ایک سوال کا جواب حضرت آدم علیہ السلام دے گئے تھے او ر دوسرے سوال کا جواب آج اٹھاون اسلامی ممالک اور من حیث الامہ ہم خود ہیں۔ آدم علیہ السلام کو علم عطا کر کے اللہ نے بتا دیا تھاکہ شرف اور فضیلت کی بنیاد علم ہے جبکہ آج علم میں پیچھے رہنے کی وجہ سے ہم ساری دنیا میں مذاق بن کر رہ گئے ہیں۔ ابتدائے آفرینش سے آج تک انسان مختلف واسطوں سے علم سیکھتا آیا ہے، معلوم انسانی تاریخ میں انہوں قوموں اور تہذیبوں نے حکمرانی کی جو علوم و فنون کے میدا ن میں آگے تھیں، بذات خود اسلامی تہذیب نے صدیوں تک دنیا پر راج کیا تو اس کی بنیادی وجہ صرف "اقراء" کا سبق تھا۔ اپنے زمانہ عروج سے گزرنے کے بعد جب اس تہذیب نے علوم وفنون سے بے اعتنائی برتی تو جمود کا دور آیا۔
قرون وسطیٰ کا عیسائی یورپ جوظلمت و جہالت کا گڑھ تھا اسلامی علوم وفنون کی ہوا لگنے سے ہم سے صدیوں آگے نکل گیا۔ آج اہل یور پ علم و فن، سائنس وٹیکنالوجی اور تہذیب و تمدن کے جس مقام پر کھڑے ہیں اس کی بنیادیں اور سرچشمے اسلامی تہذیب سے پھوٹتے ہیں۔ علم و فن کی کوئی کتاب ایسی نہیں تھی جو قرون وسطیٰ میں عربی سے یورپی زبانوں میں ٹرانسلیٹ نہ ہوئی ہو۔ یورپ میں باقاعدہ ادارے قائم کیے گئے جن کا مقصد عربی علوم اور عربی کتب کو یورپی زبانوں میں ٹرانسلیٹ کرنا تھا۔ بادشاہوں نے اپنے درباروں میں ایسے افراد کو رہائشیں مہیا کیں اور انہیں بھارے معاوضے اور لالچ دے کر اس خزانے کو یورپ منتقل کیا۔ اسلامی تہذیب نے یورپ اور مغربی تہذیب پر جو اثرات مرتب کئے آج بھی کھلی آنکھوں سے ان کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے، یورپ کی ترقی اور تہذیب و تمدن کے عروج میں آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی اہم ترین عوامل ہیں اور یہ دونوں یونیورسٹیاں بذات خود اسلامی تہذیب کی خوشہ چین ہیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی پہلے ایک کالج تھا اور یہ عربی کے لفظ "کلیہ" کی بگڑی ہوئی شکل تھی، ان دونوں یونیورسٹیوں کی ابتدائی عمارات عربی طرز تعمیر کی چغلی کھاتی ہیں۔ یورپ تو براہ راست اسلامی تہذیب سے متاثر ہوا جبکہ دنیا کے دیگر تین براعظم جن میں آسٹریلیا، شمالی امریکہ اور جنوبی امریکہ شامل ہیں انہیں آباد کرنے والے باشندے بھی یورپی تھی لہٰذا ان یورپی باشندوں کے واسطے سے اسلامی تہذیب کے اثرات ان بر اعظموں تک پہنچے۔ جرمنی کے مشہور دانشور شپرجس نے تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ باررھویں اور تیرھویں صدی میں یورپ کے یہ کالج اور یونیورسٹیاں طلیطلہ کے راستے عربوں کی تقلید میں بنائی گئیں تھیں اور یورپ کی تحریک احیا اور نشاۃ ثانیہ کی تحریک مکمل طور پر اسلامی علوم کی یورپ منتقلی کے بعد منظر عام پر آئی تھی۔
مشہور مستشرق گستاؤ لیبان لکھتا ہے:"اندلس، سسلی اور اٹلی کے ذریعے یورپ علم سے متعارف ہوا، اندلس کے شہر طلیطلہ میں ترجمے کے لیے 1120 میں ایک مدرسہ قائم کیا گیا جس میں مسلمانوں کی مشہور تصانیف کا ترجمہ کیا جانے لگا، اس وقت صرف مسلمان مفکرین کی کتب کا ہی ترجمہ نہیں ہوا بلکہ یونان کی ان کتب کا بھی ترجمہ کیا گیا جنہیں عربوں نے اپنی زبان میں منتقل کر لیا تھا۔ عربوں نے قدیم یونانی سرمائے کی حفاظت کر کے مغرب پر عظیم احسان کیا۔"مغرب کی یونیورسٹیاں پانچ صدیوں تک عربی تصانیف کے سوا کسی اور علمی ذخیرے سے متعارف نہیں تھیں۔ یہی عرب ہیں جنہوں نے یورپ کو مادی، عقلی اور اخلاقی طور پر آراستہ کیا۔ جغرافیہ کی اکثر اصطلاحات عرب سیاحوں نے وضع کیں، انہوں نے اصطلاحات کے ساتھ بہت سی جغرافیائی معلومات میں بھی اضافہ کیا، اسی طرح علم ریاضی میں بھی واضح طور پر اسلامی ثقافت کے اثرات پائے جاتے ہیں۔
اہل یورپ عربوں کے شاندار علوم اور تابدار تہذیب سے اس حد تک متاثر ہوئے تھے کہ عربی بولنے اور لکھنے پر فخر محسوس کرتے تھے، سسلی کے فرمانروا ولیم دوم اور فریڈرک دوم عربی کے عالم تھے، ولیم عموماً عربی میں گفتگوکیا کرتا تھا اور فریڈرک نے اپنی سلطنت میں ایسے مدارس کھول دیے تھے جہاں عربی لازمی تھی۔ ولیم کے ہمراہ یہودیوں کی ایک خاصی تعداد فرانس سے برطانیہ میں پہنچی تھی۔ یہ لوگ عربی کے عالم تھے، انہوں نے انگلینڈ میں عربی مدارس کھولے، آکسفورڈ میں بھی ایک شعبہ قائم کیا گیاجہاں دوسو سال بعد راجر بیکن بحیثیت طالب علم داخل ہوا تھا، راجر بیکن بعد میں آکسفورڈ یونیورسٹی کا پروفیسر مقرر ہوا، یہ اپنے طلبہ سے کہا کرتا تھا کہ حقیقی علم حاصل کرنے کا واحد ذریعہ عربی زبان ہے۔ ابراہیم بن عذرا طلیطلہ کا ایک یہودی تھا جو 1158ء میں لندن پہنچا اور برسوں وہاں عربی میں درس دیتا رہا۔ جرمنی کا عظیم القدر فلسفی البرتوس میگنوس اور اٹلی کا فلسفی پادری تھامس ایکوائناس عربی مدارس کے فارغ التحصیل تھے، دونوں نے فلسفے پر کتابیں لکھیں اور فارابی، سینا اور الکندی کے دلائل کو بعینہ لے لیا، یہ ابن سینا ہی تھا جس نے یورپ کے پادریوں کو ہیئت و فلسفہ اور طب دی یعنی اس نے پادریوں کوبھی متاثر کیا اور گلیلیو جیسے ہیئت دان بھی پیدا کیے۔
1473ء میں فرانس کے بادشاہ لوئیس یاز دہم نے حکم دیا کہ فرانس کے تمام مدارس میں ابن رشد کی فلسفیانہ کتابیں پڑھائی جائیں، اٹلی کی پڈوا یونیورسٹی میں بھی اس کا فلسفہ شامل نصاب تھا۔ اسپین میں ریمنڈ نام کے دو عالم تھے، ایک نے اسلامی علوم کی ایک درسگاہ قائم کی تھی، یہ عربی بولتا اور لکھتا تھا، اس نے ایک کتاب عربی میں اسمائے الٰہیہ پر لکھی تھی۔ دوسرا ریمنڈ مارٹن جو طلیطلہ کے اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز کا تعلیم یافتہ تھا، یہ قرآن، حدیث، فقہ، فلسفہ وغیرہ کا فاضل تھا، اس نے امام غزالی کی کتاب تہافۃ الفلاسفہ کا خلاصہ اپنی کتاب میں پیش کیا۔ ہسپانوی خلیفہ الحکم دوم کے زمانے میں بشپ گوبمار نے عربی زبان میں تاریخ یورپ لکھی اور پادری ہیرب نے ایک عربی تقویم کا ترجمہ کیا، ان دونوں نے اپنی کتابیں خلیفہ الحکم کے نام منسوب کی تھیں۔ اسپین کا بادشاہ الفونسو دہم عربی علوم کا بڑا سرپرست تھا، یہ خود بھی مصنف تھااور اس نے حضورﷺ کی سوانح حیات لکھی، اس نے ہسپانوی شاعری کا ایک مجموعہ تیار کرایا جو اسکوریال کے کتب خانے میں موجود ہے۔
فریڈرک دوم نے نیپلز میں ایک یونیورسٹی بنائی تھی جس میں ابن رشد کا فلسفہ اور ارسطوکے عربی تراجم بطور نصاب پڑھائے جاتے تھے۔ ایک ادارہ طلیطلہ کے بشپ ریمنڈ نے قائم کیاتھا، اس نے اس ادارے میں عربی و لاطینی کے بڑے بڑے عالم جمع کیے، ان کا کام تدریس کے علاوہ مختلف عربی کتب کا ترجمہ کرنا تھا، یہ ادارہ تین صدیوں تک قائم رہا، ان ادارے نے ابن رشد، رازی، ابن سینا کے علاوہ ارسطو، بقراط، جالینوس، اقلیدس، ارشمیدس اور بطلیموس کے عربی ترا جم لاطینی میں منتقل کیے۔ ان تراجم کی تعداد تین سو سے زیادہ تھی۔ پرتگال کے پرنس ہنری نے ایک بحری اکیڈمی قائم کی تھی جس میں تدریس و تربیت کے لیے عرب اور یہودی علماء مقرر کیئے تھے، اسی درس گاہ سے واسکوڈے گاما نے تعلیم حاصل کی تھی جو پرتگال سے چل کر ہندوستان میں پہنچا تھا اور یورپ سے ہندوستان کا نیا راستہ دریافت کیا، یورپ میں پندرہویں صدی تک کوئی صاحب علم اور مصنف ایسا نہیں تھا جس نے عربی کتب سے استفادہ نہ کیا ہو۔ یہ تھے ہمارے آباء اور یہ تھا ہمارا ماضی، علامہ اقبال قرطبہ کے در ودیوار کے ساتھ لگ کر ویسے ہی نہیں رو دیے تھے، ان کا رونا بنتا تھا، جب امت اجتماعی غفلت کا شکار ہو جائے تو بیدار مغز اذہان کو رونا ہی پڑتا ہے۔