امریکہ اکیسویں صدی کا سب سے مضبوط، خود مختار اور جمہوری ملک ہے، امریکہ کو امریکہ بننے اور ایک خود مختار جمہوری ریاست کہلانے میں تین سو سال لگے ہیں۔ 1607میں جان سمتھ تین جہازوں کے قافلے کے ساتھ ورجینیا کے ساحل پر اترا اور جیمز ٹاؤن کے نام سے برطانوی نو آبادیات کی بنیاد رکھی اورا س کے بعد امریکہ میں نو آبادیات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ 1664میں برطانوی دستوں نے نیو نیدر لینڈ پر قبضہ کر لیااور اس کے بعد پوری دو صدیاں امریکہ خانہ جنگی کی گود میں کھیلتا رہا۔ ان دو صدیوں میں امریکہ کا حال وہی تھا جو 1857سے لے کر 1947تک برصغیر ہندوستان کا تھا۔
سترویں اور اٹھارویں صدی کے امریکہ اور آج کے افریقہ میں کو ئی خا ص فرق نہیں تھا۔ غلاموں کی تجارت، خانہ جنگی، اقتدار کی کشمکش، برطانوی مظالم، ٹیکسز کا نفاذ، کسانوں کے مظاہرے، ملازموں کی ہڑتالیں اور لا اینڈ آرڈر کی خراب صورتحال۔ پھر 1860میں امریکہ کو ابراہم لنکن مل گیا اور اس نے جنوبی ریاستوں کو ملا کر ایک قومی حکومت کی بنیاد ڈالی۔ لا اینڈ آرڈر کی صورتحال بہتر ہونا شروع ہو گئی، خانہ جنگی پر قابو پالیا گیا، غلاموں کی تجارت ممنوع قرار دے دی گئی، ملازموں کو حقوق ملنے لگے، رنگ اور نسل کا امتیاز ختم ہو نے لگا اور امریکہ نے امریکہ بننے کا سفر شروع کر دیا۔ آج امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور ہے، امریکہ پچھلے ساٹھ ستر سال سے دنیا پر حکمرانی کرتا آ رہا ہے، دنیا میں سب سے زیادہ تعلیمی ادارے امریکہ میں ہیں، دنیا کی ٹاپ ٹین یونیورسٹیاں بھی امریکہ میں ہیں، دنیا میں سب سے زیادہ ارب پتی افراد امریکہ میں رہتے ہیں، دنیا میں سب سے زیادہ چیرٹی کے ادارے اور افراد امریکہ میں ہیں، بل گیٹس اور وارن بفٹ جیسے "سخی" لوگ بھی امریکی ہیں، دنیا میں سب سے زیادہ ڈاکٹرز، انجینئرز اور سائنسدان امریکہ میں ہیں، دنیا کا سب سے بڑا اسلحہ ڈیلر امریکہ ہے، دنیا میں سب سے زیادہ ایجادات امریکہ میں ہو رہی ہیں، دنیا میں سب سے زیادہ ایٹم بم امریکہ کے پاس ہیں، امریکہ کا دفاعی بجٹ سب سے زیادہ ہے، امریکہ جب چاہے اور جہاں چاہے اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے، امریکہ کا انٹیلی جنس سسٹم سب سے مضبوط ہے، امریکہ کے جمہوری سسٹم کی مثالیں دی جاتی ہیں، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور اقوام متحدہ جیسے اداروں کے دفاتر امریکہ میں ہیں، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی قونصل کا اجلاس بھی امریکہ میں ہوتا ہے اور دنیا کی معیشت کو کنٹرول کرنے اور دنیا کو اپنی مرضی سے چلانے کے اجلاس اور خفیہ میٹنگز بھی امریکہ میں ہوتی ہیں۔
دنیا میں سب سے زیادہ ملٹی نیشنل کمپنیاں امریکہ میں ہیں اور دنیا کا نوے فیصد میڈیا امریکہ سے کنٹرول ہوتا ہے۔ یہ سب وہ عوامل ہیں جنہوں نے امریکہ کو امریکہ بنا یا ہے اور امریکہ کو اس اسٹیج تک پہنچنے میں تین سو سال کا عرصہ لگا ہے۔ خاندان ہوں، افراد، معاشرے، تہذیبیں یا ملک ہر ایک کو ارتقا کے تدریجی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور وہ ان تدریجی پگڈنڈیوں سے گزرے بغیر ترقی کی شاہراہ پر سوار نہیں ہو سکتا۔ آج اگر امریکہ امریکہ، برطانیہ برطانیہ اور جاپان جاپان ہے تو انہوں نے اس اسٹیج تک پہنچنے کیلئے صدیوں کا سفر طے کیا ہے۔ یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ آج کوئی ملک آزاد ہو اور کل اس کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہونا شروع ہو جائے۔ اب ہم آتے ہیں پاکستان کی طرف، پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کی سو سالہ جد وجہد کا نتیجہ تھا، سو سال تک جنگیں لڑنے، مظالم سہنے اور اپنا سب کچھ لٹانے کے بعد پاکستان ان کے حصے میں آیا تھا۔ ایک ایسا پاکستان جس کے پاس وسائل تھے نہ افراد، مشینری تھی نہ ساز وسامان، ڈاکٹر تھے، انجینئر تھے نہ سائنسدان، فیکٹریاں تھیں، ملیں اور نہ کارخانے، سڑکیں تھیں نہ ریلوے، دفاتر تھے نہ سرکاری ملازمین، جہاز تھے، ایئر پورٹ اورنہ بندرگاہیں اور حد تو یہ تھی کہ ا س کے پاس اپنا کوئی آئین اور دستور بھی نہیں تھا۔ اس کے باوجود اللہ کا کرم تھا کہ پچاس سال بعد وہی پاکستان ایٹمی طاقتوں کی صف میں کھڑا تھا۔ آج وہی پاکستان جنوبی ایشیا کا اہم ترین ملک ہے جس کی مرضی کے بغیر عالمی طاقتیں کو ئی پالیسی ترتیب دے سکتی ہیں اور نہ اس پر عمل پیرا ہو سکتی ہیں۔
آج اس کا شمار دنیا کے اہم ترین ممالک میں ہوتا ہے اور اس پاکستان کو ساتھ لے کے چلنا نا صرف عالمی طاقتوں کی مجبوری بلکہ کمزوری بن چکاہے۔ آج اس پاکستان کی فوج کا شمار دنیا کی اہم ترین اور بہادرا فواج میں ہوتا ہے، اس پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسی ہے، آج یہ پاکستان دنیا کا بہترین اسلحہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے، آج اس پاکستان کے پاس دو سو سے زائد ایٹم بم موجود ہیں، آج امریکہ، روس اور چین جیسی سپر رپاورز اسے اپنے بلاک میں شامل کرنے کے لئے بے چین ہیں۔ اتنی کم عمر میں اتنی بڑی کامیابیاں حاصل کر لینا واقعی ایک کمال ہے اور یہ کمال صرف پاکستان جیسا ملک ہی کر سکتا ہے۔ صبح شام ٹی اسکرینوں پر فرسٹریشن پھیلانے والے دانشوروں، مغربی اور یورپی ترقی کے گن گانے والے لکھاریوں اور پاکستان کوایک ناکام ریاست ڈکلیئر کرنے والے تجزیہ کاروں کو یہ امر نہیں بھولنا چاہئے کہ پاکستان اس وقت اپنی عمر اور اپنی تاریخ کے ارتقائی مراحل سے گزر رہاہے اور اس وقت تک اس ملک نے اپنی عمر اور قد سے بڑھ کر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ رہا یہ سوال کہ بعض عرب ریاستوں اور بہت سے یورپی ممالک نے، جو پاکستان کے بعد آزاد ہوئے بہت جلد ترقی کی ہے اور آج وہ ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہیں۔ مثلاً ناروے، ڈنمارک، سوئٹرزلینڈ، آئر لینڈ، بلجیم، سنگا پور، بحرین، مسقط، عمان، کویت، عرب امارات، اردن اور برونائی سب ایسے ممالک ہیں جنہوں نے بہت کم عرصے میں ترقی کی ہے اور آج یہ ممالک ترقی یافتہ ممالک میں سر فہرست ہیں۔ تواس کا جواب یہ ہے کہ آپ پہلے آپ ان ممالک کا جغرافیہ، ان کی آبادی، ان کے ہمسایہ ممالک اور ان کی معیشت کا جائزہ لیں۔
ناروے کی آبادی صرف 51لاکھ ہے، فن لینڈ 55لاکھ، سنگا پور 55 لاکھ، آئر لینڈ 46لاکھ، سویڈن 98لاکھ، ڈنمارک 57لاکھ اور اسی طرح عرب ریاستوں کی آبادی بھی لاکھوں کے ہندسے سے تجاوز نہیں کر تی، اب یہ چھوٹے چھوٹے ممالک ہیں، ان کی آبادی ساتویں ہندسے سے آگے نہیں بڑھتی، ان کی ہمسائے ممالک کے ساتھ کو ئی جنگ نہیں، انہیں ایٹم بم، فوج اور اسلحے کی بھی پروا نہیں، ان کی جغرافیائی حیثیت نے انہیں ہر طرح کے خطرات سے محفوظ رکھا ہوا ہے اور شرح خواندگی ان ممالک میں سو فیصد ہے لہٰذا ان ممالک کی ترقی ایک لازمی امر ہے۔ جبکہ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت، ہمسایہ ممالک، آبادی، شرح خواندگی اور انرجی کے مسائل یکسر مختلف ہیں۔ پاکستان کی آبادی تقریبا تئیس کروڑ کی حدوں کو چھو رہی ہے لہٰذا 50لاکھ آبادی اورتئیس کروڑ آبادی والے ملک کا موازنہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے جس ملک پر تئیس کروڑ عوام کا بوجھ ہو گا اس کے مسائل بھی اسی لحاظ سے ہو ں گے، اس ملک میں ٹرانسپورٹ، سڑکیں، بازار، ریلوے، ایئر پورٹس، شاپنگ مالز، گھر، فلیٹ، سیوریج سسٹم، صاف پانی، غذائی اجناس اور ضروریات زندگی کے مسائل بھی اسی حساب سے ہوں گے۔ اسی طرح آپ عرب ریاستوں کو دیکھ لیں، یہ بھی سب چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہیں، ان کی آبادی لاکھوں سے تجاوز نہیں کرتی، ہمسایہ ممالک کے ساتھ کو ئی جنگ نہیں اور میزائل اور اسلحے کی انہیں ضرورت نہیں اور جب سے تیل دریافت ہوا ہے ان ریاستوں کی ترقی کو پر لگ گئے ہیں۔