ونسٹن چرچل کے وزیر اعظم بننے سے بہت پہلے کی بات ہے، 1901 میں برطانیہ اور جنوبی افریقہ کے مقامی باشندوں کے درمیان جنگ چل رہی تھی، ان باشندوں کو بوئر کہا جاتا تھا اور یہ ڈچ نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ مقامی بوئروں نے برطانوی فوج کو زبردست نقصان پہنچایا اور انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ ونسٹن چرچل اس جنگ میں اخباری نامہ نگار کی حیثیت سے ذمہ داریاں سر انجام دے رہے تھے۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ دو مرتبہ برطانیہ کے مقبول ترین وزیر اعظم رہنے والے چرچل نے اپنے کیرئیر کا آغاز ایک اخباری نمائندے کی حیثیت سے کیا تھا۔ وہ ہندوستان میں بھی اخباری نمائندے کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ افریقی جنگ میں مقامی بوئروں نے چرچل کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا۔ چرچل اخباری نمائندے کی حیثیت سے رعایتی سلوک کا طلبگار تھا مگر بوئروں نے اسے پکڑ کر جنگی قیدیوں کے ساتھ کال کوٹھری میں ڈال دیا۔
چرچل نے جیل ملازمین سے ساز باز کر کے جنوبی افریقہ کے صدر جان کرسچن سمٹس کو خط لکھا اور اپنی رہائی کا مطالبہ کیا۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق جنگ کے دوران اخباری نمائندوں کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا تھا چنانچہ جنوبی افریقہ کے صدر نے چرچل کی رہائی پر کارروائی شروع کر دی۔ اس سے قبل کہ رہائی کے صدارتی آرڈر جاری ہوتے چرچل سیکڑوں قیدیوں سمیت جیل توڑ کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ چرچل کو اس جنگ سے کافی شہرت ملی اور وہ برطانوی اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہو گیا۔
1905میں اسے برطانوی نو آبادیات کا نائب سیکرٹری بنا دیا گیا اور کچھ ہی عرصے بعد وہ برطانوی کابینہ میں شامل ہو گیا۔ برطانوی کابینہ کی حیثیت سے چرچل کی ملاقات جان کرسچن سمٹس سے ہوئی، جان نے اسے وہ قید اور خط یاد دلایا۔ چرچل نے فوری جواب دیا: "مسٹر پریزیڈنٹ! اچھا ہوا آپ نے میری فوری رہائی کا اعلان نہیں کیا، اگر آپ میری فوری رہائی کا انتظام کر دیتے تو میرے نو ہزار پاؤنڈ کا نقصان ہو جاتا"۔
جان کرسچن نے حیرت سے پوچھا: "وہ کیسے؟" چرچل نے جواب دیا: "میں نے جیل سے فرار ہونے کی داستان لکھ کر ایک رسالے کو نو ہزار پاؤنڈ میں فروخت کی۔ اگر آپ میری فوری رہائی کا انتظام کر دیتے تو نہ یہ داستان ہوتی نہ مجھے نو ہزار پونڈ ملتے۔ "
ونسٹن چرچل نے فرار کی داستان لکھ کر نو ہزار پاؤنڈ کما لیے تھے مگر عمران خان لانگ مارچ کی داستان لکھ کر کیا کما رہے ہیں انہیں اس پر غور کرنا چاہئے۔ کیا انہیں لگتا ہے کہ وہ چند ہزار لوگوں کے ساتھ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جائیں گے؟ وہ حکومت گرانے یا حکومت سے الیکشن کی تاریخ لینے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ ہرگز نہیں۔ انہیں اب یہ تسلیم کر لینا چاہئے کہ اب وہ اسٹیبلشمنٹ کے لاڈلے رہے ہیں اور نہ ہی اس دفعہ عوام ان کے ساتھ نکلے ہیں۔ ان کے پارٹی لیڈر تک اس لانگ میں شریک نہیں ہوئے اور جو شریک ہیں وہ ایک پیج پر نہیں۔
کنٹینر پر اسد عمر، حماد اظہر اور علی نواز اعوان کی چھوٹی سی جنگ تو سب نے دیکھ لی ہو گی۔ پارٹی کے بہت سارے لیڈران عنقریب اڑان بھرنے والے ہیں۔ کوئی از خود پارٹی چھوڑ جائے گا اور کوئی فیصل واوڈا کی طرح ایسی حرکت کر دے گا کہ عمران خان خود انہیں پارٹی سے نکال دیں گے۔ جس طرح تنکا تنکا اکٹھا کر کے ثاقب نثارکی مہربانی سے پارٹی ترتیب دی گئی تھی اب اسی طرح تنکا تنکا کر کے اس کے بکھرنے کا اہتمام کر لیا گیا ہے۔
عمران خان صاحب نے ساڑھے تین سال میں اسٹیبلشمنٹ کو جس طرح مایوس کیا ہے، اس پر اسٹیبلشمنٹ کو مولانا فضل الرحمان کی بات پر یقین ہو گیا ہے کہ عمران خان پاکستانی سیاست کا غیر ضروری عنصر ہیں۔ پی ٹی آئی سے عمران خان کی ذات کو نکال دیا جائے تو پیچھے کچھ نہیں بچتا۔ عمران خان کو اب یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہئے اور انہیں مان لینا چاہئے کہ2022 کے لانگ مارچ اور 2014 کے دھرنے میں بڑا فرق ہے۔ تب ان کی شخصیت کا چارم باقی تھا، اسٹیبلشمنٹ نے انہیں آزمایا نہیں تھا اور انہیں لاڈلے کی حیثیت حاصل تھی اب مگر ایسا کچھ نہیں ہے۔ عدلیہ بھی ترازو ہاتھ میں لیے کھڑی ہے، اب عمران خان جتنی جلدی اس حقیقت کو جان لیں گے ان کے لیے فائدہ مند ہو گا۔
پی ٹی آئی کے سپورٹر اس پر سوال اٹھاتے ہیں کہ پھر موجودہ صورتحال کا حل کیا ہو گا۔ اس کا حل وہی ہے جو مہذب معاشروں میں ہوتا ہے، یہ ملک کسی خاندان یا پارٹی سربراہان کا نہیں کہ وہ اس میں ذاتی انا کی لڑائیاں لڑتے رہیں۔ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ وہ عوام کے لیے سیاست کر رہے ہیں تو انہیں چاہئے کہ مخالف سیاسی لیڈران کے ساتھ ٹی وی چینلز پر آئیں اور ان کے ساتھ ڈیبیٹ کریں۔ مہذب ملکوں میں یہی ہوتا ہے، وہاں عوام کی قسمت کے فیصلے سڑکوں پر نہیں بلکہ ٹی وی چینلز کی سکرین اور عدالتوں میں ہوتے ہیں۔
سیاستدان اپنے مؤقف کو ٹی وی چینلز کے پلیٹ فارم پر پیش کرتے ہیں، عوام کو جس کا مؤقف اچھا لگتا ہے وہ اس کے حق میں ووٹ کا فیصلہ کر دیتے ہیں۔ ٹی وی چینلز پر بھی اگر فیصلہ نہ ہو تو عدالتیں فیصلہ کرتی ہیں ایسا مگر کبھی نہیں ہوا کہ لانگ مارچ کے نام پر ملک کی معیشت کا بیڑا غرق کر دیا جائے۔ کئی کئی روز تک لوگوں کی زندگیوں کو عذاب میں مبتلا رکھا جائے۔ مجھے یقین ہے کہ سوائے عمران خان کے کوئی سیاستدان اس حل سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔
میری صدر پاکستان، ملک کے بزرگ صحافیوں، سابق بیورو کریٹس اور جید علما سے درخواست ہے کہ وہ ملک کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایک گرینڈ ڈائیلاگ کا اہتمام کریں۔ ملک کی تما م سیاسی پارٹیوں کے سربراہان کو اکٹھا کریں، عمران خان اگر کسی کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں تو انہیں زبردستی قائل کریں، انہیں ایک دفعہ شہباز شریف اور آصف زرداری کے ساتھ ٹی وی چینلز پر بٹھائیں اور تمام ثبوتوں کے ساتھ اپنا مؤقف قوم کے سامنے رکھنے پر قائل کریں۔ اس کے بعد عوام کو فیصلہ کرنے دیں کہ وہ کس کو ووٹ دینا چاہتے ہیں۔
اگر عمران خان یا کوئی اور لیڈر سمجھتا ہے کہ ٹی وی چنیلز کی ڈیبیٹ پر وہ مطمئن نہیں تو وہ ان ثبوتوں کو لے کر کورٹ میں چلا جائے مگر خدارا اس ملک کو جلسے جلوسوں اور لانگ مارچ کے آسیبوں سے بچا لیں۔ اس ملک کے ساتھ جو کچھ ہو چکا ہے یہ مزید کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
جب تک آپ کسی کو تھپڑ نہیں مارتے تب تک آپ کا اور تھپڑ کا بھرم قائم رہتا ہے مگر جیسے ہی آپ تھپڑ مار دیتے ہیں آپ کے غبارے سے ہوا نکل جاتی ہے۔ آپ کا اور آپ کے تھپڑ کا رعب ختم ہو جاتا ہے۔ اللہ نے اس ملک کا رعب اور بھرم بھی قائم رکھا ہوا ہے مگر ہم مسلسل اس کے وجود پر تھپڑ مار مار کر اس رعب اور بھرم کو ختم کر رہے ہیں۔
خاکم بدہن یہ لانگ مارچ اور جلسے جلوسوں کے تھپڑ ہمیں اور ہمارے ملک کو مہنگے پڑ سکتے ہیں اس لیے قبل اس کے وقت گزر جائے ہمیں مہذب سماج بن کر اور مل بیٹھ کر اپنے مسائل کے حل کی طرف چل پڑنا چاہئے۔