیوں کو نظر انداز کر کے ان فرضی اعداد کو اپنانے پر مجبور ہیں۔ اس جال کی تباہ کاریوں کی ہلکی سی جھلک سی ایس ایس کا حالیہ رزلٹ ہے، 39630امید واروں نے امتحان کے لیے درخواست دی، آدھے سے زاید امتحان کے خوف سے شامل ہی نہیں ہوئے، 18553نے امتحان میں شرکت کی اور ان میں سے بھی صرف 376 امیدوار کامیاب ہوئے۔ کیا آپ نے اپنے گرد بنے ان فرضی جالوں کے بارے میں کبھی سوچا، کیا آپ کو نمائشی کاغذ اور فرضی تحریروں کی اہمیت کا اندازہ ہوا؟