میں مکمل طور پر بارش میں بھیگ چکا تھا، یہ سردیوں کی ٹھٹھرتی صبح اور اتوار کا دن تھا، پورا ملک بارشو ں کی زد میں تھا، لوگ گھروں میں محصور تھے، سردی جانے کے بعد بارشوں کے کندھوں پر سوار ہو کر دوبارہ آ چکی تھی، ہلکی ہلکی بوندا باندی تھی، فضا میں پرندوں کی چہک تھی اور ہواکی خنکی ریڑھ ہڈی تک محسوس ہو رہی تھی۔ لوگ بستروں میں گھسے ان قیمتی لمحات کو انجوائے کر رہے تھے، انسانوں کا معاملہ بڑا عجیب ہے، ہر انسان کی خوشی اور پر سکون رہنے کا اپنا طریقہ اور معیار ہے، یہ معیار اور طریقے حتمی نہیں ہوتے بلکہ یہ ہم نے غیر شعور ی طور پر اختیار کرلیے ہوتے ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں شاید یہ حرف آخر ہیں، مثلاً ایک انسان کی خوشی کا معیار یہ ہے کہ اسے سردیوں کی ٹھٹھرتی صبح میں لحاف اوڑھ کر کتاب پڑھنا اچھا لگتا ہے، پھر اس میں مزید معیارات ہیں، مثلا کسی کو ناول پڑھنے سے خوشی کا احساس ہوتا ہے، کوئی افسانے میں دلچسپی رکھتا ہے، کسی کو علمی و فکری کام سے لگن ہے اور کوئی سوانح یا تاریخ پڑھ کر خوشی محسوس کرتا ہے۔ کسی کی خوشی کا معیار یہ ہے کہ اسے مذہبی سرگرمیوں میں سکون اور فرحت محسوس ہوتی ہے، مثلاً اسے قرآن کی تلاوت یاکسی مذہبی کتاب کی ورق گردانی سے تسکین ملتی ہے، کسی کی خوشی کا معیار موبائل انٹرنیٹ یا ٹی وی سے جڑا ہوتا ہے اور کوئی محض گپ شپ سے لطف اندوز ہوتا ہے۔
یہ ہمارے خوش رہنے کے اپنے اپنے معیارات ہوتے ہیں جو غیر شعوری طور پر ہماری شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں، یہ معیار اور طریقے حتمی نہیں ہوتے بلکہ ان کا تعلق ہمارے رویوں اور عادتوں سے جڑا ہوتا ہے، اگرآپ کسی لمحے اپنی عادتوں اور رویوں کو بدل لیں تو آپ کے یہ معیارات بھی بدل جاتے ہیں۔ ممکن آج خوش اور پرسکون رہنے کا جو معیار آپ میں ڈویلپ ہو چکا ہے مستقبل میں آپ اس کے بالکل برعکس خوشی محسوس کریں، اہم بات یہ ہے کہ یہ معیارات حددو و قیود سے تجاوز نہ کریں اس سے فرق نہیں پڑتا کہ آپ کی خوشی اور پر سکون رہنے کا معیار کیا ہے۔ میں صبح کی واک کرتا ہوا ڈاکٹر صاحب کے گھرپہنچا تھا، بارش زیادہ نہیں تھی مگر میں اس بوندا باندی میں بھی مکمل طور پر بھیگ چکا تھا، میں نے دروازے پر دستک دی اور چند لمحوں بعد ڈاکٹر صاحب باہر تشریف لے آئے، میں نے ہاتھ سینے پر رکھ کر جھک کر سلام کیا اور انہوں نے گرمجوشی سے میرا ہاتھ تھام لیا، تسلیم و آداب کے بعد انہوں نے دروازہ کھولا اور ہم اندر چلے گئے۔ میں سردی سے کانپ رہا تھا، وہ میری حالت دیکھ کر مسکرائے، ہیٹر قریب کیا اور خود چائے لینے چلے گئے۔
میں نے پانچ سات منٹ خود کو ریلکس کرنے میں لگا دیے، تھوڑی دیر بعد وہ چائے اور لوازمات سمیت کمرے میں وارد ہوئے اور گفتگو شروع ہو گئی، میں ان کی گفتگو سننے کے لیے ہی حاضر ہوا تھا، وہ مختلف موضوعات پر لب کشائی کرتے رہے، میں سوال کرتا تھا اور وہ معانی کا دریا بہانا شروع کر دیتے تھے، میں نے عرض کیا "سر کیا وجہ ہے کہ ہم من حیث القوم اخلاقی زوال کا شکار ہیں، سوسائٹی کے عام اور نیم خواندہ طبقے کو تو رہنے دیجئے ہمارے سیاستدان سے لے کرڈاکٹر، عالم، استاد اور دانشور تک سب اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہیں، ایسا کیوں ہے؟ یہ پڑھے لکھے طبقے کا عالم ہے، عوام اس صفت میں جس اونچے مقام پر فائز ہیں اس کا تواندازہ کر نا ہی مشکل ہے "انہوں نے میرا سوال غور سے سنا، ابلتی ہوئی چائے کا سپ لیا، چشمہ اتار کر میز پر رکھا اور ٹانگیں دراز کرتے ہوئے گویا ہوئے" یہ بہت اہم ایشو ہے، ہم واقعی اخلاقی گراوٹ کا شکار ہیں، ہم میں وہ سب اخلاقی بیماریاں موجود ہیں جو کسی قوم کی تباہی میں بنیادی کر دار ادا کرتی ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں تردد نہیں کہ دنیا کی ہر غیر اخلاقی بیماری ہم میں موجود ہے بلکہ بعض بیماریاں ایسی ہیں جو دنیا میں صرف ہم میں ہی پائی جاتی ہیں، ہمارے ہاں مردوں کو قبروں سے نکال کر کھایا جاتا ہے، اولاد والدین کو قتل کردیتی ہے اور والدین اولادکو ماردیتے ہیں، پانچ پانچ سال کی بچیوں سے ریپ کیا جاتا ہے، ملاوٹ اور جعل سازی کر کے سرعام موت بانٹی جاتی ہے، جھوٹ اور دھوکے کو کامیابی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور ہماری دانش گاہوں میں گروہی مفادات کی بنا پر جنگیں ہوتی ہیں۔"
وہ سانس لینے کے لیے رکے اور تھوڑی دیر کے لیے گہرے مراقبے میں چلے گئے، میں تھوڑی دیر خاموش رہا اور بے چین ہوکر اگلا سوال داغ دیا "سر آخر اس کی وجہ کیا ہے" انہوں نے سوال سنا، سر جھکایا، تیس سیکنڈ کے بعد سر اٹھایا اور گویا ہوئے "اس سوال کے جواب کے لیے میں تمہیں سقراط کے پاس لے چلتا ہوں، سقراط پہلا شخص تھا جس نے اس پہلو کی طرف توجہ دلائی تھی، یونانی فلسفے کے ارتقاء میں تین ادوار آتے ہیں، پہلا دور چھٹی صدی قبل مسیح سے شروع ہوتا ہے، اس دور کے اہم فلسفیوں میں تھالیس، اناکسی منیڈر، ہیرا قلیطس، انکساگورس اور دیما قریطس شامل تھے انھوں نے اپنی ساری توجہ اس بات پر صرف کی کہ وہ کائنات کی حقیقت معلوم کریں، دوسرا دور سوفسطائیوں کا تھا جس میں پروٹاگورس، تھراسی میکس، گارجیاس، پولس، کیلی کلس جیسے فلسفی شامل تھے، انہوں نے انسانی جستجو کا رخ کائنات سے انسانوں کی طرف موڑ دیا، تیسرے دور کا آغاز سقراط سے ہوتا ہے، سقراط پہلا شخص تھا جس نے انسانی جستجو کا رخ اچھائی اور برائی کی طرف موڑا، جس نے سب سے پہلے اچھے انسان اور اچھے نظام کی بات کی اور انسانی جستجو کا رخ اخلاقی اوصاف کی طرف موڑ دیا۔ پہلے صرف کائنات اور انسان کے بار ے میں غور و فکر ہوتا تھا، سقراط نے آگے بڑھ کر بتایا کہ غور کرنے کی اصل چیز انسان اوراس کے اخلاقی اوصاف ہیں، کوئی فلسفی، استاد یا دانشور اپنے فن میں کتنا ہی ماہر کیوں نہ ہو اگر وہ اچھا انسان نہیں تو وہ اچھا فلسفی، استاد یا دانشور کہلانے کا مستحق نہیں۔"
وہ سانس لینے کے لیے رکے اور دوبارہ گویا ہوئے "آج ہماری تعلیم، سیاست، مذہب اور سماج کا سارا زور اس بات پر ہے کہ کون کتنا اچھا ڈاکٹر، بزنس مین، عالم، استاد یا دانشور ہے، کون کتنا اچھا منتظم، سیاستدان، انجینئر، سائنسدان یا صحافی ہے، اس پہلو پر کوئی توجہ نہیں دیتا کہ کون کتنا اچھا انسان ہے، جب تک ہم اچھے انسان نہیں بنتے ہم اپنے فن میں کتنی ہی مہارت حاصل کر لیں ہم اچھے کہلانے کے حق دار نہیں، ایک عالم، استاد، فلسفی یا دانشور اپنے فن اور ذات میں بہت اچھے ہوسکتے ہیں مگر جب تک وہ اچھے انسان نہیں بنتے وہ انسانیت کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتے۔ اچھے انسان سے مراد احساس ذمہ داری، ہمدردی، خدمت خلق، ایثار، خلوص، انصاف پسندی، انسانیت کا درد، خدا خوفی اور ذاتی مفادات کی بجائے اجتماعیت کا شعور ہے۔ عظیم فلسفی روسو کہا کرتا تھا کہ ہمارے پاس اچھے سائنس دان، ڈاکٹر، ہنرمنداور اچھے منتظمین تو ہیں مگر اچھے شہری اور اچھے انسان نہیں اس لیے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں، وہ کہتا تھا ہماری سماجی برائیاں سائنس، علم، تجربے، ہنر اور فن کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ اخلاقی اوصاف کی کمی کی وجہ سے ہیں۔ اس لیے ہم جب تک اپنی تعلیم، سیاست، مذہب، آرٹ اور درسگاہوں کا رخ پیشہ ور اور ہنر مند افراد پیدا کرنے کی بجائے اچھا انسان بنانے کی طرف نہیں موڑیں گے ہماری اندر یہ سب برائیاں موجود رہیں گی اور ہم اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار رہیں گے۔" ڈاکٹر صاحب بات کر کے خاموش ہو گئے اور میں سردیوں کی ٹھٹھرتی صبح میں، یہ سوچتا ہوایک بار پھر بارش میں بھیگنے کے لیے نکل پڑا کہ ہم میں اچھا انسان بننے کا احساس کب جاگے گا؟