آپ نے چنگیز خان اور ہلاکوخان کی تاریخ پڑھی ہو گی اور اس تاریخ میں آپ نے بغداد کی تباہی اور کھوپڑیوں کے میناروں کا تذکرہ بھی پڑھا ہو گا۔ آپ نے یہ بھی پڑھا ہو گا کہ دریائے فرات کا پانی مسلمانوں کے خون سے رنگین ہو گیا تھا اور یہ بھی پڑھا ہو گا کہ ہلاکوخان نے پوری پوری لائبریریوں کو جلا کر دریا برد کر دیا تھا۔ آپ نے چنگیز خان کے ہاتھوں خوارزم شاہی سلطنت کی تباہی کی داستان بھی پڑھی ہو گی اور آپ نے یہ بھی پڑھا ہو گا کہ اٹک میں دریائے سندھ کے کنارے جلال الدین نے تن تنہا چنگیز خان کی فوجوں کو بے بس کر دیا تھا، آپ نے جلال الدین کے دریائے سندھ میں گھوڑے ڈالنے اور بپھرے ہوئے دریا کو کامیابی سے عبور کرنے کی کہانی بھی پڑھی ہو گی اور آپ نے جلال الدین کی اس جرأت و بہادری پر جھک کر سلا م بھی کیا ہو گا۔ آپ نے یہ جملہ بھی پڑھا ہو گا کہ کرہ ارض اور انسانی تاریخ میں فتنہ تاتار سے بڑھ کو کوئی فتنہ نمودار نہیں ہوا، اس کے ساتھ آپ نے مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور بے بسی کی داستانیں بھی پڑھی ہوں گی، آپ نے بغداد کے خلیفہ کا چنگیز خان کو لکھا ہوا وہ خط بھی پڑھا ہو گا جس میں اس نے چنگیز خان کو خوارزم شاہی سلطنت پرحملے کی دعوت دی تھی اور ساتھ یہ بھی لکھا تھا کہ میں غیر جانبدار رہوں گا۔ یہ خط کس طرح ایک قاصد کے سر کو مونڈھ کر اس پر کھدوا یا گیا تھا آپ نے یہ ڈرامائی کہانی بھی پڑھی ہو گی۔ یقینا آپ نے یہ سار ے کر دار پڑھے ہوں گے اور آپ بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوئے ہوں گے۔
میری طرح آپ بھی یہ سوچتے ہوں گے کہ یہ سب کیسے ہوتا رہا، مسلم حکمران اور عوام اتنے بے بس اوربے حس تھے، خلیفہ بغداد نے چنگیز اور ہلاکو خان کو خودخوارزم شاہی سلطنت پر حملے کی دعوت کیوں دی، وہ مسلم سلطنت اور عظیم سپہ سالار کی تباہی پر غیر جانبدار کیوں رہا اور بغداد کی رعایا نے خلیفہ کے اس غلط قدم کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھائی۔ آپ یہ بھی سوچتے ہوں گے کہ جب تاتاری لشکر اسلامی تہذیب کے عظیم شہروں نیشا پور، مرو، بلخ، بخارا اور سمر قند کو نیست و نابود کر رہا تھا تب بغداد کی اسلامی سلطنت، اندلس کے مسلم حکمران اور لاکھوں کروڑوں مسلم رعایا کہاں سو رہی تھی۔ میری طرح آپ یہ بھی سوچتے ہوں گے کہ جلال الدین نے جب پران کے مقام پر تاتاری فوجوں کو شکست دی تھی اور تاتاری فوج کے حوصلے پست ہو گئے تھے تب مال غنیمت پر لڑائی کیوں شرو ع ہو گئی تھی۔ امین الملک اور سیف الدین نے اس نازک موقع پر جھگڑا کیوں کیا تھا اور سیف الدین اپنی فوج کو لے کر لشکر سے الگ کیوں ہو گیا تھا اور یہ تو آپ ضرور بالضرور سوچتے ہوں گے کہ جب جلال الدین چنگیز خان کو بے بس کر کے اپنے مٹھی بھر ساتھیوں سمیت دریائے سندھ کو عبور کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا اور چھپتا چھپاتا ہندوستان کے مختلف علاقوں سے ہوتا ہوا سلطنت دہلی پہنچا تھا تو التمش نے جلال الدین کو پناہ کیوں نہیں دی تھی، اس نے جلال الدین کی حمایت اور اس کی مدد سے انکار کیوں کر دیا تھا۔ آپ یہ بھی سوچتے ہوں گے کہ جلال الدین نے کس طرح ہندوستان کی مختلف ریاستوں سے اپنا ایک لشکر ترتیب دیا تھا او روہ کیسے ایک چھوٹی سی مملکت بنانے میں کامیاب ہوا تھا۔
اگر آپ سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو آپ نے یہ بھی ضرور سوچا ہوگا کہ جب جلال الدین بذات خود چل کر بغداد کے خلیفہ ناصر کے پاس پہنچا تھا تو خلیفہ ناصر نے بات چیت کے بجائے جلال الدین کے لشکر پر حملہ کیوں کر دیا تھا۔ اور یہ سوال تو آپ نے لازمی سوچا ہو گاکہ جلال الدین کا انجام کیا ہوا تھا، اس کا آخری وقت کہاں گزرا اورآج بھی اس کی قبر کہاں ہے۔ یہ صرف وہ سوالات ہیں جو بغداد اور خوارزم شاہی سلطنت سے متعلق ہیں، اگر آپ تاریخ کے طالب علم ہیں اور آپ نے مسلم امہ کے زوال کی تاریخ پڑھی ہے تو آپ نے یہ سارے سوالات اندلس کے زوال کے وقت بھی سوچے ہوں گے، غزنوی، غوری اور ہندوستان کی مختلف سلطنتوں کے زوال کے وقت بھی یہ سوالات آپ کے سامنے آئے ہوں گے، مصر اور افریقہ کی مسلم سلطنتوں کے زوال کے وقت بھی آپ نے ان سوالات کا سامنا کیا ہو گا، سلطنت عثمانیہ کا زوال تو کل کی بات ہے اور اس کے زوال میں عرب حکمرانوں کا کیا کردار تھا یہ تازہ تازہ سوال تو آپ کو مستحضر ہی ہوں گے۔ یہ سوالات سوچتے وقت آپ کا مجموعی تاثر یہ ہوگا کہ یہ سب کیسے ہوگیا، حکمرانوں کی بے حسی اور ہوس اقتدار بجا مگر عالم اسلام کے عظیم سانحات کے وقت مسلم قیادت، مذہبی فکر اور لاکھوں کروڑو ں رعایا کا کردار کیا تھا اور انہو ں نے آگے بڑھ کر کوئی کردار کیوں ادا نہیں کیا۔
اگر آپ سینے میں دھڑکتا ہوا دل رکھتے ہیں تو یقینا یہ تمام سوالات آپ کو بے چین کرتے ہوں گے اور آپ ان سوالات کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش بھی کرتے ہوں گے۔ آئیے میں آپ کو ان سوالات کے جوابات دیتا ہوں، آپ ان سوالات کو آج یعنی 8فروری 2021کے آئینے میں دیکھیے، مستقبل کا مؤرخ جب آج کی تاریخ لکھے گا تو وہ بتائے گا جب شام جل رہا تھا، جب لاکھوں شامی مسلمان مہلک زہریلی گیسوں سے مار دیئے گئے تھے، جب شامی بچوں کی لاشیں ساحل سمندر سے ملا کرتی تھیں اور جب اہل یورپ کہا کرتے تھے ہم حیران ہیں کہ شامی مسلمان مکہ و مدینہ چھوڑ کر یورپ کی طرف کیوں ہجرت کر رہے ہیں۔ جب فلسطینی مسلمان جنازے اٹھا اٹھا کر تھک چکے تھے، انہیں ان کے گھروں اور آبائی زمین سے بے دخل کیا جا رہا تھا اور یہودی فوجی فلسطینی ماؤں بہنوں کو سر عام دھکے دیتے تھے۔ جب افغانستان میں دنیا کی چالیس سے زائد ملکوں کی فوج چڑھ آئی تھی اور لاکھوں افغانی مسلمانوں کو مہلک ترین میزائلوں سے شہید کر دیا گیا تھا، جب اسی لاکھ کشمیریوں کو بنیادی ضروریات زندگی سے محروم کر دیا گیا تھا، ان کے گھروں کو جیل بنا دیا گیا تھا اور روز ان کے گھروں سے جنازے اٹھا کرتے تھے، جب افریقہ کے مسلمان بھوک سے مجبور ہو کر عیسائی مشنریوں کے ہاتھوں اپنا ایمان بیچ رہے تھے۔
مؤرخ لکھے گا تب دنیا کی واحد مسلم ایٹمی طاقت کے حکمران قانون سازی کے اداروں میں گتھم گتھا تھے، سیاستدان حکومتیں بنانے اور گرانے میں مصروف تھے اورتئیس کروڑ عوام بے حسی کی چادر اوڑھے سو رہے تھے۔ مذہبی فکر بسم اللہ کے گنبد میں بند تھی، سرمایہ دار سرمایہ اکٹھا کرنے میں مصروف تھے اور تعلیمی ادارے اور جامعات تفریح گاہیں بنی ہوئی تھیں۔ مؤرخ لکھے گا تب مکہ و مدینہ کے حکمران بے حسی کی چادر اوڑھے امریکہ کی گود میں سو رہے تھے اور اپنے اقتدار کو طول دینے میں مصروف تھے۔ عرب ممالک اپنا ڈیڑھ انچ کا ملک اور چند دن کا اقتدار بچانے کے لیے چپ سادھے بیٹھے تھے، عرب امارات معیشت بچانے کے لیے اسرائیل سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہا تھا، افریقی ممالک بھوک مٹانے کے لیے کسی بھی طاقت کے آگے جھک جاتے تھے اور ان تمام ممالک کے رعایا خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ میرا خیال ہے آپ کو اپنے سوالات کے جوابات مل گئے ہوں گے، مستقبل کا مؤرخ اور تاریخ کا طالب علم جب آج کی تاریخ پڑھے گا تووہ چنگیز اور ہلاکوخان کے ظلم، خلیفہ ناصر، التمش کی ہوس اقتدار اور اس عہد کے رعایا کے کردار کو بھول جائے گا۔ اسے یاد رہے گا تو صرف یہ کہ اکسیویں صدی کے حکمران، مسلم قیادت، مذہبی فکر اور دو ارب ر عایا کا کردار کیا تھا۔ !