مسلم سماج اور خصوصاً پاکستان میں یہ رویہ عام ہو چکا ہے کہ مختلف شعبوں اور طبقات سے تعلق رکھنے والے بعض حضرات مذہب و اہل مذہب اور مسجد و مدرسہ پر تنقید کو اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں۔ نیچرل سائنسز، سوشل سائنسز، مینجمنٹ سائنسز، میڈیکل سائنسز، انجینئرنگ اور دیگرمختلف فنون سے وابستہ افرادوقتا فوقتا مذہب اوراہل مذہب، علوم دینیہ اور علماء وفقہاء پر تنقید کرتے رہتے ہیں جبکہ ان کی مذہب اور مذہبی معاملات پر دسترس نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ ایسے حضرات کی طرف سے عموماً جو نقد کیا جاتا ہے وہ شخصی نوعیت کا ہوتا ہے یعنی بعض افراد کی ذاتی اور شخصی کوتاہیوں کو بنیاد بنا کر مذہب و اہل مذہب پر الزام تھونپا جاتا ہے اور عوام الناس کو مذہب سے برگشتہ کیا جاتا ہے۔ حالانکہ تاریخی طور پر اسلام کی تفہیم میں جو غلطیاں بعض اہل مذہب نے کی ہیں اس کی سزا مذہب کو نہیں ملنی چاہئے اور نہ مذہب اس کا ذمہ دار ہے۔ مذہب پر اس غلط نقد کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ بعض اوقات خدا کے وجود تک کے بارے میں بھی شکوک و شبہات میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہ کوئی معیاری نقد نہیں ہوتابلکہ شخصی رویوں اور کہانیوں کی بنیاد پر اپنا منجن بیچنے کی خواہش ہوتی ہے۔ شخصی تنقید کو در اصل تنقیص کہنا زیادہ مناسب ہے کیونکہ اس کی بنیاد علمی رویہ یا دلائل نہیں ہوتے ہیں بلکہ حد سے بڑھا ہوا تعصب، انتہا پسندی اور جذباتی مزاج ہوتا ہے۔ اگر ایسے احباب کو مذہب اور اہل مذہب یا مدرسہ اور اہل مدرسہ پر نقد کا اتنا ہی شوق ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ پہلے ان علوم کی مبادیات اورمدارس ومساجد کے قیام کا پس منظراچھی طرح ذہن نشین کر لیں۔ مذہب کے کسی خاص تصور اور مسئلے کی تفہیم اور اس سے متعلقہ سوالات الگ بات ہے لیکن تنقیدی رویہ اس سے بالکل ایک علیحدہ شے ہے جس کے لیے ناقدکا مطلوبہ اہلیت کا حامل ہونا لازم ہے۔
یہ حضرات عموماً ایسا نقد کرتے ہیں جو موضوع سے ہی غیر متعلق ہوتاہے، بنیادی نکتے پرفوکس کی بجائے اس سے متعلقہ چیزوں کا سہارا لے کر اپنا شوق پورا کیا جاتا ہے، مثلاً اگر انہیں کسی خاص عالم، مدرسہ یا شخص سے اختلاف ہے تو وہ اس پر نقد کی بجائے تمام علماء، مدارس اور اہل مذہب کو نشانہ بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے زوجین آپس کی لڑائی میں جذباتی ہو کر ایک دوسرے کے خاندان اور متعلقین کوبھی نشانہ بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ مدرسہ اور اہل مدرسہ ایک اپنا ایک خاص تاریخی تناظر رکھتے ہیں، ان کے اپنے مسائل اور
ترجیحات ہیں مگر یہ حضرات انہیں اپنے زاویے سے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں اور ہد ف تنقید بناتے ہیں، یہ غیر متعلقہ نقد کی انتہائی صورت ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ آپ نے تاریخ پر ایک مقالہ لکھا ہے اور ایک صاحب اٹھ کر نفسیات اور اس کے اصولوں کی روشنی میں اس مقالے کا معیار جانچنا شروع کر دیں اوراس پر نقد کرتے ہوئے آپ کے مقالہ کوہی غیر معیاری قرار دیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین نفسیات نے علم وحی کو علم نفسیات کی روشنی میں سمجھنا چاہا اور وحی کو بچپن کی نامکمل خواہشات، خواب، جنون اورہسٹیریا سے جوڑ دیا۔ اہل سائنس کی اہل مذہب پر نقد کی نوعیت ایسی ہی ہے یعنی وہ مذہب کو سائنسی اصولوں کی روشنی میں پرکھنا چاہتے ہیں۔ وہ مافوق العقل کو عقل اور ما فوق الحواس کو حواس کے ذریعے جانچنا چاہتے ہیں حالانکہ یہ ممکن نہیں اور نہ ہی یہ درست رویہ ہے۔ اس لیے تنقید کے لیے لازم ہے کہ وہ متعلقہ فن کے اصول و ضوابط، مبتدیات و معیارات کی روشنی میں ہو۔
اسی طرح مذہب اور اہل مذہب پر تنقید کے لیے یہ طرز عمل بھی درست نہیں کہ مذہب پرلکھی چند کتابیں پڑھ کر اور سطحی معلومات کو بنیاد بنا کر مدرسہ و اہل مدرسہ اور علوم دینیہ و علماء پر نقد شروع کر دیا جائے۔ کسی بھی فن یا میدان میں نقد و تنقید کے لیے اس فن یا میدان کا متخصص ہونا لازم ہے ورنہ ایسا ناقدبذات خود کسی مذاق سے کم نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ نقد و تنقید ہر شخص کا بنیادی حق نہیں بلکہ یہ صرف اس شخص کا حق ہے جو تنقید کا اہل ہے۔ کسی فن کے متعلق عمومی بات چیت یاسوالات کرنے کے لیے تو شاید اس فن میں مہارت یا رسوخ کی ضرورت نہ ہو لیکن نقد و تنقید سرا سر علمی کام ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ ناقد کا علم متعلقہ فن کے صرف مبتدیات تک محدود نہ ہوبلکہ وہ اس فن کے مطولات اور بنیادی مصادرو مراجع کا گہرا فہم رکھتا ہو۔۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ نقد کا معنی صحیح کو ضعیف سے جدا کرنا ہے تو کسی بھی فن میں صحیح کو ضعیف سے جدا کرنے کا کام وہی شخص کر سکتا ہے جو اس فن کے ماہرین میں سے ہو۔ ایک میڈیکل ڈاکٹر کی ایک عالم پر تنقید اور ایک عالم کا انجینئرنگ پرنقد کرناایک لایعنی اور عبث کام کہلائے گا کیونکہ یہ متعلقہ فنون کے رجال کا نقد نہیں ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ نقد کی بنیاد تعصب، ہٹ دھرمی، ضد یا گروہی عصبیتیں نہیں ہونی چاہئیں۔ اسٹیفن ہاکنگ کا کہنا تھا کہ امریکن سائنسدان محض تعصب کی بنیاد پر روسی سائنسدانوں کی تحقیقات کا رد کردیتے ہیں یعنی ان کی سوچ ہی یہ بن چکی ہے کہ چونکہ وہ امریکن نہیں ہیں لہٰذا ہر حال میں ہم نے ان کا رد ہی کرنا ہے۔ اسی طرح یہ قابل افسوس رویہ بعض لبرلز میں بھی پایا جاتا ہے کہ اہل مذہب تو ہیں ہی غلط لہٰذا ہم نے ہر حال میں ان کی مخالفت کرنی ہے۔
ہمارے ہاں یہ رویہ بھی عام ہے کہ کسی شخص کی ایک یا دو کتابوں یا تحریروں کو بنیاد بنا کر نقد شروع کر دیا جاتا ہے، ہو سکتا ہے کہ متعلقہ شخص کی دوسری کتب میں اس کے اس نقطہ نظر کی وضاحت زیادہ بہتر انداز میں آ گئی ہو یا اس نے اپنی ان تحریروں سے رجوع کر لیا ہو۔ عام طور پر ناقدین کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا ہے کہ جن صاحب کی تحریر پر وہ نقد کر رہے ہیں ان کی کتنی اور کن عناوین سے تحریریں یا کتب اور تحقیقی مقالہ جات موجود ہیں اس لیے لازم ہے کہ کسی شخص پر نقد سے پہلے اس کی پیدائش، تعلیم و تدریس، کتب و مقالات اور تاریخ کا مطالعہ کیا جائے۔ جو تنقید فریق مخالف کا اصل موقف سمجھے بغیر کی گئی ہووہ سطحی تنقید کہلاتی ہے۔ نقدو تنقید اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک علمی اور داعیانہ سرگرمی ہے، یہ تب ہی مفید ثابت ہو سکتی ہے جب اس میں اصولوں کی پاسداری اور تعصب سے ہٹ کر داعیانہ اسلوب کو اپنایا گیا ہو۔ ورنہ تو نری جذباتیت اور فکری پراگندگی رہ جاتی ہے جس سے کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہو سکتا۔