Monday, 25 November 2024
  1. Home/
  2. Muhammad Izhar Ul Haq/
  3. Khanabadosh

Khanabadosh

پانی پت کی پہلی لڑائی جب ہوئی ہے تو میں ابراہیم لودھی کے ساتھ تھا۔ میں پیدائشی خانہ بدوش!!میرا کل سرمایہ ایک کھوتا جس پر چیتھڑوں سے بنا ہوا خیمہ لادتا تھا اور ایک کتا جو ہمیشہ میرے اور میرے کھوتے کے پیچھے پیچھے چلتا تھا! یہ 1526ء تھا۔ ابراہیم لودھی کے ساتھ میرا عہد یہ تھا کہ حضور!یہ جان جسم سے نکل جائے گی مگر وفا کے دامن پر داغ نہیں لگے گا!تاہم جیسے ہی میں نے محسوس کیا کہ مغل حملہ آوروں کی توپوں کے سامنے لودھی کے ہاتھیوں کا کھڑا ہونا مشکل ہے، میں نے خیمہ اکھاڑا، کھوتے پر لادا اور لودھی کی لشکر گاہ سے نکلنے کی ٹھانی۔

اب یہاں یہ مصیبت آن پڑی کہ کھوتا اور کتا دونوں اَڑ گئے۔ کہنے لگے مالک! ہمارا مشورہ یہ ہے کہ پیمانِ وفا نبھائو اور لودھی سے دغا نہ کرو! دونوں کو میں نے سمجھایا کہ زمینی حقائق کو دیکھنا پڑتا ہے مرتے کیا نہ کرتے، دونوں ساتھ چل پڑے۔ بہر طور کھوتے کو میں نے کتے سے یہ کہتے سنا کہ بھائی کتے! یہ انسان بھی کیا چیز ہے! دغا بازی اس کی سرشت میں ہے! ہمیشہ مفتوح کی پیٹھ میں خنجر بھونکتا ہے اور فاتح کے قدموں میں جا گرتا ہے! ہمایوں تخت نشین ہوا تو وراثت میں سلطنت کے ساتھ میں بھی اسے ورثے میں ملا۔ پھر شیر شاہ سوری کا سورج بلند ہونے لگا۔ جس دن دونوں میں فیصلہ کن جنگ ہونی تھی اس سے ایک دن پہلے رات کے اندھیرے میں شیر شاہ سوری کے کیمپ میں گیا اور شیر شاہ سے ملاقات کی! دوسرے دن جیسے یہ لڑائی کا پانسا پلٹا میں نے کھوتے پر خیمہ لادا، کتے کو لیا اور شیر شاہ سوری کے پاس آ گیا۔

شیر شاہ سوری کے وارث کمزور ہونے لگے اتنے میں خبر پھیلی کہ ہمایوں نے ایران سے واپس آ کر کابل پر قبضہ کر لیا ہے۔ میں نے فوراً کتے کے ہاتھ وفاداری کا پیغام بھیجا۔ کتے نے کافی چوں چرا کی اور پھر ایک لیکچر وفاداری کے فوائد پر دیا مگر میں نے اسے ڈانٹ کر کابل روانہ کر دیا۔ ہمایوں جیسے ہی دریائے سندھ عبور کر کے پنجاب میں داخل ہوا میں سامنے استقبال کے لیے کھڑا تھا۔ پھر بیرم خان اکبر کا سرپرست بنا۔ پانی پت ہی کے میدان میں دوسری جنگ ہوئی۔ ہیمو بقال کو میں نے احتیاطاً ایک خفیہ پیغام بھیج رکھا تھا مگر نوبت نہ آئی۔ اس کے بعد اکبر کا سورج روشن ہی رہا۔ میں اس سے وابستہ رہا۔ شاہ جہان کے بیٹوں میں دارا شکوہ کی تخت نشینی کے آثار نمایاں تھے۔

بادشاہ کا جھکائو بھی اسی کی طرف تھا میں نے اپنی دوربین نگاہوں سے دیکھ لیا تھا کہ دارا بادشاہ بنے گا یا اورنگ زیب! یہی سیاست دان کا وصف ہے کہ وہ چڑھتے سورج کو چڑھنے سے پہلے پہچان لیتا ہے۔ اسی لیے میں نے مراد اور شجاع کو کبھی اہمیت نہ دی۔ اور دارا سے وابستہ رہا۔ پھر جب دیکھا کہ اورنگ زیب کا پلہ بھاری ہو رہا ہے تو ایک بار پھر خیمہ اکھاڑا، کھوتے پر لادا، کتے کو ساتھ لیا اور اورنگزیب کے حضور حاضر ہو گیا۔ گزشتہ غلطیوں کی معافی مانگی اور تاحیات وفاداری کا حلف اٹھایا۔ میں نے نوٹ کیا کہ کھوتا اور کتا مسلسل سرگوشیوں میں گفتگو کر رہے تھے! رنجیت سنگھ کا بول بالا ہوا تو میں تخت لاہور سے وابستہ ہوگیا۔ مگر میرے وژن نے خبردار کر دیا تھا کہ رنجیت سنگھ کے بعد پنجاب انگریزوں کے قبضے میں ہو گا۔ چنانچہ اس کی زندگی ہی میں میں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ خفیہ روابط کی ابتدا کر دی تھی! خود رنجیت سنگھ نے پیش گوئی کی تھی کہ انگریز بہادر پورے برصغیر پر چھا جائے گا۔

1857ء کی جنگ آزادی چھڑی تو میں نے ہر جگہ انگریزوں کی مدد کی ان کی میموں اور بچوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔ انگریز غالب آ گئے۔ مجاہدین کو پھانسیاں ہوئیں۔ مجھے جاگیر ملی۔ شمار طبقہ اشرافیہ میں ہونے لگا۔ عید کے دن میں بھی شملے والی پگ پہن کر، اچکن زیب تن کر کے انگریز ڈی سی کی کوٹھی کے لان میں دوسرے اشراف کے ساتھ کھڑا ہوتا تھا۔ جیسے ہی چپڑاسی اندر سے آ کر اعلان کرتا کہ صاحب نے عید مبارک قبول کر لی ہے تو ہم سب اشراف ایک دوسرے سے گلے ملتے! کھوتا اور کتا ہمیشہ میرے ساتھ ہی رہے۔ سچی بات یہ ہے کہ انگریزی دور میں استحکام نصیب ہوا۔ خانہ بدوشی کو آرام رہا۔

یونینسٹ پارٹی انگریزوں کی وفادار تھی میں بھی اس میں شامل ہوگیا۔ پھر زمانے نے پلٹا کھایا۔ انگریزوں کے چل چلائو کے آثار ظاہر ہونے لگے!میں نے یونینسٹوں کو خدا حافظ کہا اور جناح صاحب کی مسلم لیگ میں شامل ہو گیا۔ پنجاب میں ممدوٹ اور دولتانہ کے کیمپ الگ الگ ہوئے تو میں نے دونوں سے راہ و رسم رکھی! ایوب خان نے اقتدار سنبھالا تومیں ہی تھا جس نے سیاست دانوں کے خلاف ایک طویل چارج شیٹ تیار کی اور ایوب خان کے حوالے کی! یہ تجویز بھی میں ہی نے دی تھی کہ اسے امیر المومنین کہا جائے! مگر تجویز اپنی موت آپ مر گئی۔ تاہم ایوب خان مجھ پر اعتماد کرتا تھا! پھر پاکستان کے افق پر ذوالفقار علی بھٹو نمودار ہوا۔ میں نے اس کا گہرا مطالعہ شروع کیا۔

پیپلز پارٹی کی بنیاد پڑی تو میں اس میں شامل ہو گیا۔ ایک خفیف سا امکان تھوڑی دیر کے لیے پیدا ہوا کہ مجیب الرحمن وزیر اعظم بنے گا۔ میں نے اُسے تحائف بھیجے۔ تاہم ملک دو لخت ہوگیا۔ میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزیر بن گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے تختہ الٹا تو میں اسی رات ایک جاننے والے کی سفارش لے کر اس کی خدمت میں حاضر ہوا اور پیپلز پارٹی کے "خطرناک" ارکان کی فہرست اسے دی! شوریٰ کا تصور بھی بنیادی طور پر میرا ہی تھا۔ پھر آموں والا جہاز کریش ہوا۔ بینظیر بھٹو حکمران بن گئیں۔ میں نے خیمہ اکھاڑا۔ کھوتے پر لادا کتا ساتھ لیا اور پیپلز پارٹی کی طرف چل پڑا۔ کھوتے اور کتے نے پھر بکواس شروع کر دی۔ میں نے ڈانٹ پلائی اور کھوتے کے پتر اور کتے کے بچے کو سمجھایا کہ زمینی حقائق تبدیل ہو گئے ہیں! انسان کی نگاہ دور رس جہاں دیکھ سکتی ہے وہاں صابر کھوتا اور وفادار کتا نہیں دیکھ سکتے۔ یہ الگ بات کہ کھوتا اور کتا ہر وقت خدا کا شکر ادا کرتے کہ انہیں انسان نہیں بنایا!

1988ء اور 1999ء کے درمیان کبھی پیپلز پارٹی کی حکومت آئی کبھی مسلم لیگ نون کی! ان گیارہ سالوں میں میں نے چار بار پارٹیاں بدلیں۔ چار بار خیمہ اکھاڑا اور کھوتے پر لادا۔ کتا تنگ آ گیا مگر وفادار تھا۔ مسلسل خانہ بدوشی کے باوجود ساتھ نہ چھوڑا۔ میاں صاحب نے فضا میں جنرل پرویز مشرف کا تختہ الٹا تو فوج نے زمین پر میاں صاحب کا بستر لپیٹ دیا۔ میں اس وقت مسلم لیگ نون کا رکن تھا۔ فوراً پرویز مشرف سے رابطہ ڈھونڈا۔ کامیاب ہوا۔ پیپلز پارٹی کے "پیٹریاٹ" کا تصور اسے میں نے ہی دیا۔ نیب کا آئیڈیا بھی میرا تھا۔ میں نے ہی سمجھایا کہ سیاست دانوں کی فائلیں تیار کرائو دکھائو اور اپنے ساتھ ملائو! 2008ء میں پیپلز پارٹی نے وفاق میں اور نون لیگ نے پنجاب میں حکومت سنبھالی۔ میں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ مگر راتوں کو لاہور جاتا اور نون کی قیادت سے ملتا۔ انہیں پیپلز پارٹی کے راز پہنچاتا۔ واپس وفاقی دارالحکومت میں آتا تو زرداری صاحب کو نون لیگ کے عزائم سے خبردار کرتا! ابن الوقتی میں ایسا کمال حاصل کیا کہ سلمان فاروقی جیسے اس میدان کے شاطر بھی رشک کرنے لگے!

2013ء میں مسلم لیگ نون جیت گئی میں نے خیمہ اکھاڑا۔ کھوتے پر لادا اورجاتی امرا حاضر ہو گیا۔ میاں صاحب ناراض تھے۔ مگر میں نے مستقل مزاجی کا مظاہرہ کیا۔ محل کے دروازے پر خیمہ نصب کیا صدقے کے بکرے ذبح کیے۔ سری پائے حلیم اور ہریسہ کی دیگوں کے انبار لگا دیے۔ میاں صاحب انسان تھے، خوشامدکی کب تک مدافعت کرتے۔ نون لیگ میں شامل کر لیا۔ چند ماہ پہلے مجھے احساس ہوا کہ نون لیگ تو کرپٹ ہے۔ میاں صاحب کی جائیداد ملک سے باہر ہے! پارٹی پر خاندانی تسلط ہے۔ ملک کا مستقبل مجھے عمران خان کے ہاتھوں میں محفوظ دکھائی دیا۔ خیمہ اکھا ڑہا تھا کہ کھوتا اورکتا دونوں آ گئے۔ کھوتا کہنے لگا، مالک! میاں صاحب کی بیرون ملک جائیداد اور پارٹی پر ان کا خاندانی تسلط آپ کو گزشتہ پانچ سال کیوں نہ دکھائی دیا! یہ سب کچھ آپ کو اس وقت کیوں نظر آنے لگا جب عمران خان کا کیمپ طاقت پکڑ رہا ہے! کتا بھونکا اور کہنے لگا! یہ وقت میاں صاحب کا ساتھ دینے کا ہے! آپ نے ان کے عہد اقتدار میں فوائد سمیٹے۔ اب ان پر بُرا وقت آن پڑا ہے تو بے وفائی کا ارتکاب مت کیجیے۔ ورنہ تاریخ آپ کا نام دانیال عزیز، ماروی میمن، مشاہد حسین اور زاہد حامد قسم کے مرغانِ بادنما کے ساتھ لے گی۔

میں نے کھوتے اور کتے دونوں کو چمکارا اور زمینی حقائق کا نیا رُخ دکھایا۔ دونوں سر جھکا کرکھڑے ہو گئے۔ میں نے خیمہ کھوتے پر لادا۔ کتے کو ساتھ لیا اور اب تحریک انصاف کی طرف گامزن ہوں۔ سنا ہے عمران خان نے خانہ بدوشوں کے لیے دروازے کھول دیے ہیں! اگر انتخابات کے بعد اسے حکومت مل جاتی ہے تو میری پانچوں گھی میں ہیں! نہ ملی تو کوئی غم نہیں! خیمہ ہی تو اکھاڑنا پڑے گا اور بے وقوف کھوتے اور ضدی کتے کو نئے زمینی حقائق پر ایک لیکچر ہی تو دینا ہو گا۔

About Muhammad Izhar Ul Haq

Muhammad Izhar ul Haq, is a columnist and a renowned poet of Urdu language, in Pakistan. He has received international recognition for his contribution to Urdu literature, and has been awarded Pakistan’s highest civil award Pride of performance in 2008. He has published four books of Urdu poetry and writes weekly column in Daily Dunya.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran