تیسری صدی ہجری میں بغداد میں ایک پہلوان کا بڑا شہرہ تھا، پورے بغداد اور اطراف میں کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا، اس کی پہلوانی کے قصے بادشاہ تک پہنچے تو بادشاہ نے اسے دربار میں طلب کرلیا، گفت و شنید ہوئی اور اسے شاہی پہلوان ڈکلیئر کر دیاگیا۔ جلد ہی وہ شاہی دربار میں معروف ہو گیا، اسے دربار میں خاص پروٹوکول دیا جاتاتھا، باشاہ کے مصاحب اس سے کنی کتراتے اور خدام اس کے سامنے بچھے چلے جاتے تھے۔ ایک دن دربار سجا تھا، باشاہ اور مصاحب جمع تھے، پہلوان بھی دربار میں موجود تھا، اتنے میں کسی نے دروازے پر دستک دی، دربان نے آکر بتایا ایک کمزور و ناتواں شخص دروازے پر کھڑا ہے، لباس بوسیدہ اور کمزوری کا عالم یہ ہے کہ کھڑا ہونا مشکل ہے، کہہ رہا ہے کہ میں شاہی پہلوان سے کشتی کرنا چاہتا ہوں۔ بادشاہ نے اسے اندر آنے کا حکم دیا، کچھ دیر بعدایک نحیف و نزار اجنبی ڈگمگاتے قدموں سے دربار میں موجود تھا، باشاہ نے پوچھا:"کیا چاہتے ہو" اجنبی نے جواب دیا:"میں شاہی پہلوان سے کشتی کرنا چاہتا ہوں۔"بادشاہ اورمصاحبین نے اس کی طرف دیکھا اورزور دار قہقہہ لگایا، بادشاہ بولا:"کیا تمہیں معلوم ہے کہ شاہی پہلوان کا نام سن کر بڑے بڑے پہلوانوں کو پسینہ آ جاتا ہے، پورے شہر میں اس کے مقابلے کا کوئی نہیں تم جیسا کمزور شخص اس کا مقابلہ کیسے کر ے گا۔" اجنبی نے بڑی خود اعتمادی سے جواب دیا:"مجھے شاہی پہلوان کی شہرت ہی یہاں لائی ہے، آپ میرا چیلنج قبول کریں باقی وقت ثابت کرے گا کہ شکست کس کا مقدر ہے۔"شاہی پہلوان بڑی حیرت سے یہ سب باتیں سن رہا تھا، اس نے حامی بھر لی اور بادشاہ نے حکم جاری کر دیا، کچھ دنوں بعد تاریخ اور جگہ کا اعلان بھی ہو گیا۔ پورے بغداد میں تہلکہ مچ گیااوردور دراز سے لوگ مقابلہ دیکھنے کے لئے آنے لگے۔ اکھاڑا سج چکا تھا اور ہزاروں لوگ مقابلہ دیکھنے کے لیے موجود تھے، بادشاہ اور اراکین سلطنت بھی کرسیوں پر براجمان تھے، کشتی کا آغاز ہوا، دونوں پہلوان میدان میں دوبد و ہوئے، پنجہ آزمائی شروع ہوئی، اتنے میں اجنبی پہلوان نے شاہی پہلوان کے کان میں سرگوشی کی:"بھائی میں کوئی پہلوان نہیں ہوں، زمانے کا ستایا ہوا ہوں، آل رسولؐ میں سے ہوں، سید گھرانے سے تعلق ہے، میرا کنبہ کئی ہفتوں سے فاقوں میں مبتلا ہے، غیرت کی وجہ سے کسی کے سامنے دست سوال دراز نہیں کر سکتا، بڑی مشکل سے یہاں پہنچا ہوں، اس امید پر تمہیں کشتی کا چیلنج دیا ہے کہ تمہیں حضور کے گھرانے سے عقیدت ہے، میری لاج رکھنا۔" یہ الفاظ شاہی پہلوان کے دل پر جا کر لگے، دل گھائل ہوا اور آنکھیں بمشکل ضبط ہوئیں، کشتی دوبارہ شروع ہوئی، دونوں پہلوان گتھم گتھا ہوئے اور چند لمحے بعد مجمع پر سناٹا چھا گیا، اجنبی پہلوان نے میدان مار لیا تھا، شاہی پہلوان شکست خوردہ خاموشی سے ایک طرف کھڑا تھا۔ مجمع برخاست ہوا اور بادشاہ نے اجنبی پہلوان کو بہت سارا انعام و اکرام عطا کر کے رخصت کیا، بادشاہ، مصاحبین اور تماشائی حیرت و افسوس کے ملے جلے جذبات کے ساتھ گھروں کو روانہ ہو گئے۔ اسی رات شاہی پہلوان کو رسولؐ اقدس کی زیارت ہوئی اور آپ نے فرمایا:" شاباش جنید! تم نے ہماری لاج رکھی، ہم بھی تیرے ساتھ ایسا ہی سلوک کریں گے۔" صبح اٹھے تو شاہی ملازمت ترک کی اور فقراء کی جستجو میں نکل گئے، اپنے ماموں سری سقطی سے بیعت ہو ئے اور جنید بغدادی کہلائے۔ رسول اللہ کی نسبت کی لاج رکھنے سے اللہ نے پہلوان کو وقت کا عظیم صوفی بنا دیاتھا، دنیا آج اسے جنید بغدادی کے نام سے جانتی ہے اور تاریخ اسے سید الطائفہ کے نام سے لکھتی اور پکارتی ہے۔
میں نے کل علامہ خادم رضوی کا جنازہ دیکھا تو سکتے میں آ گیا، میں نے اپنی شعوری عمر میں حاجی عبدا لوھاب اورعلامہ رضوی سے بڑا جنازہ نہیں دیکھا، بلاشبہ یہ پاکستانی تاریخ کا بہت بڑا جنازہ تھا، گریٹرا قبال پارک اور اطراف کے علاقوں میں ہر طرف انسانی سر ہی سر نظر آتے تھے، ہماری سیاسی جماعتیں جو مہینوں کی محنت اور لاکھوں کروڑوں روپیہ لگا کر صرف ہزاروں میں لوگ اکٹھے کر پاتے ہیں کل بغیر کسی محنت اور سرمائے کے لاکھوں لوگ خود چل کر یہاں تشریف لائے، یہ لوگ کیوں آئے، اس کیوں کا جواب نسبت رسولؐ ہے، علامہ رضوی کوئی سیاسی لیڈر نہیں تھے، وہ کوئی بہت مقبول مذہبی راہنما بھی نہیں تھے، وہ ایک عام اور سیدھے سادھے عاشق رسولؐ تھے، ان کے قول و فعل میں عشق رسولؐ رچا بسا تھا، ان کی بہت ساری باتوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، میں نے خود ان کے طرز عمل پر لکھا، ان کے جلسے جلوسوں اورلانگ مارچ کے دوران عوام کو جو تکلیف پہنچتی رہی اور ان کے کارکنان نے جس ہیجان اور شدت کا رجحان اپنایا وہ قابل گرفت تھا، وہ مذہب کی جو تعبیر پیش کرتے رہے اس سے بھی اتفاق مشکل تھا مگر اس سب کے باجود ان کے جذبہ عشق رسولؐ نے ان کی تمام خامیوں کو دھو ڈالا۔ ان کے جنازے پر جو لوگ آئے لازم نہیں کہ وہ ان کے فہم دین اور تعبیر دین سے بھی اتفاق رکھتے ہوں، رضوی صاحب کا والہانہ عشق اور نسبت رسولؐ انہیں یہاں کھینچ لائی تھی، یہ نسبت بڑی چیز ہے، یہ نسبت ہی ہے جو اصحاب کہف کے کتے کو جنت میں لے جائے گی۔ علامہ رضوی کے جنازے نے ہمارے کنفیوزڈ سماج میں دو تین باتیں کلیئر کر دی، ایک، ہم مسلمان جتنے مرضی فرقوں اور مسلکوں میں بٹ جائیں رسول اللہ کی ذات اقدس ایسی ذات ہے جس پر تمام مسلمان متحد ہو جاتے ہیں، اس میں کوئی بریلوی، دیوبندی اور وہابی نہیں رہتا، یہ اچھا اور نیک شگون ہے اور ہمیں اپنی روز مرہ زندگی میں بھی اس وسعت ظرفی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ حرمت رسولؐ کے مسئلے کی طرح ہمیں دیگر مسائل میں بھی اسی رویے اور میانہ روی کو اپنانا چاہئے۔ ہمارا اصل وجود من حیث الامہ ہے، ہماری نسبت رسول اللہ سے ہے، مسالک بعد کی پیداوار ہیں اس لیے ہمیں بنیادی عقائد کے بعد فروعی مسائل میں زیادہ شدت اختیار نہیں کرنی چاہئے۔ دو، علامہ رضوی کا جنازہ لبرلز کے لیے پیغام ہے کہ پاکستانی عوام دین سے دور سہی مگر ان کے دلوں میں ایمان اور عشق رسولؐ کی چنگاریاں ابھی موجود ہیں، رسول اللہ کی ذات سے عشق ابھی کم نہیں ہوئی اور یہ عوام ذات پات اور مسلک و مذہب سے قطع نظر ہرایسے مسلمان کوکندھوں پر اٹھانے کے لیے تیار ہیں جو رسول اللہ کی خاطر میدان میں نکل پڑے، یہ عوام آج بھی نسبت رسولؐ کے رکھوالے اور اس کی لاج رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔ یہ جانتے ہیں کہ نسبت رسولؐ سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں، یہ ایک عام شاہی پہلوان کو وقت کا جنید بغدادی بنا دیتی ہے اور ٹانگوں سے معذور ایک عام انسان کے جنازے کے لیے لاکھوں انسانوں کو کھینچ لاتی ہے۔ علامہ رضوی جا چکے لیکن جانے سے قبل وہ اس قوم کو عشق رسولؐ اور حرمت رسولؐ کا سبق بڑی اچھی طرح یاد کروائے گئے۔ اللہ انکی مغفرت فرمائیں اور انکی سئیات سے درگزر فرمائیں۔