پانچ مارچ 1520 کوہسپانوی بحری بیڑا کیوبا سے میکسیکو روانہ ہوا، اس بیڑے میں سپاہی، گھوڑے، ہتھیار اور افریقی غلام شامل تھے، ایک افریقی غلام فرانسسکو ڈی ایکویا کے ساتھ ایک خوفناک وائرس بھی سفر کر رہا تھا، یہ بیڑا میکسیکو کے ساحل پر اترا تو فرانسسکو کے جسم پر خوفناک دانے نکل چکے تھے، یہ چیچک کا وائرس تھا، فرانسسکوکو ایک مقامی ریڈ انڈین کے گھر ٹھہرایا گیا، یہ وائرس پہلے اس گھر کے افراد اورمحلے میں پھیلا بعد ازاں پورے علاقے میں پھیل گیا، شہر کے شہر اس بیماری کا شکار ہوگئے، ستمبر 1520 تک یہ بیماری پورے میکسیکو اور اکتوبر تک ازٹیک کے دارا لحکومت ٹینوخ ٹٹلان تک پہنچ چکی تھی، ڈھائی لاکھ لوگوں کایہ عظیم الشان شہر آنا فانا ہلا ک ہوگیا اور ہلاک ہونے والوں میں ازٹیک کا بادشاہ کوئیٹ لاواک بھی شامل تھا۔ چیچک ایک وبائی مرض تھاجس میں جسم پر دانے اورپھنسیاں نکل آتی تھیں، اس کے ساتھ سردرد، بخار اور کمر درد بھی شروع ہوجاتاتھا، یہ دانے ابتدا میں سرخ اور بعد میں سفیدی مائل ہوجاتے تھے اور ان میں پیپ پڑ جاتی تھی۔ اگر مریض زندہ بچ جاتا تو اس کی کھال پر چیچک کے دانوں کے نشانات زندگی بھر موجود رہتے تھے۔
بیسویں صدی تک تقریبا 30 سے 50 کروڑ لوگ اس بیماری سے ہلاک ہوئے۔ میکسیکو کی تباہی کے صرف دو صدیاں بعد اٹھارہ جنوری 1778 میں برطانوی مہم جو کپتان جیمز کک جزیرہ ہوائی پہنچا، ہوائی ایک خوبصورت جزیرہ تھا جو دنیا سے الگ تھلگ تنہائی میں آباد تھا، اس کی آبادی پانچ لاکھ افراد پر مشتمل تھی، جیمز کک یہاں پہنچا تو یہ جزیرہ بیماریوں کا گڑھ بن گیا، جیمز کک نے یہاں فلو اور تپ دق کے جراثیم متعارف کروائے، بعدمیں آنے والے یورپی سیاحوں نے یہاں بخار اور چیچک کے جراثیم بھی پھیلادیے، انیسویں صدی کے وسط تک پانچ لاکھ میں سے چار لاکھ تیس ہزار لوگ موت کی وادی میں جا چکے تھے۔ 1918میں دنیا کو ایک عالمگیر وبائی فلو کا سامنا کرنا پڑا، یہ بیماری اتنی خوفناک تھی کہ ہر دوسرا شخص سامنے کھڑے شخص کو متوحش نظروں سے دیکھتا تھا کہ کہیں اس کو چھینک نہ آجائے اور یہ بیماری اس میں منتقل نہ ہو جائے۔ پوری دنیا ایک انجانے خوف میں مبتلا تھی، جنگ عظیم اول جاری تھی اور شمالی فرانس میں خندقوں میں موجود ہزاروں فوجی اس وبا کا شکار ہو چکے تھے، جنگ کی وجہ سے میڈیا پر پابندیاں تھیں، اسپین جنگ کا حصہ نہیں تھا لہذا میڈیا بھی آزاد تھا اور سب سے پہلے اسپینش میڈیا نے اس وبا کی خبریں شائع کرنا شروع کیں جس کی وجہ سے اسے اسپینش فلو کا نام دیا گیا۔ یہ وبا آنا فانا دنیا بھر میں پھیل گئی، لوگ بیمارہوتے اور چند ہی گھنٹوں بعد موت کے منہ میں چلے جاتے تھے، یہ وبا 1918 سے 1920 تک رہی، صرف ہندوستان میں اس وبا سے ڈیڑھ کروڑ افراد ہلاک ہوئے، جنگ عظیم اول میں چار سے پانچ کروڑ افراد ہلاک ہوئے تھے مگر اس بیماری سے تقریبا دس کروڑ افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔
آپ ملیریا کو دیکھ لیں، ماضی میں ملیریا کو انسانی تاریخ کی سب سے ہولناک بیماری تصور کیا جاتا تھا، یہ وبا پورے پورے شہر اجاڑ کر رکھ دیتی تھی، اس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ کرہ ارض پر اب تک جتنے انسان بھی پیدا ہوئے ان میں سے کم و بیش 50 فیصد ملیریا کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔ سکندر اعظم اور چنگیز خان کے لشکروں میں بھی ملیریا نے تباہی مچائی تھی، جارج واشنگٹن، تھیوڈور روزویلٹ، ابراہام لنکن اور جان ایف کینیڈی جیسی مشہور شخصیات ملیریا کا شکار ہوئیں اور ملیریا کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں میں سکندرِ اعظم اور فرعون توتنخ آمون تک کے نام شامل ہیں۔ 1330 میں وسطی ایشیا اور چین میں پسو کے کاٹنے سے ایک وبا پھیلی جسے بلیک ڈیتھ کا نام دیا گیا، چوہوں اور حشرات الارض کے ذریعے یہ پورے یورپ، ایشیا اور شمالی افریقہ میں پھیل گئی، اس وبا سے متاثر ہونے والے افراد کو پہلے تیز بخار ہوتا تھااور پھر جسم پر کپکپی طاری ہوجاتی تھی، بدن میں شدید درد اورجلد پر پھوڑے، پھنسیاں اور گلٹیاں بننا شروع ہوجاتیں تھیں، رگیں پھول کر باہر آجاتی تھیں، جسم کا رنگ بدل جاتا تھا اور مریض سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن جاتاتھااور آخر میں ہڈیاں اور ہاتھ پاؤں کے ناخن سڑ کر سیاہ ہو جاتے تھے۔
چودہویں صدی کے اختتام تک یورپ اور ایشیا میں دس کروڑ افراد بلیک ڈیتھ کا نشانہ بنے۔ سولہویں صدی میں یہ وبا استنبول میں آئی اور چالیس فیصد آبادی کو اپنے ساتھ لے گئی، اس وبا کا شکار ہونے والوں میں سلطان سلیمان عالیشان کے وزیراعظم ایاز پاشا اور نائب امیر البحر مصطفی پاشا سمیت کئی اعلیٰ حکام بھی شامل تھے۔ انیسویں صدی کے آخر میں یہ وبا ڈائن کی شکل میں ہندوستان پر حملہ آور ہوئی اورممبئی اور کراچی کے لاکھوں لوگوں کو اپنے ساتھ لے گئی۔ اب 21 ویں صدی میں کرونا وائرس نے انسانوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے، اب تک تقریباً دو لاکھ لوگ ہلاک اور تیس لاکھ متاثر ہو چکے ہیں، 21ویں صدی کی تمام تر سائنسی و طبی ترقی کے باوجود انسانیت عاجز آ چکی ہے، دنیا کے ساڑھے سات ارب انسان انجانے خوف میں مبتلااور دنیا کے طاقتور ترین اور امیر ترین افراد سہمے سہمے نظر آ رہے ہیں، موت کو شکست دینے والی لیبارٹریاں بند پڑی ہیں، دنیا کے لاکھوں سائنسدان، ڈاکٹر اور ماہرین انگشت بدنداں ہیں، دنیا کی اکانومی تباہ ہو چکی ہے، دنیا کے مصروف ترین ایئرپورٹس بند پڑے ہیں، دنیا کی مصروف ترین شاہراہیں وال اسٹریٹ اور شانزے لیزے سنسان ہیں، پوری دنیا کی اسٹاک ایکسچیز بیٹھ چکی ہیں، شپنگ، سیاحت، ہوابازی، الیکٹرانکس اور تعمیرات جیسی اہم صنعتیں مکمل طور پرتباہ ہو چکی ہیں، کھربوں ڈالر کی سیاحت اور ہوٹلنگ انڈسٹری آخری سانسیں لے رہی ہے اور پورے زمینی سیارے اور ساڑھے سات ارب انسانوں کا سارا نظام درہم برہم ہو چکا ہے۔
یہ ماضی اور حال کی کہانی ہے، آپ ایک لمحے کے لیے فرض کر لیں کہ مستقبل میں انسانیت ان تمام وباؤں پر قابو پالیتی ہے، سائنس اور طب کے میدان میں ناقابل یقین ترقی کر لیتی ہے، کرونا اور اس جیسی دیگر بیماریوں کا علاج دریافت کر لیتی ہے، انسانی زندگی میں چالیس پچاس سال کا اضافہ کر لیتی ہے اور زمینی سیارے کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں لے لیتی ہے مگر کیا اس کے باوجود انسانیت اس قابل ہو گی کہ وہ خود کو ایسی آفات سے بچا سکے، اپنی خدائی کا اعلان کر سکے اورکسی مافوق الفطرت ہستی کے اختیار سے باہر نکل جائے۔ کرہ ارض کی تاریخ، اب تک وقو ع پذیر ہونے والے واقعات، شواہد اور نتائج کی بنیاد پر، دنیا کے تمام فلسفی، سائنسدان اور اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ انسانوں سے بڑھ کر اور اس کائنات سے ماوراء بھی کوئی ہستی موجود ہے جس کی قدرت سے یہ تمام واقعات ظہور پذیر ہوتے ہیں، جو انسانیت کی تمام تر مادی و سائنسی ترقی کے باوجود اسے عاجز اور بے بس کر دیتی ہے، جوکسی بھی لمحے اس کے فانی پن کو آشکار کر دیتی ہے اور جو ہر لمحہ کائنات میں متحرک اور بالادست ہے۔ دنیا کے تمام علوم، مذاہب، جدید سائنس اور اب تک کا سارا فلسفہ مادے سے ماوراء ایسی کسی ہستی کے وجود کے قائل ہیں، ان تمام علوم، سائنسز اور فلسفوں کے تمام استدلال اس واجب الوجود پر جا کر ختم ہو جاتے ہیں، اس نقطہ نظر کو ہم مذہب اور اس مافوق الفطرت ہستی کو ہم خدا کہتے ہیں، کرونا نے ایک بار پھر اس واجب الوجود کے وجود کو ثابت کر دیا ہے، اس نے انسانیت کو ایک اور موقعہ دیا ہے کہ وہ اس مافوق الفطرت ہستی کو اپنا رب مان لے اوراپنی خواہشات، اپنی ضد اور جہالت سے توبہ کر کے اس کے سامنے سرنڈر کر دے۔