20 فروری 2021 کو پی ایس ایل کے چھٹے ایڈیشن کی اوپننگ سرمنی تھی، یہ سرمنی کراچی کے نیشنل اسٹیڈم میں ہوئی اور اس کے بعض حصوں کی ریکار ڈنگز ترکی کے شہر استنبول میں کی گئی تھیں۔ پی ایس ایل کی اوپننگ سرمنی ایک نیشنل ایونٹ تھا، پوری قوم اور فیملیز ٹی وی اسکرینوں کے سامنے بیٹھی یہ تقریب لائیو دیکھ رہی تھی۔ اس تقریب میں فن کے نام پر انتہائی بیہودگی، بے حسی اور بد تہذیبی کا مظاہرہ کیا گیا، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس بیہودگی اور بد تہذیبی پر من حیث القوم ہمارا سر شرم سے جھک جاتا مگریہاں کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ لازم تھا کہ مذہبی فکر، ارباب مدارس اور علماء کی طرف سے اس کی بھرپور مذمت کی جاتی افسوس مگر یہ ہے کہ یہاں کسی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ یہ خاموشی ہماری اجتماعی بے حسی کی غماز ہے اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ ہم نے من حیث القوم اس بد تہذیبی اور بے حسی کو دل سے قبول کر لیا ہے۔ یہ خاموش حمایت ہماری اگلی نسلوں پر کیا اثرات مرتب کرے گی شاید ہم اس کا اندازہ نہیں کر سکتے اور اس کے ساتھ یہ خاموشی ہمیں اللہ سے بے وفائی کا مجرم بھی بنادے گی۔ بات دراصل یہ ہے کہ ڈرامے اور فلم کے بارے میں سماج میں ابھی حساسیت موجود ہے اور ڈرامے اور فلم کو گناہ سمجھا جاتا ہے مگر پی ایس ایل محض انٹرٹینمنٹ اور تفریحی سرگرمی ہے اور اسے کوئی گناہ نہیں سمجھتا۔ اس تفریح کے نام پر ہم سماج میں جن چیزوں کو پروموٹ کر رہے ہیں اس کے نتائج کتنے خطرناک اور بھیانک ہیں فی الحال ہمیں ان کا اندازہ نہیں ہو رہا۔
اس کا فوری اور نقد نقصان یہ ہے کہ ہماعی نئی نسل تصور گناہ سے نا آشنا ہوتی جا رہی ہے، اس کا تصور گناہ مسخ ہو گیا ہے اور یہ گناہ کو گناہ سمجھ ہی نہیں رہی۔ اس کی دوسری تعبیر یہ ہے کہ ہم اور ہماری نئی نسل کے دلوں میں موجود ایمان کی چنگاری بالکل بجھ چکی ہے اور ان کے دلوں میں ادنیٰ سا ایمان بھی باقی نہیں رہا۔ کیونکہ رسول اللہ نے فرمایا تھا کہ ایمان کا کم سے کم تر درجہ یہ ہے کہ تم برائی کو دل سے برا سمجھو، ہماری نوبت اس سے بھی آگے جا چکی ہے اور ہم برائی اور گناہ کو برا سمجھ ہی نہیں رہے، ہماری حیثیت محض شناختی کارڈ والے اسلام کی رہ گئی ہے جس میں ہم محض نام کے مسلمان ہیں۔ کیا ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اگلی نسلیں ایمان سے تہی دست ہو جائیں؟ موجودہ منظرنامے میں ہماری اجتماعی خاموشی ااور بے حسی شاید اسی وقت کی منتظر ہے۔ بعض احباب کو اعترض ہو گا کہ میں پی ایس ایل پر تنقید کر رہا ہوں حالانکہ یہ سراسر تفریحی سرگرمی ہے تو عرض ہے کہ میں پی ایس ایل پر تنقیدہر گز نہیں کر رہا بلکہ پی ایس ایل کے نام پر پروموٹ کی جانے والی بد تہذیبی اور اس بد تہذیبی کے نتیجے میں سماج اور نئی نسل پر مرتب ہونے والے اثرات پر اپنے تحفظات کا اظہار کر رہا ہوں۔ اور اس کا حق مجھے پاکستان کا آئین دیتا ہے۔ پاکستان کے آئین میں لکھا ہے کہ حکومت و ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو ایسا ماحول فراہم کریں جس سے وہ اپنی زندگیاں قرآن وسنت کے بتائے گئے اصولوں کے مطابق گزار سکیں۔
ہمارے ہاں گنگا الٹی بہتی ہے اور کوئی ان اداروں سے پوچھنے والا نہیں۔ میں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے آفیشلز سے اس تقریب کے بارے میں موقف لینے کے لیے رابطہ کیا تو مجھے کہا گیا کہ PCB کی پوری ٹیم کراچی گئی ہوئی ہے اور فی الحال کوئی صاحب موقف دینے کے لیے میسر نہیں۔ ایک ہفتے کی مسلسل تگ و دو کے بعد مجھے ایک موبائل نمبر دیاگیا اور کہا گیا کہ ان صاحب سے آپ کو PCB کا آفیشل موقف مل جائے گا، میں نے رابطہ کیا تو وہ صاحب بھی موقف دینے سے گریزاں تھے اور مجھے کہا گیا آپ PCB کی آفیشل ای میل پر اپنا سوال چھوڑ دیں آپ کو رسپانڈ کر دیا جائے گا۔ ای میل کیے بھی تقریباً ہفتہ گزر چکا مگر میں تاحال منتظر ہوں اور مجھے ابھی تک PCB کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ میری اور آپ کی ذمہ داری ہے کہ ہم ہر اس غلط قدم کے خلاف آوز اٹھائیں اور فیڈ بیک دیں جو اس ملک کی نظریاتی سرحدوں اور آئین کے خلاف ٹھتا ہے۔ یہ ملک ہمارا ہے، یہ ادارے ہمارے ہیں اور اگر ہم نے ان کے غلط اقدام کے خلاف آواز نہ اٹھائے توہم بھی اس میں برابر کے شریک ہوں گے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہم اللہ سے بے وفائی کے بھی مجرم ہوں گے۔