مرحوم پچھلے ہفتے انتقال کر گئے، بڑے اچھے انسان تھے، اللہ مغفرت کرے۔ اللہ نے اسے بہت نوازا تھا، انتہائی شریف اور سلجھا ہوا انسان، کبھی کسی سے لڑائی جھگڑا نہیں کیا، کسی کو گالی نہیں دی، کسی کو برا نہیں کہا۔ محلے میں سب کا احترام کرتااور سب اس کا احترام کرتے تھے۔ کبھی کسی سے اونچی آواز میں بات کی نہیں کی، بچوں کے ساتھ بھی نرمی سے پیش آتا تھا۔ گھر میں سب کی آنکھوں کا تارا تھا، خاموش مزاج اور اپنے کام سے کام رکھنے والا۔
بڑوں کے سامنے کبھی اف تک نہیں کہا، چھوٹوں پے رعب جھاڑناتو اسے آتا ہی نہیں تھا۔ والدین کے سامنے بچھتا چلا جاتا تھا، کئی بار ابو نے سخت سست کہا لیکن اس نے آنکھیں اوپرنہیں اٹھائیں۔ امی نے بھی ایک بار غصے میں اسے خوب ڈانٹا تھا لیکن اس نے برا نہیں منایا بلکہ اگلے ہی دن امی کے پاؤں پکڑ کر معافی مانگ لی تھی۔ بڑے بھائی کے سامنے اس نے کبھی زبان نہیں کھولی، ایسا تو وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا، چھوٹے بھائیوں کو اکثر جیب خرچ وہی دیتا تھا، بہنوں کو تو اب اس جیسا بھائی مل ہی نہیں سکتا۔
چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی کرتا، پھر خود ہی مناتا اور مان جاتا۔ آفس میں اپنے سینئرز کے سامنے ہمیشہ خاموش رہتا، کبھی کہیں کو ئی غلط بات دیکھتا تو آہستہ سے انہیں سمجھا دیتا، ہمیشہ وقت پر آفس پہنچتا، کبھی لیٹ ہوا نہ کبھی چھٹی کے بعد آفس میں رکا، آفس میں بھی اپنے کام سے کام رکھتا تھا، نماز کا پابند، جیسے ہی نماز کا وقت ہوتا فوراً مسجد پہنچ جاتا۔ نماز پر تو وہ کمپرومائز کر ہی نہیں سکتا تھا، روزانہ قرآن کی تلاوت اس کا معمول تھا۔
دوستوں میں سب سے زیادہ شرارتی تھا، دوستوں کا دوست اور ہر لمحے کسی شرارت میں الجھا رہتا۔ اخلاق کا بہت اچھا تھا، کبھی اونچی آواز میں نہیں بولا، دوسروں کا ہمیشہ خیا ل رکھتا، دوسروں کے کام بھی خود کر دیتا تھا، آفس میں چائے خود بناتا، ویک اینڈ پر دوستوں کے ساتھ شام مناتا اور رات گئے گھر آتا۔ وہ زندگی کو انجوئے کرنا جانتا تھا، گھر میں ہر اتوار کوئی نئی فرمائش کر دیتا۔ رشتہ داروں کے ہاں بہت کم جاتا تھا، اپنا اکثر وقت کتابیں پڑھنے میں صرف کرتا، ا سے کتابیں بہت پسند تھیں، ہمیشہ نئی کتابوں کے بارے میں متجسس رہتا، جو بھی نئی کتاب مارکیٹ میں آتی فوراً وہاں پہنچ جاتا، اس نے گھرمیں چھوٹی سی لائبریری بنا رکھی تھی، اپنی ماہانہ تنخواہ کا دس فیصد کتابیں خریدنے پر صرف کر دیتا۔ بہت نیک انسان تھا، نماز تو کبھی چھوڑی نہیں، چوری چھپے صدقہ
خیرات بھی کرتا رہتا تھا، ، کبھی دوستوں اور ہمسایوں کی مدد بھی کردیتا تھا۔ وقت کا بہت پابند تھا، ہمیشہ وقت پر آتا جاتا، وقت پر سوتا اور وقت پر کھانا کھاتا۔ محلے کے غریب اور یتیم بچوں کا بہت خیال رکھتا تھا، چوری چپکے سے ان کی مدد کرتا رہتاتھا، اپنی سیلری کا پانچ فیصد حصہ مسجد کو دیتا تھا۔ غصہ تو اسے آتا ہی نہیں تھا، بہت میٹھی زبان تھی اس کی، بڑے چھوٹے سب کو محترم کہہ کے پکارتا تھا، ، جھوٹ سے اسے شدید نفرت تھی، جھوٹ بولنے اور دھوکا دینے والوں کو بالکل پسند نہیں کرتا تھا، غیبت اور چغلی سے اسے بہت ڈر لگتا تھااور موسیقی، فلمیں اورڈرامے دیکھنے سے تو انتہائی نفرت تھی، بڑا اچھا انسان تھا اللہ مغفرت کرے۔
یہ ساری وہ گفتگو ہے جو ہم کسی کے مرنے اور وفات پاجانے کے بعد کرتے ہیں، ہمارا کوئی عزیز، دوست یا رشتہ دار فوت ہو جائے تو ہم اچھے، نیک، رحمدل اور خوش اخلاق انسان کی تمام صفا ت اس سے منسوب کر دیتے ہیں، یہ بہت اچھی بات ہے، وفات پانے والا خواہ کیسا ہی ہو اس کے مرنے کے بعد اس کے بارے میں ہمارا رویہ بدل جاتا ہے، مرنے کے بعد ہماری نظروں میں اس کے سارے عیب چھپ جاتے ہیں، وہ نیک بھی ہو جاتا ہے، اس کے اخلاق بھی اچھے ہوجاتے ہیں، وہ نماز روزے کا پابند بھی ہو جاتا ہے، اسے معاشرت بھی آجاتی ہے، وہ صدقہ خیرات بھی کرنے لگتا ہے، اسے بڑے چھوٹوں سے بات کرنے کا سلیقہ بھی آجاتا ہے اور اسے زندگی گزارنے کا ڈھنگ بھی آجاتا ہے۔
افسوس اور دکھ مگر یہ ہے کہ اسی عزیز، دوست یا رشتہ دارکو جیتے جی ہم انسان ماننے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتے۔ دنیا کے سارے عیب اس کی ذات میں جمع ہوتے ہیں، محلے اور گھر کا ہر فرد اس سے تنگ نظر آتا ہے، بہن بھائی اس سے نالاں دکھائی دیتے ہیں، آفس کے سب لوگوں کو اس سے تکلیف ہوتی ہے، اسے زندگی گزارنے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا اور وہ ہماری نظروں میں انتہا درجے کا بد اخلاق او ر خود غرض انسان بھی ہوتا ہے۔ یہ کیا ہے، کیا یہ ثابت نہیں کرتا کہ بنیادی طور پر ہم ایک مردہ پرست قوم ہیں، ہمیں زندہ انسان اچھے نہیں لگتے، جب تک ہمارے عزیز، دوست اور رشتہ دار زندہ ہوتے ہیں ہمیں ان کے اچھے کام بھی برے دکھائی دیتے ہیں اورہماری کوشش ہوتی ہے کہ حتی الامکان اس میں کیڑے نکالے جائیں، ہم میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہوتی کہ ان کے اچھے کاموں پر ان کی تحسین کر سکیں لیکن جیسے ہی ان کی وفات ہوتی ہے ہماری ساری ہمدردیاں جاگ اٹھتی ہیں اورتب ہمیں ان کو فرشتہ ڈکلیئر کرنے میں بھی کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔
اس وقت ہماری سخاوت اور دریا دلی کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ہماری منافقت کی انتہا دیکھیں کہ ہمیں چلتے پھرتے اور زندہ انسان اچھے نہیں لگتے لیکن جب یہ چھ فٹ زمین کے اندر چلے جاتے ہیں تب ہماری ساری ہمدردیاں جاگ اٹھتی ہیں۔ اور بالفرض اگریہ لوگ قبروں سے اٹھ کردوبارہ آجائیں ہم پھر ان کے ساتھ وہی رویہ اختیار کریں۔ یہ ہمارے سماج کا مجموعی رویہ ہے جو ہماری تنگ نظری، اخلاقی پستی، تہذیبی زوال اور پست معیار زندگی کی نشاندہی کرتا ہے۔ ہمارا یہ رویہ صرف ذاتی زندگی تک محدود نہیں بلکہ ہم نے اپنے قومی ہیروز کے ساتھ بھی یہی کیا، ارفع کریم سے ڈاکٹر عبدالقدیر تک یہی داستان پھیلی ہوئی ہے، ہم جیتے جی لوگوں کی قدر نہیں کرتے اور جب وہ مر جاتے ہیں ہم ان کی قبروں پر کتبے اور مزار بنا کر انہیں پوجنا شروع کردیتے ہیں، کیا یہ ثابت نہیں کرتا کہ ہم ایک مردہ پرست قوم ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر مرنے والا واقعی اچھا انسان تھا تو ہم اس کی زندگی میں اسے یہ مقام کیوں نہیں دیتے، اس کی تعریف میں دو لفظ کہتے ہوئے ہماری زبان کیوں دکھتی ہے اور ہمارے الفاظ کیوں خاموش ہو جاتے ہیں۔ کیا یہاں نیک اور شریف ہونے کے لئے بھی مرنا ضروری ہے۔ کیا یہاں قابل قبول ہونے کے لئے مرنا ضروری ہے اور کیا سماج میں اپنا جائز مقام ڈھونڈنے کے لئے چھ فٹ زمین کے نیچے دفن ہونا ضروری ہے۔
آخر ہم کب مردہ پرستی کو چھوڑکر زندوں کی تعریف کرنا سیکھیں گے، مرنے کے بعد ہر کوئی تعریف کرتا ہے لیکن سامنے کھڑے عزیز، دوست، کولیگ یا رشتہ دار کی تعریف کرنا دل گردے کا کام ہے، یہ اصل میں بڑا پن اور بڑے ظرف کا کمال ہے۔ اگر ہم یہ نہیں کر سکتے تو مرنے کے بعد اس کا اعتراف کرنے اور منافقت دکھانے کی بھی ضرورت نہیں ہونی چاہئے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ پڑھنے کے بعد بھی ہم کسی کی جیتے جی تعریف نہیں کریں گے، کسی کی صلاحیت کا اعتراف نہیں کریں گے، کسی کولیگ کی حوصلہ افزائی نہیں کر یں گے اور کسی اپنے کے بارے کلمہ خیر نہیں کہیں گے کیونکہ یہ سب کرنے کے لئے ظرف، جرأت اور ہمت چاہئے جبکہ ہمارے خمیر میں یہ چیزیں شامل ہی نہیں۔