3 نومبر2020کو امریکہ میں الیکشن ہوئے اور 21جنوری 2021 کوامریکی صدر نے حلف اٹھا لیا۔ امریکہ کے سیاسی نظام میں الیکشن اور حلف کے درمیان ڈھا ئی سے تین ماہ کا فاصلہ ہو تا ہے اور یہی ڈھائی تین ماہ امریکی سیاسی نظام کی خوبی ہیں۔ امریکہ کے سیاسی نظام میں یہ ڈھائی تین ماہ بہت قیمتی ہوتے ہیں، ان تین ماہ میں نئی منتخب حکومت کو گزشتہ حکومت کی پالیسیوں کے بارے میں بریف کیا جاتا ہے، دنیا بھر میں امریکی مفادات کے تحفظ کا طریقہ سکھایا جاتا ہے، نئے صدر کو مختلف ممالک کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کی تفصیل بتائی جاتی ہے، خارجہ تعلقات اورپالیسی کے خدوخال سمجھائے جا تے ہیں، امریکی جنگوں کی تفصیل بتائی جا تی ہے، پروٹو کول کا تعین کیاجاتا ہے، سی آئی اے اور ایف بی آئی کے خفیہ منصوبوں کی تفصیل بتائی جاتی ہے، آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کا طریقہ کا ر سمجھایا جاتا ہے، جیو پالیٹکس کے اصول بتائے جاتے ہیں، عالمی دجالی منصوبے سے روشناس کروایا جاتا ہے اورامریکہ کے اندرونی معاملا ت کی کہانی سنائی جا تی ہے۔ نئی حکومت کو گزشتہ حکومت کی پالیسیوں کے بارے میں بریف کیاجاتا ہے، نئی کا بینہ کو تعلیم، صحت، اقتصادیات اور ٹرانسپورٹ کے مسائل بتائے جاتے ہیں، امریکی آئین اور قانون کی ورق گردانی کروائی جا تی ہے اور اس طرح ڈھائی تین ماہ میں نئی حکومت اور کابینہ کو سارا سسٹم سمجھادیا جاتا ہے۔ اس کا دوسرافائدہ یہ ہوتا ہے کہ ان ڈھائی تین ماہ میں گزشتہ حکومت کو اپنی کارکردگی سمیٹنے کا موقع مل جاتا ہے، فوری نوعیت کے فیصلے کرنے میں آسانی ہوتی ہے، بیرونی ممالک سے سفارت کار ی متاثر نہیں ہوتی، حکومت اپنے جاری منصوبوں کو مکمل کر لیتی ہے، الوداعی پار ٹیوں کے لئے وقت مل جاتا ہے اور اسی عرصے میں وزراء سرکاری رہائش گاہوں کو خالی کر دیتے ہیں، بجلی، پانی، فون اور گیس کے بل جمع کروانے کے لئے وقت مل جاتا ہے، نئے وزراء اپنے سامان کو سرکا ری رہائش گاہوں میں شفٹ کر لیتے ہیں۔ اس طرح امریکی سیاسی نظام میں انتقال اقتدار کا مرحلہ بڑی خوش اسلوبی سے طے پاجاتا ہے اور نئی حکومت بڑی آسانی سے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیتی ہے، اس طرح انتقال اقتدار سے سیاسی سسٹم کو دھچکا بھی نہیں لگتا اور نگران حکومت کے قیام کی ضرورت بھی پیش نہیں آتی۔ ان ڈھائی تین ماہ میں نئی حکومت کو وہ سب کچھ سمجھا دیا جاتا ہے جو ہماری حکومتیں پانچ سال حکومت کرنے کے بعد سیکھتی ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں نگران حکومت کے قیام کے لیئے طویل مذاکرات ہوتے ہیں، سیاسی فضا میں طوفان آجاتا ہے، ملک میں بے چینی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور اس سارے عمل میں لاکھوں کروڑوں روپیہ خرچ کر دیا جاتا ہے۔ نگران حکومت قائم ہوتی ہے تواپنے مفادات کے لیے قو می خزانے کا منہ کھول دیتی ہے، من پسند افراد کو اہم عہدوں پر تعینات کیا جاتا ہے اور جاتے جاتے یہ اپنے لئے تا حیا ت مراعات کا بل بھی پاس کر لیتی ہے۔
ہمارے سسٹم کی دوسری خرابی یہ ہے کہ ہمارے ہاں انتخابات ہوتے ہیں، ہارس ٹریڈنگ اور فلور کراسنگ کے ذریعے حکومتیں بنتی ہیں اور اتحادیوں کو ساتھ ملانے کے لئے وزارتیں بانٹ دی جاتی ہیں۔ حکومتیں اتحادیوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتی رہتی ہیں اور انتظامیہ کا فوکس کام کے بجائے پانچ سال پورے کرنے پرہو جاتاہے۔ اتحادیوں کو راضی رکھنے کے لیے نااہلوں کو اختیارات بانٹ دیے جاتے ہیں، بی اے پاس کوتعلیم کا وزیر بنا دیا جاتا ہے، میٹر ک پاس کو پی آئی اے کا محکمہ سونپ دیا جاتا ہے، گاؤں سے منتخب ہونے والے ایم این اے کو سائنس و ٹیکنالوجی کا وزیر بنا دیا جاتا ہے، بیمار ایم این اے کو وزیر صحت بنادیا جاتا ہے، جسے بولنے کی تہذیب نہیں ہوتی اسے وزیر اطلاعات و نشریا ت بنا دیا جاتا ہے اور جسے اقتصادیات کے مفہوم کا پتا نہیں ہوتا اسے خزانے کا وزیر لگا دیا جا تا ہے۔ در اصل ہم نے اس ملک کو سیاسی اکھاڑا سمجھ لیا ہے جس میں ہر پانچ سال بعد ایک نئی جماعت میدان میں اترتی ہے اور اس ملک اور عوام کا خون چوس کر نکل جاتی ہے۔ یہ ملک اپنے قیام کے دن سے ہی حکمرانوں کے لئے سیاسی تجربہ گاہ بنا ہوا ہے اور ہر نیا لیڈر اس تجربہ گاہ میں نت نئے تجربات کر رہا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں ایسا نہیں ہو تا، ہر جانے والی حکومت نئی حکومت کو اپنی پالیسیوں، ترقیاتی منصوبوں اور خارجہ پالیسی سے آگا ہ کر دیتی ہے اور یوں وہاں سسٹم کو دھچکا نہیں لگتا اور نظام پہلے کی طرح چلتا رہتا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، اٹلی، جرمنی اور یورپ کے دیگر کئی ممالک میں تو اپوزیشن بھی باقاعدہ اپنی کابینہ تشکیل دیتی ہے جو ایک طرف حقیقی کابینہ کی سرگرمیوں پر نظر رکھتی ہے اور دوسری طرف وہ خود سیکھ رہی ہوتی ہے کہ حقیقی کابینہ کے فرائض واختیارات کیاہیں، حقیقی کابینہ کہاں غلطیاں کر رہی ہے اور اقتدار میں آکر ان غلطیوں سے کیسے بچنا ہے، یہ ساری صورتحال ان ممالک کے سیاسی سسٹم کو مضبوط رکھتی ہے اور یوں وہاں حکومتوں کے آنے جانے سے کو ئی فرق نہیں پڑتا۔
پچھلے ہفتے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں جو ہوا اس نے سیاستدانوں کا اصل چہرہ عوام کے سامنے رکھ دیا ہے، اگر کسی نے نہیں دیکھا تو یہ آپشن اب بھی موجود ہے، یوٹیوب پر جائیں اور اپنے حلقے کے نمائندے کی اصلیت دیکھ لیں کہ جنہیں آپ نے اپنے مسائل کی نمائندگی کے لیے بھیجا تھا یہ مہان وہاں جا کر کیا گل کھلا رہے ہیں۔ سیالکوٹ میں سیکڑوں اہل علم، پی ایچ ڈی ڈاکٹرز، سماجی ماہرین، علماء اور نوجوان ہوں گے جو اس ملک اور عوام کے ساتھ مخلص ہوں گے، جو اس ملک کی تقدیر بدل سکتے ہوں گے مگر قرعہ فال ایک بدنام سیاسی کردار کے نام نکلتا ہے اور اسے وزارت اطلاعات سونپ دی جاتی ہے۔ کیا یہ سیالکوٹ کے ہزاروں لاکھوں پڑھے لکھے، مہذب، اہل علم، علماء، سماجی کارکنان اور نوجوانوں کے لیے باعث عار نہیں۔ یہ صرف ایک مثال ہے ورنہ کوئی بھی سیاستدان ایسا نہیں جس کے علاقے کے عوام اس پر رشک کر سکیں۔ پچھلی حکومتوں کی طرح یہ حکومت بھی محض اپنے پانچ سال پورے کرنے کے چکر میں ہے، سب اپنے مفادات اور پروٹوکول انجوائے کر رہے ہیں۔ جیسے ہی پانچ سال پورے ہوں گے یہ شہد کی مکھیوں کی طرح عوام کا خون چوس کر اڑ جائیں گے اور یہ ملک وہیں کا وہیں کھڑا رہے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس ملک کے مستقبل کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا جائے، اس کے انتخابی نظام کی اصلاح کی جائے، اسمبلیوں میں ہنگامے کرنے کے بجائے پڑھے لکھے، تہذیب یافتہ، ملک کا در درکھنے والے اہل علم، علماء اور نوجوانوں کو آگے آنے کا موقع دیا جائے۔ یقین کریں جب تک ہم ان روایتی سیاستدانوں اور روایتی انتخابی سسٹم سے جان نہیں چھڑائیں گے ہم آگے نہیں بڑھ سکیں گے، ہم دائروں میں سفر کرتے رہیں گے اور خود کو دھوکا دیتے رہیں گے۔