Monday, 25 November 2024
  1. Home/
  2. Muhammad Izhar Ul Haq/
  3. Wapis Ajao Talagang Walo, Tumhain Kuch Nahi Kaha Jae Ga

Wapis Ajao Talagang Walo, Tumhain Kuch Nahi Kaha Jae Ga

سامنے دریا تھا!تھکے ہارے اکبر کو سستانے کے لیے تھوڑا سا وقت ملا۔"کون سی غذا ہے جو ایک نوالے میں مکمل ہو جاتی ہے؟ "اس نے خانخاناں سے پوچھا۔"انڈا! جہاں پناہ!"خانخاناں نے جواب دیا۔ بس اتنا ہی وقت تھا۔ پھر گرد تھی اور گھوڑا۔ اور لشکر اور جنگیں! سال گزر گیا یا اس سے بھی زیادہ عرصہ! سفر کی گردشیں بادشاہ کو ایک بار پھر اٹک لے آئیں۔ وہیں دریائے سندھ کے کنارے! خانخاناں ساتھ تھا۔ بادشاہ نے کسی تمہید، کسی یاددہانی، کسی حوالے کے بغیر پوچھا۔"کس طرح؟ ""اُبال کر!جہاں پناہ!!"نہ جانے یہ روایت درست ہے یا نہیں!مگر یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ کابل آتے جاتے اکبر اٹک ٹھہرتا۔ پھر مقامی شورشوں کو دبانے کے لیے اور افغانوں کو کنٹرول کرنے کے لیے اس نے یہاں قلعہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔ اٹک کا قلعہ 1581ء میں بننا شروع ہوا۔ تقریباً تین برس لگے۔ راولپنڈی کی طرف سے جائیں تو قلعے سے پہلے، بائیں طرف، مُلاّ منصور کی بستی ہے۔ ہمارے دوست پروفیسر ڈاکٹر نصیر احمد کا تعلق اس بستی سے ہے۔ نصیر صاحب عراق میں پڑھاتے رہے۔ پھر قائد اعظم یونیورسٹی میں بزنس ایڈمنسٹریشن کے سربراہِ شعبہ رہے۔ ان کی آبائی زمینیں اٹک قلعہ میں آئیں۔ اب تاریخ اتنی تفصیل نہیں بتاتی کہ اُس وقت، زمین کے مالکوں کو زرِتلافی کس حساب سے ملتا تھا۔ آج کل تو اکثر لوگ خوار اور شاکی ہی دیکھے گئے ہیں!مغل سلطنت کا شیرازہ بکھرا تو جنوبی ہند سے مرہٹے اُٹھے اور شمال پر چھا گئے۔ اٹک ہی کے مقام پر 1758ء میں مرہٹوں کی جنگ درانیوں سے ہوئی۔ فتح پا کر مرہٹوں نے اٹک خورد پر اور قلعے پر قبضہ کر لیا۔ 1908ء میں اٹک خورد کے قریب انگریزوں نے نیا شہر بسایا اور جنرل کیمپ بیل(Campbell)کے نام پر شہر کا نام کیمپ بیل پور رکھا۔ یہ جرنیل1857ء کی جنگ آزادی کے دوران استعمار کی فوج کا کمانڈر ان چیف تھا۔ آزادی کے مجاہد تانتیا ٹوپے کو اسی نے شکست دی تھی۔ کیمپ بیل پور، امتدادِ زمانہ سے کیمبل پور ہو گیا۔ اس زمانے میں مقامی لوگ اسے کامل پور بھی کہتے تھے۔ 1978ء میں نام بدل کر اٹک رکھ دیا گیا۔ ضلع کیمبل پور(اٹک) 1904ء میں وجود میں آیا۔ اس کی چار تحصیلیں تھیں۔ جہلم کے ضلع سے تلہ گنگ تحصیل لی گئی اور راولپنڈی کے ضلع سے فتح جنگ، پنڈی گھیب اور اٹک کی تحصیلیں لے کر نیا ضلع بنایا گیا۔ 1904ء سے لے کر 1985ء تک تلہ گنگ ضلع اٹک کا حصہ رہا۔ ثقافت، زبان اور کئی دیگر اعتبار سے یہ ضلع کے باقی علاقوں کے ساتھ پورا ہم آہنگ تھا۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے دوران اٹک کے ضلع نے، جو مارشل (عسکری) ایریا کا دِل تھا، فوج میں بہترین جوان بھیجے۔ خطہ گیتوں سے چھلکنے لگا۔ ماہیا فتح جنگے دیا! تلہ گنگے دی بولی بول!گیتوں میں ریل گاڑی سے بہت شکوے ہوئے کہ مائوں کے بچوں کو بٹھا کر دور دیسوں میں لے جاتی ہے!تلہ گنگ اور میانوالی کے درمیانی علاقے کو، جو اٹک ضلع کا حصہ تھا، اعوان کاری کہتے ہیں۔ یہاں لوک کہانیاں محاورے، بجھارتیں، دعائیں، گالیاں، لطیفے، طعنے، کوسنے، کھانے پینے کے رواج، لباس کی روایت، سب پنڈی گھیب اور فتح جنگ سے ملتی جلتی ہے۔ فتح جنگ اور تلہ گنگ، جغرافیائی فاصلے کے باوجود ہمیشہ جڑواں قصبے ہی سمجھے گئے۔ خواندگی کی شرح تلہ گنگ اور پنڈی گھیب کی تحصیلوں میں ہمیشہ زیادہ رہی۔ پنڈی گھیب میں خواتین شروع ہی سے اعلیٰ تعلیم یافتہ رہیں۔ ایک کثیر تعداد وہاں کی خواتین کی پنجاب کے کالجوں میں پڑھاتی رہی اور اب بھی یہی صورت حال ہے۔ تلہ گنگ کے علاقے میں حفاظ تاریخی اعتبار سے ہمیشہ زیادہ رہے۔ وہ بھی زمانہ تھا کہ خواتین، کنوئوں سے ڈول کھینچتے ہوئے اور پانی بھرتے ہوئے، قرآن پاک کی تلاوت کرتی رہتیں۔ روایت ہے کہ شہنشاہ اورنگزیب کا اس علاقے سے گزر ہوا تو اسے بتایا گیا کہ یہاں ایک گائوں میں ہر مردوزن، بچہ بوڑھا قرآن پاک کا حافظ ہے۔ اس نے سب کوبلا کر امتحان لیا اور کامیاب پایا۔ موٹر وے بننے سے پہلے، اہل تلہ گنگ کا راستہ فتح جنگ ہی سے گزرتا تھا۔ راولپنڈی اسلام آباد سے براستہ فتح جنگ، یہ لوگ اٹک آئل کمپنی کھوڑ سے ہوتے، ڈُھلیاں موڑ جاتے۔ وہاں سے بائیں طرف مُڑ کر اُس شاہراہ پر ہو لیتے جو تلہ گنگ جاتی۔ اس مشترک راستے نے ثقافتی، تہذیبی اور لسانی اعتبار سے تلہ گنگ کو اپنے ضلع اٹک کے لوگوں کے ساتھ مزید ہم آہنگ کر دیا تھا۔ مکھڑی حلوہ بھی فتح جنگ، پنڈی گھیب اور تلہ گنگ کے درمیان ایک قدر مشترک تھی اور ایسی قدر مشترک جو میٹھی بھی تھی!تلہ گنگ کے عوام اور خواص کو اپنے شہر اور اپنی تحصیل کی اہمیت کا احساس ہمیشہ سے تھا! تلہ گنگ صرف شہر نہیں، ایک صد راہا یعنی بہت بڑا جنکشن بھی تھا۔ میانوالی سرگودھا اور کراچی جانے والی ٹرانسپورٹ یہیں سے ہو کر گزرتی تھی۔ چنانچہ انہوں نے تحریک کا آغاز کیا کہ تلہ گنگ کو ضلع بنایا جائے۔ مطالبہ منطقی طور پر درست تھا۔ جغرافیائی محل وقوع تلہ گنگ کا اسی بات کا متقاضی تھا۔ چکوال اور پنڈی گھیب اس ضلع کی تحصیلیں بن سکتی تھیں۔ مگر 1985ء میں تلہ گنگ کے لوگوں کو یہ عجیب و غریب خبر ملی کہ نیا ضلع تو بنا، مگر ان کا نہیں! اہلِ چکوال جیت گئے تھے۔ شاید ایک وجہ یہ تھی کہ جرنیل وہاں سے زیادہ تھے۔ بااثر سیاست دانوں نے بھی اپنا وزن چکوال کے پلڑے میں ڈالا اور تلہ گنگ کو اٹک سے کاٹ کر تخت چکوال کا حصہ بنا دیا گیا۔ مگر ہم آہنگی نہ در آ سکی! جب بھی!تلہ گنگ جانا ہوا، عوام سے بات ہوئی یا خواص سے یہی سنا کہ چکوال چکوال ہے اور اٹک اٹک تھا۔ جو یادیں، ثقافتی تال میل، لہجے کا اشتراک ضلع اٹک سے تھا، تلہ گنگ کے لوگوں نے اُس کا ہجر ہمیشہ تازہ رکھا۔ ہمارے سینئر دوست جناب ایاز امیر نے تلہ گنگ کے حوالے سے کل جو کالم لکھا، وہ دلچسپ بھی ہے اور کھٹا کم اور کڑوا زیادہ ہے! شاید ان کا کالم تلہ گنگ والوں کے اس احساس کی تائید کرتا ہے کہ چکوال والے سلوک تو اچھا کرتے ہیں مگر اتنا ہی اچھا جتنا ایک سوتیلی ماں کا ہوتا ہے۔ تلہ گنگ کی اصل ضلعی ماں تو اٹک ہی ہے! مولانا رُوم یاد آ گئے ؎دستِ ہر نااہل بیمارت کندپیشِ مادر آ کہ تیمارت کندکہ ہر نااہل کا ہاتھ تجھے مزید بیمار کیے جا رہا ہے۔ تیمار داری ماں ہی کرتی ہے۔ اس کے پاس آئو!فوجی اعتبار سے تو تلہ گنگ نمایاں ہے ہی!ائر مارشل نور خان سے لے کر جنرل فیض جیلانی اور بریگیڈیئر فتح خان ملک تک، بہت سے عسکری ستارے تلہ گنگ کے آسمان پر جھلملا رہے ہیں! مگر سول سروس میں بھی تلہ گنگ کے سپوتوں نے اپنی لیاقت کا سکہ منوایا ہے۔ پاکستان ریلوے کے موجودہ سربراہ آفتاب اکبر اور ریلوے کے مالیات کے سربراہ منظور ملک تلہ گنگ سے ہیں! ریجنل کمشنر تنویر ملک کا تعلق بھی وہیں سے ہے۔ سعید اختر ملک سول سروس کے بڑے منصب سے ریٹائر ہوئے۔ ملک فتح خان نے بارانی علاقوں کی ترقی کے لیے تحقیقی اور تنظیمی کام سالہا سال کیا۔ اب بھی اقوام متحدہ سے وابستہ ہیں۔ مشتاق ملک وفاقی سیکرٹری رہے۔ جی آر اعوان بڑے بڑے ملکوں میں سفیر رہے!ملک لال خان ایٹمی ادارے سے وابستہ ممتاز سائنسدان ہیں۔ لیاقت ملک مرحوم انجینئر تھے اور کئی فلاحی تنظیموں میں شامل ہو کر عوام کی خدمت کرتے رہے!چکوال بھی ہمارا اپنا ہے! اور اٹک بھی اپنا! تلہ گنگ والوں کو نصیحت یہ کرنا ہے کہ یا ضلع اٹک میں واپس آئو! تمہیں کچھ نہیں کہا جائے گا! یا پھر اپنا ضلع الگ بنوالو!!

About Muhammad Izhar Ul Haq

Muhammad Izhar ul Haq, is a columnist and a renowned poet of Urdu language, in Pakistan. He has received international recognition for his contribution to Urdu literature, and has been awarded Pakistan’s highest civil award Pride of performance in 2008. He has published four books of Urdu poetry and writes weekly column in Daily Dunya.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran