پیرو جنوبی امریکہ کا اہم ملک ہے، یہ چاروں طرف سے کولمبیا، ایکواڈور، برازیل، بولیویا اور چلی سے گھرا ہوا ہے۔ اس کی آبادی ساڑھے تین کروڑ اور سب سے بڑا شہر لیما ہے جو ملک کا دارالحکومت بھی ہے۔ رقبے کے لحاظ سے پیرو دنیا کا انیسواں بڑا ملک ہے، نظام حکومت صدارتی ہے مگر ہماری طرح یہ بھی سیاستدانوں کا زخم خوردہ ہے۔ سیاسی انتہا پسندی اور عدم استحکام کی وجہ سے آئے روز حکومتیں بدلتی ہیں اور یہ ملک آگے نہیں بڑھ رہا۔ یہ دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کا گہوارہ بھی ہے۔
"نورتے چیکو" تہذیب دنیا کی قدیم ترین تہذیب تھی جو ساڑھے تین ہزار قبل میسح میں اس خطے میں آباد تھی۔ ہم اس تہذیب اور دنیا کے قدیم ترین قبائل کی طرف بعد میں آئیں گے پہلے ہم پیرو کی ایک اور وجہ شہرت ایمازون پر بات کر لیتے ہیں۔ پیرو کے مشرق میں دنیا کا مشہور ترین جنگل "ایمازون" پھیلا ہوا ہے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا جنگل ہے جو جنوبی امریکہ کے بیس فیصد رقبے پر مشتمل ہے، اس کا کل رقبہ پچپن لاکھ مربع کلومیٹر ہے۔
ماہرین ارضیات کے مطابق ابھی تک اس جنگل کا صرف دس فیصد حصہ ہی دریافت کیا جا سکا ہے، ہماری زمین پر پائے جانے والے ساٹھ فیصد حشرات کا تعلق ایمازون سے ہے جن کے بارے ہمیں ابھی تک صحیح شناخت نہیں ہو سکی۔ یہاں حشرات الارض اور کیڑے مکوڑے اپنی اصلی شکل میں موجود ہیں، مکڑیاں اتنی بڑی ہیں کہ اڑتے جانوروں کو دبوچ لیتی ہیں اور حشرات ایسے زہریلے کہ انسان کو کاٹ جائیں تو انسان چند سیکنڈ میں مر جائے۔
تیس ہزار اقسام کے پھل جن کا ہمیں علم نہیں اس جنگل میں موجود ہیں۔ درخت اتنے گھنے کہ اکثر علاقوں میں سورج کی روشنی زمین تک پہنچتی ہی نہیں اور ہر لمحہ رات کا گماں ہوتا ہے۔ اس جنگل میں آج بھی دنیا کے قدیم ترین قبائل آباد ہیں، یہ چار سو قبائل ہیں جن کی آبادی پچاس لاکھ کے قریب ہے۔ یہاں دنیا کی قدیم ترین تہذیب بھی موجود ہے، لوگ پتوں کا لباس پہنتے ہیں، جنگلی جانوروں کا شکار ان کی غذا ہے اور یہ جدید انسانوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ یہ اپنی فطرت میں وحشی قبائل ہیں، یہ کسی بھی نئے انسان کو دیکھ کر ڈر جاتے ہیں اور فوراً اسے مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ستر اور اسی کی دہائی میں عیسائی مشنریز نے پروگرام بنایا کہ ان قبائل تک عیسائیت کا پیغام پہنچایا جائے۔ اس کے لیے منصوبہ بندی کی گئی، پادریوں کی تربیت کی گئی اور ہوائی جہازوں کے ذریعے انہیں جنگل میں اتار دیا گیا۔ یہ پادری پیرا شوٹ کے ذریعے اترتے تھے، قبائلیوں کے لیے یہ کوئی آسمانی آفت تھی جسے وہ دیکھتے ہی مارنے کی کوشش کرتے تھے، کئی عیسائی مبلغین اسی طرح مارے گئے مگر مشنریز نے اپنا کام نہیں چھوڑا۔ آہستہ آہستہ یہ پادری مقامی قبائل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئے، انہوں نے مقامی قبائل کی زبان سیکھی، اس کے قواعد و ضوبط مرتب کیے اور اس زبان میں بائبل کے ہزاروں نسخے چھپوا کر قبائل میں تقسیم کر دیے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے جنگل میں ریڈیو سٹیشن، ہسپتال اور تعلیمی ادارے تعمیر کیے، پریس اور ابلاغ کے ادارے قائم کیے اور یسوع مسیح کے نام سے ایک نئی دنیا آباد کر دی۔
آج ان میں سے اکثر قبائل متمدن اور عیسائیت کے پیرو کار ہیں۔ یہ اس عیسائیت کا طرز دعوت اور اپنے مشن سے سچی محبت تھی جو ہمارے نزدیک تحریف شدہ ہے۔ ہمیں اپنے سچا ہونے کا ایک سو ایک فیصد یقین ہے مگر اس کے باوجود ہماری مذہب سے محبت کتنی ہے اور ہم دعوت کے میدان میں کہاں کھڑے ہیں؟ غیر مسلموں کو دعوت ایک طرف ہم اپنی نسلوں کے ایمان کے تحفظ کے لیے کیا کر رہے ہیں، یہ بلین ڈالر کا سوال ہے اور ہم سب اس سوال کے مخاطب ہیں۔
اس سوال کے سب سے بڑے مخاطب مذہبی جماعتیں اور مذہبی ادارے ہیں، اس کے مخاطب ہزاروں دینی مدارس اور لاکھوں علماء اور عالمات ہیں۔ اس کے مخاطب ہم سب مسلمان ہیں۔ ہماری مذہبی سیاسی جماعتیں جمہوریت کی رکھوالی پر لگی ہوئی ہیں، جماعت اسلامی اپنی سنجیدگی اور وقار کھو چکی ہے اور ہزاروں دینی مدارس لکیر کے فقیر بن کر رہ گئے ہیں۔ مذہبی سیاسی جماعتوں کو چاہئے تھا کہ یہ جمہوریت کی رکھوالی کے ساتھ کچھ توجہ ان جیسے مسائل پر بھی دیتیں۔
یہ سیاست کے ساتھ مذہب کی بھی خدمت کرتیں اور دعوت کے میدان میں بھی سرگرم رہتیں۔ انہیں چاہئے تھا یہ نوجوانوں کو ملین مارچ میں اکٹھے کرنے کے ساتھ ان کے ایمان کے تحفظ کا بھی اہتمام کرتیں اور یہ سیاست کے ساتھ ذیلی سرگرمیوں کی صورت میں مذہب کی خدمت کو بھی اپنی ترجیحات میں شامل کرتیں۔ افسوس یہ کہ ایسا نہیں ہو سکا۔ اب بھی وقت ہے کہ سیاسی مذہبی جماعتیں اور ان کے قائدین تلافی مافات کا اہتمام کریں، سیاست کے ساتھ کچھ وقت
اور کچھ وسائل مذہب کی خدمت کے لیے بھی وقف کریں۔ اقتدار اور مین سٹریم میں رہتے ہوئے مذہب کی جو خدمت یہ کر سکتے ہیں دیگر افراد اور ادارے وہ نہیں کر سکتے۔ ہزاروں مدارس اور ان کے بورڈز کے مسئولین کو بھی چاہئے کہ حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے لکیر کے فقیر بننے کے بجائے انقلابی اقدامات کریں، مدارس سے فارغ ہونے والے طلبا کو اس قابل بنائیں کہ ایک طرف ان کے کندھوں پر روزگارکے مسائل کا بوجھ نہ ہو اور دوسری طرف وہ اپنے وقت کی زبان اور محاورے سے آشنا ہوں۔
وہ دعوت دین کے لیے قومی و بین الاقوامی قوانین سے آگاہ ہوں، وہ مخاطب اور سماج کی نفسیات کو سمجھتے ہوں۔ اس کے لیے نصاب و نظام میں اگر مناسب تبدیلی کرنا پڑے تو اس سے بھی گریز نہ کیا جائے۔ ورنہ یہاں صورتحال یہ ہے کہ اخلاص کو بنیاد بنا کر صدیوں پرانے نصاب و نظام پر اصرار کیا جا رہا ہے۔ اخلاص اپنی جگہ مگر وقت کے تقاضوں کا ادراک، سماج کی نفسیات سے آگاہی اور مناسب منصوبہ بندی کے بغیر مذہب کی کوئی خدمت نہیں کی جا سکتی۔
ہمارے ہاں اخلاص کا جو مفہوم سمجھ لیا گیا ہے وہ ایسے ہی ہے جیسے ایک شخص نے بڑے شوق سے گدھا پالا، ایک دن مالک گدھے پر سوار ہونے لگا تو گدھے نے اسے زمین پر پٹخ دیا۔ مالک کو کافی چوٹیں آئیں، گدھا یہ دیکھ کر سنجیدہ ہو گیا۔ گدھے نے مالک کو دوبارہ پیٹھ پر سوار کیا اور ہسپتال کی طرف روانہ ہو گیا۔ شام کو مالک واپس آیا تو لوگ حال چال پوچھنے اور مبارکباد دینے آئے کہ تمہارا گدھا کتنا سمجھدار ہے، تم تو بہت خوش نصیب ہو۔
مالک نے زچ ہو کر کہا کہ ہاں گدھا تو کافی سمجھدار اور اچھا ہے مگر وہ مجھے جہاں لے کر گیا وہ جانوروں کا ہسپتال تھا۔ اس لیے کسی بھی کام میں کامیابی کے لیے محض اخلاص کافی نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ گہرا ادراک، عقل اور منصوبہ بندی بھی ضروری ہوتی ہے۔ مدارس کے فارغ التحصیل لاکھوں علما و عالمات کی بھی ذمہ داری ہے کہ اپنے ذاتی مشاغل کے ساتھ کچھ وقت خدمت دین کے لیے بھی وقف کیا کریں، نسل نو کی دینی تعلیم اور ان کے ایمان کی فکر کو بھی اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔
کبھی وقت تھا کہ حکومتیں خود مذہب کی محافظ ہوا کرتی تھیں، دینی تعلیم اور سماجی کی دینی ضروریات کی تکمیل ان کی بنیادی ترجیح ہوا کرتی تھی لیکن اب یہ صورتحال بدل چکی ہے۔ حکومتیں بیرونی دباؤ سے مجبور ہیں، حکمرانوں میں احساس ہے نہ سنجیدگی اور سماج کے باقی طبقات مغربی تہذیب کے سامنے سرنگوں ہو چکے ہیں۔ اب یہ پتھر مجھے آپ اور ہر اس مسلمان کو اٹھانا ہے جو اپنے نبیؐ کے دین سے محبت رکھتا ہے، جو انسانیت کا خیر خواہ ہے اور جسے روز آخرت اللہ اور رسول اللہﷺ کے سامنے پیش ہونے کا یقین ہے۔