یہ تو یقین تھا کہ اس شخص سے جڑا رومانس بہت جلد ٹوٹ جائے گا مگر اتنی جلدی ٹوٹے گا اس کا یقین نہیں تھا۔ صرف تین سال ہی تو ہوئے ہیں جب لکھا تھا یہ شخص معما ہے، تراشا گیا ایک بت ہے، نرگسیت کا شاہکار ہے اور ملک چلانے کی صلاحیت سے تہی دست ہے۔ مگر تب کوئی ٹائیگر یہ بات سننے کا روادار نہیں تھا، بالکل اس ناکام عاشق کی طرح جسے محبوب کے بغیر جینے کا حوصلہ دیا جائے تو وہ کسی امکان کو مسترد کر کے موت پر بات ختم کر دیتا ہے۔
پچھلے چار پانچ سال میں کیا کچھ نہیں ہوا، ہر شب ایک نیا ہنگامہ اور ہر روز ایک نئی آزمائش۔ ایک شخص کی نرگسیت کے ہاتھوں پوری قوم آزمائش میں مبتلا رہی۔ معیشت، بے روزگاری، مہنگائی، روپے کی بے قدری، عدم استحکام، ہیجان، دشنام اور عالمی سطح پر جگ ہنسائی۔ اس پر مستزاد ایک ایسا ہجوم جو کسی محاورے کے مطابق ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگتا رہا، منزل کہا ں اور جانا کہاں تھا کسی کو معلوم نہیں تھا۔ متبعین کیا جب خود راہبر ہی کو معلوم نہ تھا تو بیچارے معصوم اور جذباتی ٹائیگر کو تو دوش نہیں دیا جا سکتا۔ ویسے بھی نری جذباتیت اور خام خیالی منزل تک پہنچنے کا سبب ہوتی تو شیخ چلی کے محلات یونیسکو کے آثار قدیمہ میں شمار ہوتے۔
تب بھی یہی لکھا تھا کہ یہ شخص معما ہے جو آج تک کسی پر کھل نہیں سکا، البتہ اس معمے نے اور بہت سارے پارساؤں کی قبائیں چاک کر دیں۔ پہلے اہل سیاست نے اپنے پیٹ ننگے کیے، ان کی دیکھا دیکھی اہل مذہب بھی اس میدان میں کود پڑے۔ کسی نے بین الاقوامی تقریبات میں شرکت کے موقع پر اینگلنگ کر کے امت مسلمہ کا لیڈر ڈکلیئر کیا۔ کسی نے ہاتھ میں پکڑی تسبیح کا حوالہ دیا، دو چار ایسے تھے جنہیں شرف باریابی کی توفیق نصیب ہوئی تو انہوں نے فیس بک پر حق نمک ادا کیا۔ یاد آیا ایک واٹس ایپ گروپ میں ایک "عظیم الجثہ" نام نہاد اسلام پسند کالم نگار ہوا کرتے تھے، ان سے اگر آنجناب کی بابت اختلاف کی جرأت کی جاتی تو ایسے بدکتے کہ پورے گروپ کو ہلا کر رکھ دیتے تھے۔
ایک سابق بیوروکریٹ بھی ہوا کرتے تھے، وہ بھی آنجناب کی لیڈری کے لیے زمین آسمان کے قلابے ملانے میں ذرہ بھر تردد نہیں کرتے تھے۔ ویسے بھی وہ جب کچھ ثابت کرنا چاہیں تو تردد کم ہی کرتے ہیں۔ آنجناب کو لانے والوں کی طرح اب یہ حضرات بھی رجوع کر چکے ہیں۔ ان کو اگر ان کی گزشتہ دانشوری کا حوالہ دیا جائے تو رجوع کے حق میں بھی دلیل کشید کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ اہل مذہب نے اس معمے کی وکالت میں ثابت کیا کہ وہ دلیل، تہذیب، اختلاف رائے، تحمل و برداشت اور شائستگی سے الحمد للہ تہی دست ہیں۔ پہلے یہ کام اہل سیاست کرتے تھے مگر جب یہ کام اہل مذہب نے شروع کیا تو وہ دو ہاتھ آگے نکلے، کیونکہ یہ ہر کام بحسن و خوبی اور احسان کے ساتھ سر انجام دینے کے قائل ہیں۔
آنجناب کی واحد خوبی جس کا ہر جگہ حوالہ دیا گیا، جلسوں میں ترانے گائے گئے اور اس کی بنیاد پر ذہن سازی کی گئی وہ یہ تھی کہ آنجناب کرپٹ نہیں۔ فارن فنڈنگ نے اس سفید پگ کو جگہ جگہ سے داغدار کر دیا لیکن اس کو چھوڑیے، خدا لگتی کہیے کیا مالی کرپشن اخلاقی کرپشن سے زیادہ خطرناک ہے اور کیا یہ شخص اخلاقی کرپشن میں طاق نہیں؟ مشہور اور زبان زد عام اخلاقی کرپشن کو چھوڑیے محض پچھلے چار پانچ سال میں سماج اور نوجوانوں کو جس بد اخلاقی اور انتہا پسندی کی طرف دھکیلا گیا کیا یہ کسی انسان کی پہچان کے لیے کافی نہیں۔ چند ارب کی مالی کرپشن کہ جس کے نام پر یہ ملک پچھلے چار سال عذاب میں مبتلا رہا اسحاق ڈار کے ایک اقدام کی وجہ سے اربوں روپے قرض کم ہو گیا۔ میں مالی کرپشن کا جواز پیش نہیں کر رہا مگر کم از کم اتنا شعور تو سماج میں ہونا چاہئے کہ اسے کون کس طرح اور کس نام پر چونا لگاتا رہا۔
دوسری خوبی جس کو بڑے بڑے مبلغین، پارساؤں اور دانشوروں نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا کہ یہ شخص ریاست مدینہ کی بات کرتا ہے۔ اسے ستم ظریفی کہیے یا تجاہل عارفانہ کہ آج تک مذہبی سیاسی جماعتوں اور اداروں کو جس بات کا طعنہ دیا گیا اس شخص کے حق میں اس سے دستبرداری کیوں ہوئی۔ مذہبی سیاسی جماعتوں اور اداروں سے کہا جاتا تھا کہ اگر آج حکومت آپ کے سپرد کر دی جائے تو آپ کے پاس کون سے اور کتنے ایسے افراد ہیں جواس ملک کو ریاست مدینہ کے طرز پر چلا سکیں۔ یہ سوال مگر اس شخص سے کسی نے نہیں کیا۔ جو مشورہ مذہبی سیاسی جماعتوں اور اداروں کو دیا جاتا تھا اس کو یہاں کیوں فراموش کر دیا گیا۔ کوئی محض زبانی جمع خرچ سے ریاست مدینہ کا نام سن کر کیسے یقین کر لے۔
انسان غیب کا علم نہیں جانتا مگر اللہ نے اسے یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ ماضی کے تجربات و واقعات کی بنیاد پر مستقبل کے بارے میں رائے قائم کرے۔ اسی بنیاد پر میں نے لکھا تھا کہ اس شخص سے مجھے کسی خیر کی توقع نہیں۔ جذبات، ہیجان، انتقام، نرگسیت اور خود پسندی جیسے عوارض انسان سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لیتے ہیں۔ تباہی مگر یہ ہوئی کہ قوم کے بڑے حسن ظن کی گنجائش نکال کر آنجناب کو لانے پر بضد تھے۔ ضد جائز کام میں بھی ہو تو بُرے انجام پر منتج ہوتی ہے۔ اس ضد کے نتائج ماشاء اللہ اب ملک و قوم کے سامنے بکھرے پڑے ہیں۔ آخری تجزیے کے طور پر پاکستان اپنے عبوری دور سے گزرکر دوبارہ اسی جگہ آ گیا ہے، اسے پھر وہیں سے سفر شروع کرنا ہے جہاں 2018 میں چھوڑا تھا۔ سیاست، معیشت، معاشرتی استحکام، صحت، تعلیم، روزگار اور سفارتی تنہائی ہر شعبہ زوال کا شکار ہے۔ اس زوال سے نکلنے کے لیے دہائیاں درکار ہیں الا یہ کہ کوئی معجزہ ہو جائے۔
اہل مذہب کے لیے اس سارے منظر نامے میں بہت سے اسباق پوشیدہ ہیں، سماج میں مذہبی خدمات تب تک قابل قبول ہیں جب تک آپ غیر سیاسی ہیں۔ سیاست اہل سیاست کا کام ہے، اہل مذہب کے کرنے کے اور بہت سارے کام ہیں۔ جس طرح اہل مذہب، مذہبی شخصیات اور ادارے آنجناب کی سیاست سے قبل لاتعلق اور دینی کاموں میں مشغول تھے اب بھی وہی روش اپنانے کی ضرورت ہے۔ اسی میں مذہب و اہل مذہب کی بھلائی اور یہی ان کا وظیفہ ہے۔