1945 میں دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی تو اس کے ساتھ ہی تیسری عالمی جنگ شروع ہو چکی تھی، یہ سرد جنگ تھی جس کے فریقین امریکہ اور روس تھے۔ روس میں اشتراکیت جنم لے چکی تھی اور اشتراکی انقلاب پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا۔ اس دور میں"آہنی پردے" کے نام سے ایک اصطلاح مشہور ہوئی جس کا مطلب تھا کہ اشتراکیت پر مشتمل بلا ک سے کوئی بندہ باہر نکل سکتا تھا نہ ہی اندر جا سکتا تھا۔
یہ پابندیاں لمبا عرصہ جاری رہیں، اہل مذہب کے لیے یہ صورتحال پریشان کن تھی، مسلمانوں نے اشتراکیت کے دور میں کتنی سختیاں برداشت کیں اور نئی نسل تک اسلام کیسے منتقل کیا ہے یہ بہت خوفناک داستان ہے اور یہ ہمارا موضوع نہیں۔ عیسائیت نے "آہنی پردوں" میں قید ان ریاستوں میں اپنے مذہب کا تحفظ اور تبلیغ کیسے کی، یہ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔
عیسائی مشنریوں کو جب علم ہوا کہ روس میں عیسائیت کی صورتحال پریشان کن ہے تو انہوں نے عیسائیت کی تبلیغ کے لیے پورا ایک پلان تشکیل دیا، انہوں نے امریکہ کے ایک دور دراز علاقے میں روسی طرز معاشرت پر پورا ایک شہر آباد کیا اور ملک بھر سے ذہین ترین پادریوں کو اکٹھا کر کے اس شہر میں بسا دیا۔ اس شہر میں روسی زبان بولی جاتی تھی، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا اور رہن سہن سب روسی طرز پر ہوتا تھا۔
پادریوں کی شکل و صورت اور وضع قطع بھی روسیوں جیسی بنائی گئی اور جب یقین ہو گیا کہ یہ لوگ زبان، عادات و اطوار اور ہر لحاظ سے روسی دکھائی دیتے ہیں تو انہیں ایک وسیع صحرا میں پیرا شوٹ کے ذریعے جہاز سے اترنے کی پریکٹس کرائی گئی۔ جب ہر لحاظ سے ٹریننگ مکمل ہو گئی تو ہوائی جہازوں کے ذریعے انہیں روس کے دور دراز علاقوں میں اتار دیا گیا۔ یہ پادری جان ہتھیلی پر رکھ کر روس میں تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف رہے، جب مشن مکمل ہوا تو یہ سمجھائے گئے جغرافیے کے مطابق ایک جگہ اکٹھے ہوئے جنہیں ایک جہاز کے ذریعے ریسکیو کر کے واپس امریکہ لایا گیا۔
یہ واقعہ کیا ثابت کرتا ہے؟ یہ ثابت کرتا ہے کہ اپنے مشن کی تکمیل اور مذہب کے تحفظ و تبلیغ کے لیے آخری حد تک کوشش کرنا پڑتی ہے۔ بحران اور چیلنجز کے زمانے میں روایتی طریقوں کے بجائے نئے اندازسے کام کرنا پڑتا ہے۔ ایک راستہ مسدود ہو جائے تو نئے راستے ڈھونڈنا پڑتے ہیں۔ زندگیاں وقف کرنا پڑتی ہیں اور سٹیٹس کو سے نکل کر انقلابی اقدامات اٹھانا پڑتے ہیں۔ یہ عیسائی مشنریاں چاہتیں تو امریکہ میں بیٹھ کر ایک دو جلسے کر لیتی، احتجاج کی کال دے دیتیں، ملین مارچ کی دھمکی دے دیتیں یا ایک آدھ جلوس نکال کر بیٹھ جاتیں مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
وہ آہنی پردوں کا بہانہ بنا کر محض کوشش کا مکلف ہو کر نہیں بیٹھے بلکہ انہوں نے دنیا بھر سے ذہین ترین پادری اکٹھے کیے، ریاستی اور غیر ریاستی ذرائع سے فنڈنگ مہیا کی، تمام دستیاب اسباب اختیار کیے، دور دراز علاقوں اور صحراؤں میں پلاننگ کی اور پادریوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر دشمن کے علاقوں میں جانے کی ہمت کی۔ یہ انہی کوشش کا نتیجہ ہے کہ روس میں آج بھی آرتھو ڈوکس چرچ سب سے بڑا مذہب ہے۔
آج دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کی کیا صورتحال ہے یہ کوئی بڑا راز نہیں، صرف پاکستان کو دیکھ لیں، ہماری یونیورسٹیاں الحاد کی آماجگاہیں بن چکی ہیں، سکول کالجز میں پڑھایا جانے والا نصاب مغربی تصورات پر قائم ہے، نسل نو دین بیزاری پر فخر کر رہی ہے، سوشل میڈیا پر الحاد پھیلایا جا رہا ہے اور مذہب و اہل مذہب کا مذاق اڑانا فیشن بن چکا ہے۔
فلم اور ڈرامہ انڈسٹری نے تہذیب و اقدار کو کچل کر رکھ دیا ہے، خاندان اور فیملی سسٹم تباہ ہو چکا ہے اور رہی سہی کسر ٹک ٹاک اور دیگر فحش ایپس نے پوری کر دی ہے۔ پاکستان میں ان چیلنجز کو رسپانڈ کرنے کی ذمہ داری علماء پر عائد ہوتی ہے کیونکہ علماء اور دینی مدارس مذہب کی نمائندگی کی علامت ہیں۔
اب سنجیدہ سوال یہ ہے کہ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اہل مذہب کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟ تبلیغی جماعت اور مذہبی سیاسی جماعتوں کو ایک لمحے کے لیے سائیڈ پر کر دیں کہ ان کا اپنا طریقہ کار اور ترجیحات ہیں، ان کے علاوہ پاکستان میں ہزاروں مدارس اور لاکھوں علماء و عالمات ہیں مگر یہ اپنی ذمہ داری کے لیے آگے کیوں نہیں بڑھ رہے؟ پاکستان میں مدارس کے چار پانچ بورڈ ہیں، صرف وفاق المدارس کے تحت ہزاروں مدارس اور لاکھوں طلباء رجسٹرڈ ہیں، اس کے علاوہ ملک کے ہر بڑ ے شہر میں نامور دینی ادارے موجود ہیں، کئی مدارس ایسے ہیں کہ انہیں وسائل کا بھی مسئلہ نہیں مگر اس کے باوجود بے دینی، الحاد اور مغربی تہذیب کے سامنے بند باندھنے کے لیے کوئی آگے نہیں بڑھ رہا۔
سوال یہ ہے کہ ہم روایتی انداز کے بجائے وقت کے تقاضوں کے مطابق منصوبہ بندی کرنے کو کیوں تیار نہیں، سٹیٹس کو سے نکل کر مشنری جذبے کے تحت کام کیوں نہیں کیا جا رہا۔ ہم کوشش کا مکلف ہو کر بیٹھنے سے کیوں نہیں ڈر رہے اور ہمیں حالات کی سنگینی کا اندازہ کیوں نہیں ہو رہا۔ کم از کم عیسائی مشنریز جتنا جذبہ اور منصوبہ بندی ہی کر لی جائے، افراد سازی اور نصاب سازی جیسے مسائل پر توجہ دے دی جائے اور نسل نو کی دینی تربیت اور ان کا ایمان بچانے کا ہی سوچ لیا جائے۔
اس مایوس کن صورتحال میں جامعۃ الرشید ایک ادارہ ہے جہاں کم از کم مسائل کا ادراک بھی ہے، وقت کے تقاضوں کا فہم بھی اور مشنری جذبہ بھی۔ کیا یہ حیران کن نہیں کہ ایک مدرسے کے تحت 35 سے زائد شعبے چل رہے ہیں۔ حفظ، درس نظامی، کلیہ الشریعہ، حفاظ عریبک، حفاظ انگلش، سکول، کالج اور عنقریب یونیورسٹی چارٹر۔
الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے میدان میں گرانقدر خدمات، جے ٹی آر، حلال فوڈ پروگرام، شریعہ اور بزنس کے تحت تجار کی راہنمائی، شعبہ تخصصات کے تحت دسیوں نئے علوم و فنون کی تعلیم و تربیت، الاحسا ن کورسز، یتیم بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ماویٰ ہومز اور عنقریب سی ایس ایس پروگرام کا اجرا۔ ایک سال قبل مجمع العلوم الاسلامیہ کے نام سے اٹھایا جانے والا قدم بھی اہم پیش رفت ہے۔
صورتحال یہ ہے کہ موجودہ نصاب کو پڑھ کر ہر سال ہزاروں علماء اور عالمات نکل رہے ہیں مگر وہ سماج میں کام کرنے کے اہل نہیں۔ وہ اپنے وقت کی زبان اور محاورے سے نا آشنا ہیں، وہ مدعو کی نفسیات سے واقف نہیں اور وہ سماج کے مختلف طبقات کو مخاطب بنانے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے اور اس پر مستزاد بے روزگاری کے مسائل ہیں۔
یہ وہ حقیقتیں ہیں جو پچھلی نصف صدی سے ہمارا منہ چڑا رہی تھی مگر کوئی آگے بڑھنے کو تیار نہیں تھا۔ حضرت مدنیؒ، حضرت شیخ الہندؒ، حضرت تھانویؒ اور حضرت بنوریؒ جیسے اکابر لکھتے چلے گئے مگر کوئی سٹیٹس کو سے نکلنے کو تیار نہیں تھا۔ اگرچہ اس اقدام پر بہت زیادہ نقد ہوا اور میں نے خود اس پر تفصیلی نقد لکھا تھا مگر اتنی بات طے تھی کہ مدارس کے نصاب و نظام میں مناسب تبدیلی کی ضرورت تھی۔ ان حضرات کے بعض اقدامات اور خدمات کے حوالے سے اختلاف رائے ہو سکتا ہے مگر اتنا کریڈٹ تو ان کو دینا چاہئے کہ یہ لوگ مشنری جذبے اور وقت کے تقاضوں کے تحت کام کر رہے ہیں۔
یہ افراد سازی اور نصاب سازی سمیت مختلف محاذوں پر ڈٹے ہوئے ہیں اور یہ اپنی ہمت اور وسائل سے بڑھ کر کام کر رہے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ ان سے کوئی اجتہادی خطا ہو جائے گی، یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ کوئی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہے اور کوئی کام نہ کرے۔ ملک و ملت اور مذہب و اہل مذہب کے حوالے سے ان کی خدمات اور ان کا سوز قابل تحسین ہے۔ قدرت کا اصول ہے کہ محنت کرنے والوں کی محنت رائیگاں نہیں جاتی، یہ چالیس سال بعد بھی رنگ لے آتی ہے۔ بلکہ انسانی سماج پر جو محنت کی جاتی ہے وہ بدیر ہی رنگ لاتی ہے۔
میری دعا ہے کہ یہ حضرات جو محنت کر رہے ہیں وہ ملک و ملت کے حق میں بارآور ثابت ہو اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے والوں کو بھی امت اور ملک و ملت کی صورتحال کی سنگینی کا احساس ہو جائے۔