کیلیکو Calico "کیلیفورنیا لائف کمپنی" کا مختصر نام ہے، یہ امریکہ کی ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کمپنی ہے، اس کی بنیاد امریکہ کے مشہور سرمایہ دار بل میرس نے رکھی، بل میرس انسانی زندگی کو لازوال بنانے کے خبط میں مبتلا ہے، بل میرس اور اس کے ہمنوا امریکی سرمایہ داروں، سائنسدانوں، کمپیوٹر اور حیاتیات کے ماہرین نے یہ فرض کر لیا ہے کہ موت کوئی اٹل حقیقت نہیں بلکہ یہ ایک ٹیکنیکل مسئلہ ہے اور آنے والے زمانے میں اس پر قابو پالیا جائے گا۔ اس مفروضے کے پیچھے یہ زعم کارفرما ہے کہ آج میڈیکل سائنس بہت ترقی کر چکی ہے، جینیاتی سائنس، نینو ٹیکنالوجی اور طب کے دوسرے میدانوں میں ہوش ربا ترقی نے انسان کو اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ موت کے مسئلے پر قابو پالے۔ آج سے ایک ہزار سال قبل میدان جنگ میں زخمی ہونے والے سپاہی کا زخمی عضو کاٹنا پڑتا تھا ورنہ انفکشن کی وجہ سے سارا جسم گل سڑ جاتا تھا لیکن آج میڈیکل سائنس کی ترقی کی بدولت انسان اس قابل ہو گیا ہے کہ ایسی احمقانہ حرکتوں کو نہ دہرائے۔ آج کے خطرناک امراض میں کینسر سر فہرست ہے، کینسر کی تشخیص کے دوران ڈاکٹر یہ نہیں کہتے کہ تمہیں موت لاحق ہے بلکہ کہا جاتا ہے کہ تمہیں کینسر ہے اور بدیہی طور پر کینسر موت کا نام نہیں بلکہ یہ ٹیکنیکل مسئلہ ہے جس پر قابو پالیا گیا ہے۔ اسی طرح جب لوگ کسی روڈ ایکسیڈنٹ، طوفان یا جنگ میں مارے جاتے ہیں تو یہ اٹل موت کی کارفرمائی نہیں بلکہ بہتر حکومتی پالیسیوں اور جنگ بندی کے معاہدوں سے ایسی اموات پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔ بل میرس اور اس کے ہمنوا اسی خبط میں مبتلا ہیں، اس خبط کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بل میرس نے 18ستمبر 2013 کو مذکورہ کمپنی کی بنیاد رکھی، مشہور سرچ انجن گوگل نے اس پروجیکٹ کو سرمایہ فراہم کیا اور کام شروع ہو گیا۔ آنے والے سالوں میں یونیورسٹی آف ٹیکساس، ایم آئی ٹی اور ہارورڈ یونیورسٹی نے بھی اس پروجیکٹ کو اون کرلیا اور اب مختلف یونیورسٹیوں اور اداروں کے ماہرین مل کر اس پروجیکٹ پر کام کر ہے ہیں۔ کمپنی کا بنیادی مقصد صحت کے مسائل کو حل کرنا، بڑھاپے کا خاتمہ، انسانی زندگی کو طویل کرنا اور موت کے مسئلے پر قا بو پانا ہے۔ 2015 کو ایک انٹرویو میں بل میرس نے کہاتھا اگر مجھ سے پوچھا جائے کیا پانچ سو سال تک زندہ رہنا ممکن ہے تو میرا جواب ہاں میں ہوگا۔ سیلی کون وادی کے کئی دوسرے سرمایہ دار بھی ان منصوبوں میں شامل ہیں، پے پال کمپنی کے بانی پیٹر تھیل جن کی دولت کا اندازہ 2.5 ارب ڈالر لگایا گیا ہے وہ بھی ان میں شامل ہیں، پیٹر تھیل کا کہنا تھا لوگ موت کو بہت آسانی سے قبول کر لیتے ہیں مگر میں موت سے جنگ کرنے کو ترجیح دوں گا۔ سیلی کون وادی کے سرمایہ داروں اوران کے منصوبوں کو دنیا بہت سیریس لے رہی ہے، دنیا کے مطابق یہ کوئی لڑکپن کی بڑھک نہیں بلکہ دنیا کے طاقتور ترین اور امیر ترین افراد کا عزم ہے۔ ان کمپنیوں میں کام کرنے والے کچھ ماہرین کا کہنا ہے انسان 2200 تک اس مسئلے پر قابو پالے گا، کچھ کا کہنا ہے یہ کام 2100 میں ہو جائے گا، مشہور ماہرین آبری ڈی گرے اور کرزویل کے مطابق 2050 میں انسان اس قابل ہو جائیں گے کہ ہر دس سال بعد وہ ایک کلینک میں داخل ہوں اور اپنی تجدید نو کر سکیں، اس تجدید نو میں بیماریوں کے خاتمے کے ساتھ زوال پذیر خلیوں کو دوبارہ پیدا کر لیا جائے گا اور انسانی اعضاء کے کام کرنے کا معیار بڑھ جائے گا۔ مغربی دنیا کے مطابق اگر یہ پیشنگوئی سچ ہے تو ممکن ہے کہ آج بھی کچھ وجود سڑکوں اور چوکوں چوراہوں پر ہمارے ساتھ گردش کر رہے ہوں۔
میں نے یہ ساری ریسرچ کچھ عرصہ قبل پڑھی تھی، آپ کی طرح میں بھی دنیا کے ان امیر ترین اور طاقتور ترین افراد کے عزائم سے متاثر ہو گیا تھا لیکن پھر کرونا وائرس آیا اور میرا یہ سارا تاثر لمحموں میں زائل ہو گیا۔ آج ساری دنیا حیران و پریشان ہے، دنیا کے ساڑھے سات ارب انسان انجانے خوف میں مبتلا ہیں، دنیا کے یہ طاقتور ترین اور امیر ترین افراد بھی سہمے سہمے نظر آ رہے ہیں، ان کی موت کو شکست دینے والی لیبارٹریاں اور لائبریریاں بھی بند پڑی ہیں، یہ اپنے گھروں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں، یہ خوف کی وجہ سے کسی سے ہاتھ تک نہیں ملا رہے، یہ ضروری کاموں کے لیے بھی گھر سے باہر نہیں نکل رہے اور صرف ایک وائرس نے ان کی ساری ریسرچ اور ان کے سارے عزائم کو خاک میں ملا کر رکھ دیا ہے۔ دنیا کے نامور لیڈر، صدر اور وزرائے اعظم تک بدحواس ہیں، یہ اپنے اپنے محلات میں قید ہو کر رہ گئے ہیں، یہ اپنے مقربان خاص، اپنی فیملی اور اپنی شریک حیات تک سے ہاتھ نہیں ملا رہے۔ ساری دنیا جیل بن چکی ہے، دنیا کے اکثر ممالک نے اپنے شہریوں کو اپنے علاقوں میں قید کر دیا ہے، چین اور پورا اٹلی جیل بن چکے ہیں، عرب ممالک نے نمازوں تک پابندی لگا دی ہے، سارا یورپ بدحواس اور بند پڑا ہے، امریکہ میں لوگ گھروں سے باہر نہیں نکل رہے اور دنیا کے لاکھوں سائنسدان، ڈاکٹر اور ماہرین انگشت بدنداں ہیں کہ چند لمحوں میں دنیا کیا سے کیا ہو گئی ہے۔ ساری دنیا کی اکانومی تباہ ہو چکی ہے، بڑی بڑی ایئر لائنز خسارے کا شکار ہیں، دنیا کے مصروف ترین ایئرپورٹس بند پڑے ہیں، شاپنگ مالز اورتجارتی سرگرمیاں ماند پڑ چکی ہیں، دنیا کی مصروف ترین شاہراہیں وال اسٹریٹ اور شانزے لیزے سنسان ہیں، ملکوں کی جی ڈی پی کی شرح کئی درجے نیچے آ چکی ہے، شیئرز کی قیمتوں میں مجموعی طور پر پانچ کھر ب ڈالر کمی ہو چکی ہے، پوری دنیا کی اسٹاک ایکسچیز بیٹھ چکی ہیں، شپنگ، سیاحت، ہوابازی، الیکٹرانکس اور تعمیرات جیسی اہم صنعتیں مکمل طور پر بند ہیں اور سب سے زیادہ نقصان سیاحت اور ہوٹل انڈسٹری کو ہوا ہے۔ کھربوں ڈالر کی سیاحت اور ہوٹلنگ کی انڈسٹری آخری سانسیں لے رہی ہے، سیاحت اور ہوٹلنگ پر انحصار کرنے والے ممالک نزع کے عالم میں ہیں اور فیشن انڈسٹری کی سانسیں اکھڑ چکی ہیں۔ تقریباً ساری دنیا کے تعلیمی ادارے بندہیں، جان ایف کینیڈی، ہیتھرو، دبئی، جدہ اور ریاض جیسے مصروف ترین ایئرپورٹس پر الو بول رہے ہیں، ٹرینیں بند اور پلیٹ فارم سنسان ہیں اور دنیا کے ساڑھے سات ارب انسان انجانے خوف میں مبتلا گھروں میں دبکے بیٹھے ہیں۔ دنیا کا سارا نظام درہم برہم ہو چکا ہے، پورے زمینی سیارے اور ساڑھے سات ارب انسانوں کی حالت قابل رحم ہے اور لوگ کسی نجات دہندہ کے منتظر ہیں۔ ٹرمپ جیسا بدمست ہاتھی بھی عجز و انکسار کا اظہاراور اپنی قوم سے یوم دعا منانے اور اپنے رب کے سامنے ہاتھ اٹھانے کی فریاد کر رہا ہے۔
یہ سب کیا ہے، کیا یہ ثابت نہیں کرتا کہ انسان بہر حال انسان ہے اور یہ کبھی خدا نہیں بن سکتے، یہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں جتنی مرضی ترقی کر لیں یہ موت تو کیا یہ ایک معمولی وائرس پر قابو نہیں پا سکتے۔ کیا یہ ثابت نہیں کر تاکہ انسانوں کو اپنی اوقات نہیں بھولنی چاہئے، کیا یہ ثابت نہیں کرتا کہ ساڑھے سات ارب انسان مل کر بھی ایک معمولی وائرس کا مقابلہ نہیں کر سکتے اورکیا یہ ثابت نہیں کرتا کہ ایک معمولی وائرس ساری دنیا کو جیل خانے میں تبدیل کر سکتا ہے۔ اور کیا یہ ثابت نہیں کر تا کہ اس کائنات میں انسانی خداؤں سے بڑھ کر بھی کوئی خداہے اور کیایہ منظرنامہ ملحدین کے سارے اعترضات اورسوالات کے جوابات فراہم نہیں کر رہا۔