صحافت میں ایک اصطلاح بولی جاتی ہے میڈیا مینجمنٹ جس کا مطلب ہوتاہے کہ آپ اپنی ذات سے متعلق کسی ایشو کو میڈیا میں کیسے مینج کرتے ہیں۔ میڈیا مینجمنٹ کے مختلف اصول ہیں مثلاً اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے پاس اپنے دفاع اور اپنے حق میں کوئی مناسب دلیل نہیں ہے تو آپ کوئی ایسا ایشو چھیڑ دیں جو آپ کے ایشو سے زیادہ بڑا اور اہم ہو اور میڈیا اس پر بحث شروع کر دے۔
دوسرا اصول یہ ہے کہ آپ میڈیا کی فیلڈ سے چند لوگوں کو ہائیرکریں اور انہیں اپنا ایجنڈاتھما دیں۔ تیسرا اصول یہ ہے کہ اگر آپ ملک ریاض ہیں تو پورے کے پورے صحافتی ادارے، نیوز ایجنسیاں اور میڈیا فرمیں خرید لیں۔ اس کی بہترین مثال یہودیوں کی میڈیا مینجمنٹ ہے، مثلاً آپ دیکھ لیں دنیا کی بڑی نیوز ایجنسیاں یہودیوں کے کنٹرول میں ہیں، رائٹر دنیا کی مشہور نیوز ایجنسی ہے، دنیا کے بڑے میڈیا ہاؤس بی بی سی، وائف آف امریکہ اور وائس آف جرمنی یہ سب رائٹر سے خبریں خریدتے ہیں۔
یونائیٹڈ پریس، فرانسیسی نیوز ایجنسی اور ایسوسی ایٹڈ پریس دنیا کی بڑی نیوز ایجنسیاں ہیں اور یہ سب بھی یہودیوں کے کنٹرول میں ہیں۔ والٹ ڈزنی اور ٹائم وارنر دنیا کی مشہور میڈیا فرمز ہیں اور یہ بھی یہودیوں کے کنٹرول میں ہیں۔ قصہ مختصردنیا بھر کا میڈیا یہودیوں کے کنٹرول میں ہے اور دنیا میں کوئی ایسی خبر جو یہودی مفادات سے ٹکراتی ہونشر نہیں ہوپاتی۔ یہ میڈیا مینجمنٹ کی بہترین مثال ہے۔ کچھ دن قبل پنجاب کی سرکاری یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز کے انٹرویوز ہوئے، امیدواران میں ایک نام سابق وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ڈاکٹر محبوب اطہر کا تھا۔
وزیر اعلیٰ پنجاب نے ان کی سابقہ کارکردگی دیکھتے ہوئے انہیں مسترد کردیا۔ اس کے اگلے ہی روز ایک مشہور کالم نگار نے چیف منسٹر پنجاب کو مخاطب کرتے ہوئے ڈاکٹر محبوب اطہر کے حق میں کالم لکھ دیا۔ یہ کالم نگار اس سے قبل بھی ڈاکٹر محبوب اطہر کے حق میں زمین آسمان کے قلابے ملا چکے ہیں۔ میں نے یہ کالم دیکھا تو مجھے میڈیا مینجمنٹ کی ٹرم یاد آ گئی۔ ڈاکٹر محبوب اطہر کا کمال یہ ہے کہ یہ میڈیا مینجمنٹ کے ایکسپرٹ ہیں۔ انہوں نے اپنی وائس چانسلرشپ میں مذکورہ کالم نگار کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری سے نوازا تھا لہٰذا ان کے حق میں اتنی سی میڈیا مینجمنٹ تو بنتی تھی۔
انٹر ویوز سے چند دن قبل لاہور کے ایک مشہور ہوٹل میں ملک کے نامور صحافیوں کے ساتھ ڈنر کی تصویر دیکھ کر بھی میں ڈاکٹر محبوب اطہر کی میڈیا مینجمنٹ کا قائل ہوگیا تھا۔ وہ الگ بات ہے کہ یہ بیٹھک کسی کام نہیں آ سکی۔ پچھلے سال اسلامیہ یونیورسٹی کا سکینڈل سامنے آنے کے بعد ان کے خلاف جو تحقیقات ہوئیں اور ایچ ای سی اور ایچ ای ڈی نے جو رپورٹس شائع کی ان رپورٹس کے منظر عام پر نہ آنے اور ہزار جتن کے باوجود انہیں حاصل نہ کرسکنے پر بھی میں ڈاکٹر محبوب اطہر کی میڈیا مینجمنٹ کو" سلام۔ "پیش کرتا ہوں۔
اب ہم آتے ہیں ڈاکٹر محبوب اطہر کے ان کارناموں کی طرف جس کی وجہ سے انہیں نا اہل قرار دیاگیا۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کو یونیورسٹیوں کا دبئی کہا جاتا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ ملک کی سب سے مالدار یونیورسٹی تھی۔ پھر اس یو نیورسٹی کو ڈاکٹر محبوب اطہر جیسے وائس چانسلر مل گئے اور آ ج صورتحال یہ ہے کہ اساتذہ کو تنخواہیں تک نہیں مل رہی۔ مہینے کی پندرہ بیس تاریخ کو بھی آدھی تنخواہ دی جاتی ہے اورپوچھنے پر بتایا جاتا ہے خزانہ خالی پڑا ہے۔
صورتحال یہاں تک کیسے پہنچی اس کے لیے آپ کو وہ پروب رپورٹ پڑھنا پڑے گی جو پچھلے سال پنجاب حکومت کی ایما پرڈاکٹر فریدشریف پر مشتمل چار رکنی کمیٹی نے پنجاب حکومت کو ارسال کی تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق 2019 سے 2023 تک ڈاکٹر محبوب اطہر کی وائس چانسلر شپ میں یونیورسٹی کو تباہ کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ مختلف اہم عہدوں پر نااہل لوگوں کو مسلط کیا گیا، رائٹ مین فار رائٹ جاب کے اصول کی صریح خلاف ورزی کی گئی۔ 400 سے زائد سکیورٹی سٹاف ہونے کے باوجود منشیات پر نظر نہیں رکھی گئی۔ اختیارات کا ناجائز استعمال کیا گیا۔
صورتحال یہ تھی کہ یونیورسٹی بد نظمی اور لا اینڈ آرڈر کی بدترین مثال بن چکی تھی۔ مختلف ڈیپارٹمنٹس اور کمیٹیاں اپنے اپنے مفادات کے تحت چل رہی تھی۔ سکیورٹی کمیٹی، ڈرگ کنٹرول کمیٹی اورہراسمنٹ کمیٹی بالکل غیر فعال تھی۔ سکیورٹی سٹاف پر چیک اینڈ بیلنس نہیں تھا۔ مالی کرپشن انتہاؤں کو چھو رہی تھی، 4 جولائی 2019 کو جی پی فنڈ 29.373 ملین تھا جبکہ30 مئی 2023 کو یہ فنڈ0.171 ملین پر آ گیا۔
30 جون 2020 کو پنشن کنٹری بیوٹری فنڈ46.255 ملین تھا جبکہ یہی فنڈ 30 جون 2023 کو 4.134 ملین رہ گیا۔ ریپئرنگ اور مینٹیننس کے عنوان سے ٹینڈرنگ کے بجائے کوٹیشنز کی مد میں 750.805 ملین روپے کی کرپشن کی گئی۔ سٹریٹ لائٹس کی ریپرئنگ کی مد میں 3.680 روپے دیے گئے۔ ٹرانسفارمرز کی ریپئرنگ کی مد میں 8.114 ملین دیئے گئے۔ 2019 سے 2023 تک احساس سکالرشپ کی مد میں ایچ ای سی کی طرف سے1413.521 ملین روپے یونیورسٹی کو ٹرانسفر ہوئے۔ اتنی بڑی رقم کا استعمال کہاں ہوا کسی کو کچھ نہیں معلوم۔
2022-2023 میں ایچ ای سے نے احساس سکالرشپ کی مد میں 427 ملین روپے یونیورسٹی کو سکالرشپ کی مد میں ارسال کیے۔ ان میں سے327 ملین سکالرشپ اکاؤنٹ سے انکم اکاؤنٹ میں منتقل کرلیے گئے اور سٹوڈنٹس کو بھی نہیں بخشا گیا۔ انٹرنل آڈٹ ٹیم بھی خاموش تماشائی بنی رہی۔ 2022-2023 کے بجٹ میں ہاسٹلز کے لیے جو فنڈ مختص کیے گئے وہ 3 ملین تھے جبکہ ریلیز23 ملین کیے گئے، اوپر والے 20 ملین کہاں گئے کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ غیر متوقع اور چھوٹے موٹے کاموں کے لیے 10 ملین مختص تھے مگر 40 ملین جاری کیے گئے۔
ایڈمن بلاک کے لیے15 ملین مختص تھے مگر 80 ملین جاری کیے گئے۔ غیر قانونی بھرتیاں کی گئی۔ انکم ٹیکس کے عنوان سے اساتذہ اور عملے کی تنخواہوں سے کروڑوں روپے ٹیکس کٹتا رہا مگر وہ حکومت کو جمع نہیں کرایا گیا۔ آج انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ نئی انتظامیہ کو مسلسل لیٹر لکھ رہا ہے کہ پچھلے برسوں کا انکم ٹیکس جمع کرائیں۔ یہ پنجاب حکومت کو ارسال کی جانے والی رپورٹ کے چند حقائق ہیں، اگر آپ اسلامیہ یونیورسٹی کی تباہی کی مکمل داستان جاننا چاہیں تو یہ رپورٹ مجھ سے ای میل پر منگوا سکتے ہیں۔ ایچ ای سی اور ایچ ای ڈی کی رپورٹس اس سے بھی زیادہ خوفناک ہیں اور وہ ڈاکٹر محبوب اطہر کی میڈیا مینجمنٹ نے سامنے ہی نہیں آنے دیں۔
میری چیف منسٹر پنجاب سے گزارش ہے کہ آپ اسلامیہ یونیورسٹی کو اون کریں، یونیورسٹی ا س وقت حالت نزع میں ہے اور آخری سانسیں لے رہی ہے۔ اساتذہ کو تنخواہیں نہیں مل رہی، ریسرچ بند ہو چکی ہے، اساتذہ مایوس ہو چکے ہیں، سٹوڈنٹس کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے اور پوری یونیورسٹی کو نظر لگ گئی ہے۔ اساتذہ اور عملہ مایوسی اور خوف کے ساتھ یونیورسٹی آتے ہیں اورمایوسی کے کرب کے ساتھ تعلیمی عمل جا ری نہیں رہ سکتا۔ آپ سے گزارش ہے کہ اس عظیم الشان تعلیمی درسگاہ کی بحالی کی ذمہ داری اٹھاکر اپنے تعلیم دوست ہونے کا ثبوت دیں۔