تھامس ایلوا ایڈیسن بیسویں صدی کا حیران کن کردار تھا، وہ بیسویں صدی کا سب سے بڑا مو جد تھا اور اگر آپ بیسویں صدی کو ایڈیسن کی صدی ڈکلیئر کردیں تو شاید یہ غلط نہیں ہو گا۔ اس نے اپنی 84سالہ زندگی میں ایک ہزار سے زائد چیزیں ایجاد کیں اور شاید کو ئی دوسرا موجد آج تک اتنی چیزیں ایجاد نہیں کر سکا۔ اس کا بچپن بڑا دلچسپ تھا، اسے پڑھنے کا شوق تھا اور نہ ہی وہ اسکول جاتا تھا، اس کی والدہ اسے اسکول چھوڑ کر آتی تو وہ والدہ سے پہلے گھر پہنچ جاتاتھا۔ وہ کلاس میں بیٹھ کر سو جاتا، کھیل کود میں مشغول ہو جا تا، دوستوں کو تنگ کرتا یا ٹیچرز کی نقلیں اتارنا شروع کر دیتا، ایک دن ٹیچر نے تنگ آ کر کہہ دیا تھا "ایڈیسن ایک گندا انڈا ہے اور اس پر محنت فضول ہے "اس کی والدہ نے یہ بات سنی تو وہ کئی ہفتے روتی رہی۔ اگلے ہفتے امتحانات تھے، اس نے بالکل تیاری نہیں کی تھی لیکن رزلٹ آیا تو وہ اعلیٰ نمبروں سے پاس تھا، اس کی والدہ حیرت اور پریشانی کے تاثرات کے ساتھ اسکول چلی گئی، پرنسپل نے وضاحت کی "میں جانتا ہوں ایڈیسن نے پیپروں میں کچھ نہیں لکھا لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں یہ بچہ پوری کلاس میں سب سے ذیادہ ذہین ہے، یہ جس خود اعتمادی کے ساتھ کلاس میں بیٹھتاہے، سبق سنانے کے لئے کھڑا ہوتا ہے، سوال کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہے، بے خوفی سے سوال کرتا ہے اور سوال کرنے کے بعد بحث کرتا ہے، یہ جس خود اعتمادی کے ساتھ ڈائس پے آتا ہے اور گفتگو کرتا ہے میں اس سے متاثر ہوں، اس کی باڈی لینگوئج سے خود اعتمادی اور کانفیڈنس جھلکتا ہے اور اس کی باڈی لینگوئج بتاتی ہے ایک دن یہ بڑا انسان بنے گا۔
اکیسویں صدی میں باڈی لینگوئج باقاعدہ فن کی حیثیت اختیار کر چکی ہے اور آج بڑ ے بڑے فیصلے صرف باڈی لینگوئج کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں۔ انٹرویو کے دوران آپ کی تعلیم، تجربے، قابلیت اور صلاحیت کے ساتھ آپ کی پرسنیلٹی اور آپ کی باڈی لینگوئج کوبھی دیکھا جاتا ہے، اگر آپ اپنا اعتماد بحال رکھتے ہیں، قدم اٹھا کر چلتے ہیں، کرسی پر اطمینان سے بیٹھتے ہیں، اپنی سانس بحال رکھتے ہیں، اپنے ہونٹوں پربار بار زبان نہیں پھیرتے، کرسی پر بیٹھ کر دائیں بائیں نہیں دیکھتے، انگلیاں نہیں چٹخاتے اور میزبان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیتے ہیں تو آپ کی کامیابی کے چانس بڑھ جاتے ہیں اور اگردوران انٹر ویو آپ کی چال میں فرق آ جاتا ہے، آپ کا اعتماد خطا ہو جاتا ہے، آپ کی سانس پھول جاتی ہے، آپ انگلیاں چٹخا رہے ہیں، گلاس میں پانی ڈالتے ہوئے آپ کے ہاتھ کپکپا رہے ہیں اور آپ میز پر پانی گرا دیتے ہیں یا آپ کی نظریں میزبان کی آنکھوں کا سامنا نہیں کر پا رہیں تو آپ خاموشی سے واپس گھر تشریف لے آئیں۔ کسی انسان کی شخصیت اور کردار کو پہچاننے کے لیے پہلے سات سیکنڈ اہم ہوتے ہیں اور ہم پہلے سات سیکنڈ میں ہی مخاطب کے بارے میں رائے قائم کر چکے ہوتے ہیں۔ جب ہم گفتگو کرتے ہیں تو ہماری زبان صرف پچیس فیصد تک ہمارا ساتھ دیتی ہے باقی 75فیصد کمیونیکیشن ہماری باڈی لینگوئج سے ہورہی ہو تی ہے۔ خوشی غمی، سچ جھوٹ، تکبر عاجزی، خوف گھبراہٹ، شک اور یقین کی اپنی اپنی باڈی لینگوئج ہوتی ہے اور ہم خود کو چھپانے کی لاکھ کوشش کریں لیکن ہماری باڈی لینگوئج سب کھول کر مخاطب کے سامنے رکھ دیتی ہے۔
ہم اس اصول کو سیاستدانوں پر اپلائی کرنے کے لیے زرا وسعت دے دیتے ہیں، ہم سات سیکنڈ کی بجائے سات دن، سات ہفتے بھی نہیں کرتے بلکہ ہم انہیں سات مہینوں تک وسیع کر لیتے ہیں، میرا خیال ہے کسی سیاستدان، اس کی شخصیت، ذہنیت، کردار، ترجیحات، کمٹمنٹ، اعتماد، فیصلہ سازی، گڈ گورننس، کمانڈ، ریلیف اور عوامی پذیرائی کے لیے سات ماہ کافی ہوتے ہیں۔ عمران خان کو حکومت سنبھالے ڈھائی سال ہو چکے ہیں اور ڈھائی سال کسی انسان اور حکمران کو جانچنے کے لیے بہت ذیادہ وقت ہوتا ہے، اس لیے میرے خیال میں اب اسٹبلشمنٹ، اہل دانش، اینکرز، کالم نگاراور عوام الناس کو فیصلہ کر لینا چاہئے کہ وہ کس کے ساتھ ہیں اور اس ملک اور قوم کی بھلائی کس میں ہے۔ عمران خان کی سیاست کے بارے میں پہلے دن سے یہاں دو طبقے پائے جاتے ہیں، ایک طبقہ ان لوگوں کا ہے جو پہلے دن سے عمران خان کی نااہلی، سطحیت اور خود پسندی کے قائل ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ سیاست اور ملک چلانا عمران خان کے بس کی بات نہیں۔ عمران خان بڑے بڑے جلسے تو کر سکتے ہیں، ہیجان اور دشنام کا ماحول تو پیدا کر سکتے ہیں، خود پسندی اور سطحیت کے حصار میں تو قید ہو سکتے ہی مگر ملک چلانا ان کے بس کی بات نہیں۔ یہ لوگ اپنی فہم و فراست، دور اندیشی اور گہرے ادراک کی بنیاد پر تین چار سال قبل اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے جس پر بائیس کروڑ عوام، بعض دانشور، اینکرز اور کالم نگار آج پہنچ رہے ہیں۔ ان ڈھائی سالوں میں حکومت کے ہر فیصلے، عمران خان کے ہر یوٹرن، اینکروں کالم نگاروں کی ڈھٹائی اور پی ٹی آئی کے سپورٹرز نے اس نتیجے پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔ اگر آپ میں تھوڑی اخلاقی جرائت ہے توآپ سینے پر ہاتھ رکھیں، سرجھکائیں اوران لوگوں کی فراست اور دور اندیشی کو جھک کر سلام کر دیں۔
دوسرا طبقہ ان لوگوں کا تھا جو پہلے دن سے عمران خان کو اس ملک اور قوم کا مسیحا ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے، ان کا مؤقف تھا کہ ہمیں ا سٹیٹس کو سے نکلنا چاہئے، دہائیوں سے باریاں لیتے سیاستدانوں کی بجائے نئے لوگوں اور نئے چہروں کو آزمانا چاہئے، تبدیلی کے ہمراہ نکلنا چاہئے اور دوسرے گھاٹ کا پانی بھی پینا چاہئے۔ اس طبقے کا مؤقف اگر درست مان لیا جائے پھر بھی ان کی فہم و فراست پر سوالیہ نشان موجود رہتا ہے۔ روایتی سیاستدانوں سے بیزاری، اسٹیٹس کو سے نکلنے کی خواہش، تبدیلی کی چاہت اور نئے چہرو ں کو موقع دینے کا مؤقف درست سہی مگر اس کے لیے ایسی متباد ل شخصیت کا انتخاب بھی لازم تھا۔ اور اگر متبادل نہیں تھا تو موجودہ سیٹ اپ کو چلنے دینا اور اسی میں بہتری کے امکان تلاش کرناہی اصل تبدیلی تھی اور آج اس طبقے کو تسلیم کرنا چاہئے کہ ان سے غلطی ہوئی اور انہوں نے غلط جگہ، غلط وقت اور غلط انتخاب پرا پنی توانائیاں صرف کیں اورانہوں نے اپنا، ملک اور قوم کا وقت ضائع کیا۔
ان ڈھائی سالوں میں عمران خان کے طرز سیاست نے حسن ظن کا کوئی پہلو نہیں چھوڑا، رہی سہی کسر ان کے یوٹرنز نے پوری کر دی، اس تابوت پر آخری کیل شیخ رشید نے وزیر داخلہ بن کر ٹھونک دیا اور اس تابوت کا جنازہ ایمنسٹی کی حالیہ کرپشن رپورٹ نے پڑھا دیا۔ اب اس کے بعد تابوت کی ہڈیا ں ہی بچیں گی اور مجھے خدشہ ہے اگر عمران خان کچھ عرصہ مزید رہ گئے تو ہمیں یہ ہڈیاں دیکھنا بھی نصیب نہیں ہو ں گی اوراگر ایسا ہوتا ہے تو اس تابوت کو اس حد تک پہنچانے میں وہ تمام لوگ ذمہ دار ہوں گے جنہوں نے اس "تبدیلی" کے لیے راہ ہموار کی تھی۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہاسٹبلشمنٹ، اہل دانش، اینکرز، کالم نگار اور بائیس کروڑ عوام "تبدیلی " کے اس اجتماعی گناہ سے رجوع کر لیں اور اگر ہم نے رجوع کی یہ مہلت بھی گنوا دی تو "تبدیلی " کا یہ گناہ اس ملک اور ملک کے بائیس کروڑ عوام کو لے ڈوبے گا۔