اس وقت پاکستان کی مجموعی آبادی تقریباً بائیس کروڑ ہے، صنفی اعتبار سے پاکستان میں 51 فیصد مرد اور 49 فیصد خواتین ہیں۔ شرح خواندگی میں مرد 72 فیصد اور خواتین 54 فیصد خواندہ ہیں۔ پاکستان میں ڈھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں اور ان میں بھی اکثریت لڑکیوں کی ہے۔ تعلیمی نتائج میں لڑکیوں کی کارکردگی لڑکوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ لڑکیوں کو مزید تعلیم کی طرف نہیں جانے دیا جاتا۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اعلی تعلیم کے بعد لڑکیاں پروفیشن کی طرف نہیں آتیں اور ان کی تعلیم پر حکومت اور والدین جو انویسٹ کرتے ہیں وہ سب ضائع ہو جاتا ہے۔ لڑکیاں پروفیشن کی طرف کیوں نہیں آتیں اس کی وجوہات مختلف ہیں، سسرال والے انہیں اجازت نہیں دیتے یا معاشرہ انہیں ایسا باپردہ ماحول فراہم نہیں کرتا جس میں ایک لڑکی کام کر سکے۔ اس سلسلے میں ریاست کو بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہئے کہ آبادی کے پچاس فیصد حصے کو ہم تعلیم اور پروفیشن سے دور رکھ کر من حیث القوم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ تھرڈ ورلڈ ممالک میں خواتین پر تشدد ایک معمول کی بات ہے، ان ممالک میں سماج اتنا تہذیب یافتہ نہیں ہوتا کہ عورت کے حقوق کا خیال رکھے، خواتین پر تشدد کے خلاف ایک بین الاقوامی مہم ہر سال 25 نومبر سے 10 دسمبر تک منائی جاتی ہے۔ اس مہم کا مقصد عوام میں آگاہی پھیلانا ہے کہ خواتین پر کس طرح کا تشدد ہو سکتا ہے اور اس کا سد باب کیسے ممکن ہے۔ ہم سمجھتے ہیں تشدد صرف جسمانی ہو سکتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے، تشدد ذہنی، جسمانی، نفسیاتی اور معاشی ہر طرح سے کیا جاتا ہے۔
تشدد کی مذکورہ اقسام کے علاوہ آج کل ایک نئی قسم سامنے آئی ہے جسے سائبر کرائم کہا جاتا ہے۔ اس میں ہوتا یہ ہے کہ خواتین کو سوشل میڈیا یا کسی بھی اور طریقے سے ہراساں کیا جاتا ہے۔ ان کی تصاویر ایڈیٹ کر کے انہیں بلیک میل کیا جاتا ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ سائبر کرائم کی وجہ سے نہ صرف لڑکیوں بلکہ ان کے والدین اور بھائی تک خود کشی کر چکے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ صرف شہروں تک محدود نہیں بلکہ دور دراز دیہات میں بھی یہی مسئلہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس حوالے سے سماج کے مائنڈ سیٹ کو کیسے تبدیل کیا جا سکتا ہے، تو اس کے لیے ہمیں اپنے بچوں کی درست نہج پر تربیت کی ضرورت ہے، بچوں کو یہ بتایا جائے کہ انسان کی عزت کی جائے قطع نظر اس کے کہ وہ مرد ہے یا عورت۔ ایک بچہ جب دیکھتا ہے کہ اس کا باپ ماں سے سخت لہجے میں بات کرتا ہے تو وہ بھی سخت لہجے میں بولتا ہے، جب وہ دیکھتا ہے کہ میری ماں بھی صرف ایک کام کرنے والی خاتون ہے تو وہ اس سے اسی لہجے میں بات کرتا ہے۔ جنوبی پنجاب میں صورتحال اس قدر بری ہے کہ اگر جانور یا عورت کو شیلٹر فراہم کرنے کی بات ہو تو جانور کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں بچوں کی تربیت اور سوسائٹی میں آگاہی بہت ضروری ہے اور اس کے لیے صرف خواتین کو نہیں مردوں کو بھی ساتھ مل کر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہمیں جینڈر بیسڈ بجٹنگ کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے بجٹ کا جائزہ لیا جائے کہ مردوں اور عورتوں پر کتنے فیصد خرچ کیا جاتا ہے۔ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کا تعلق مردوں اور خواتین دونوں سے ہوتا ہے، مثلاً اگر کوئی سڑک بنتی ہے تو اس پر مرد اور عورت دونوں سفر کرتے ہیں لیکن کچھ شعبے ایسے ہیں کہ اس میں مرد وعورت کے تناسب سے بجٹ خر چ کرنا ضروری ہے۔
ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ نکاح نامہ لکھنے سے پہلے خواتین اس کو اچھی طرح پڑھیں اور سمجھنے کے بعد اس کو پر کریں۔ نکاح دراصل ایک قانونی معاہدہ ہے، ہم جب بھی کوئی معاہدہ سائن کرتے ہیں تو اسے کئی دفعہ اوربہت اچھی طرح پڑھتے ہیں لیکن جب نکاح نامہ کی بات ہوتی ہے تو ہم اسے نظر اندا ز کر دیتے ہیں۔ اس کو اس لیے پڑھیں تاکہ انہیں پتا چل سکے کہ نکاح کے معاہدے میں اسلام نے انہیں کیا حقوق دیئے ہیں اور وہ انہیں کس طرح حاصل کر سکتی ہیں۔ پاکستان ابھی بھی اس جگہ کھڑا ہے جہاں ایک طلاق یافتہ خاتون کو جینے نہیں دیا جاتا اور اسے معذور بنا دیا جاتا ہے۔ خواہ طلاق میں غلطی کسی کی بھی ہو لیکن خمیازہ عورت کو بھگتنا پڑتا ہے، حتیٰ کہ اسے کوئی مکان کرائے پر دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا کہ یہ بری عورت ہے۔ ہمارے سماج کا مجموعی رویہ یہ بن چکا ہے کہ ہم معذور افراد کو اپنی سوسائٹی میں جگہ دینے کو تیار نہیں۔ ہمارا معاشرہ معذوروں کے ساتھ ڈیل کرنے کو تیار نہیں۔ پھر معذور افراد میں خواتین کی صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔
خواتین کے معاشی استحکام کے حوالے سے صورتحال یہ ہے کہ صرف 36 فیصد خواتین لیبر فورس میں شامل ہیں اور ان میں سے بھی اکثریت دیہات میں رہنے والی خواتین ہیں۔ پاکستان میں خواتین کے حوالے سے کچھ اچھی خبریں بھی ہیں، تعلیم اور خواندگی کی شرح بڑھ رہی ہے، لیبر فورس میں خوا تین کی تعداد دس فیصد سے بڑھ کر 36 فیصد ہو چکی ہے، ہراسانی اور تشدد کے خلاف شکایات جو تعداد بڑھی ہے وہ بھی اسی آگاہی کا نتیجہ ہے۔ خواتین کے لیے خصوصی عدالتیں قائم ہوئی ہیں، شکایات سیل بنے ہیں، ہیلپ لائن قائم ہوئی ہے، جاب آسان مہم سے خواتین جاب میں آرہی ہیں۔ لیڈر شپ میں خواتین کی تعداد بڑھی ہے، خواتین کے حوالے سے میڈیا نے بھی اہم کر دار ادا کیا ہے۔ ان سب اقدامات سے حکومت پر بھی دباؤبڑھا ہے، پرائیویٹ اداروں نے بھی اس دباؤ کو محسوس کیا ہے اور اب وہاں بھی بہتری آ رہی ہے۔ مزید بہتری اور سماج کا مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے کے لیے سکولوں اور کالجوں کے نصاب میں اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ چیزیں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ قانون سازی اور قانون کے نفاذ کو جانچنے کے لیے کڑے معیار کی ضرورت ہے بلکہ صرف قانون سازی کافی نہیں ہوگی ہمیں اس کے ساتھ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ قانون پر عمل درآمد بھی ہو رہا ہے یا نہیں۔