Tuesday, 26 November 2024
  1. Home/
  2. Muhammad Saeed Araeen/
  3. Railway Ki Bahali Ya Mazeed Tabahi

Railway Ki Bahali Ya Mazeed Tabahi

سابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کی ریلوے بحالی کی پانچ سالہ کوشش مکمل نہیں ہوئی تھی کہ تبدیلی حکومت نے ریلوے کو شیخ رشید کے حوالے کردیا تھا، جن کے ڈھائی سالہ دور میں ریلوے کی بحالی کے بجائے ان کی توجہ صرف سیاسی بیان بازیوں پر رہی اور اس محکمہ میں حادثات میں ریکارڈ اضافہ ہوا تھا۔

شیخ رشید جیسے تجربے کار وزیر کے بعد یہ محکمہ اعظم سواتی کے حوالے کیا گیا جس کے بعد محکمہ ریلوے بحالی کے بجائے ایک بار پھر بلور دورکی یاد دلانے لگا ہے۔ وزیر ریلوے کا زیادہ زور ٹرینوں کی نجکاری پر ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ریلوے کو خسارے سے نہیں نکالا جاسکتا، اس لیے نجکاری ضروری ہے۔ سرسید ایکسپریس کی نجکاری کے موقع پر ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ٹرینوں کی نجکاری نہیں کی جا رہی اور یہ ہو بھی رہی ہے۔

ریلوے کے مزدور رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ہمیں لاکھ ڈاؤن کی طرف زبردستی دھکیلا جا رہا ہے ہم اس اہم ترین ادارے کو سازشوں کی بھینٹ نہیں چڑھنے دیں گے۔ من گھڑت اور مفروضاتی باتوں کی وجہ سے حکومت اور قوم کو گمراہ کیا جا رہا ہے اور ریلوے کے حالات خراب کیے جا رہے ہیں۔ رہنماؤں کے مطابق ریلوے رائٹ سائزنگ، ڈاؤن سائزنگ ریلوے کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی، مگر رہنماؤں کے مطابق ریلوے میں عملے کی قلت ہے مگر ریلوے سے ملازموں کو فارغ کیا جا رہا ہے۔

شیخ رشید کے دور میں ریلوے کے تقریباً سو حادثات ہوئے تھے جن میں نئے وزیر کے آنے سے کمی نہیں آئی اور ان کے دور میں موجودہ دور کا بڑا حادثہ ڈھرکی میں ہوا جہاں ٹرین نے ٹرین کو کچل دیا تھا اور ساٹھ سے زائد ہلاکتیں ہوئی تھیں، مگر وزیر ریلوے سے وزیر اعظم نے استعفیٰ طلب نہیں کیا نہ کسی اعلیٰ افسر نے استعفیٰ دیا۔

ریلوے کی حالت زار پر خود سپریم کورٹ بھی سوال اٹھا چکی ہے مگر لگتا ہے کہ تبدیلی حکومت ریلوے کارکردگی کو بہتر بنانا ہی نہیں چاہتی اور دیگر محکموں کی طرح ریلوے میں بھی وزیر بدلنے اور ناکامی کی صورت میں بتدریج ریلوے کی نجکاری ہی ریلوے کی بحالی سمجھی جاتی ہے مگر ریلوے رہنما ڈاؤن سائزنگ کو ریلوے کی تباہی قرار دے کر حکومت کے فیصلوں کی سخت مزاحمت کا اعلان کر چکے ہیں اور اس سلسلے میں ریلوے تنظیموں کو متحد کیا جا رہا ہے۔

یہ بھی درست ہے کہ ہر دور میں ریلوے پر تجربات کیے گئے اور سیاسی ریلوے وزیروں نے ریلوے میں اپنے لوگ بھرے اورمحکمے پر مالی بوجھ مزید بڑھایا اور غیر سیاسی وزیروں نے خریداری میں کمیشن وصول کیا اور ریلوے کی حقیقی بحالی پر کوئی توجہ نہیں دی جس سے ریلوے میں خسارہ بڑھتا رہا اور حکومتوں نے ریلوے کی ضروریات پوری نہیں کیں البتہ (ن) لیگ کی حکومت میں ریلوے بحالی کی کوشش کی گئی جو پی پی حکومت میں تباہ کر دی گئی تھی اور وزیر ریلوے جان چھوڑنے پر بھی تیار نہیں تھے۔

یہ بھی درست ہے کہ ریلوے میں سفارشی اور غیر تکنیکی افسروں کی بھرمار ہے جن کی تنخواہیں زیادہ مگر فیلڈ میں کام کرنے والے عملے کی بہت زیادہ کمی ہے مگر اے سی کمروں میں وقت گزارنے اور ریلوے سیلونوں میں سفر کرنے والے ریلوے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں اور سچ بولنے والوں کو سزا کا مرتکب سمجھا جاتا ہے۔

ریلوے میں ایسے لوگوں کو کنٹریکٹر گارڈ بنا دیا جاتا ہے جنھیں ٹرینوں کے اسٹاپس کا بھی پتا نہیں ہوگا۔ گزشتہ فروری میں لاہور جاتے ہوئے کراچی ایکسپریس کے گارڈ نے پوچھنے پر بتایا تھا کہ کوٹ لکھپت پر ٹرین کا اسٹاپ نہیں ہے جب کہ یہ اسٹاپ سالوں سے ہے اور ٹرین وہاں رکی مگر گارڈ غائب ہو چکے تھے۔

ٹرینوں میں عید الاضحی کے موقع پر بوگیاں بڑھانے کے بجائے کم کی گئیں اور پہلے سے ریزرویشن کرانے والوں کو پریشان کیا گیا اور متعلقہ عملہ مسافروں کا سامنا کرنے کے بجائے ٹرین میں کہیں چھپ کر بیٹھ گیا۔ ایک طرف کہا گیا کہ مسافر کم ہونے سے بوگیاں ہی کم نہیں کی گئیں بلکہ بعض ٹرینیں بھی منسوخ کی گئیں جو مسافروں کا موجودہ ریلوے پر عدم اعتماد ہے جیسے بلور دور میں ہوا تھا اور لوگوں نے ٹرینوں میں سفر کرنا چھوڑ دیا تھا۔

ریلوے میں کرپشن اور بدانتظامی جاری ہے ٹرینوں میں ڈائنگ کار اچانک ختم کردی جاتی ہے اور ٹرینوں سے کھانا اور اشیا فروخت کرنے والوں کو ہٹا دیا جاتا ہے جس سے مسافروں کو اسٹیشن پلیٹ فارم کے اسٹالوں سے مہنگا اور مضر صحت کھانا خریدنا پڑتا ہے۔ شیخ رشید جیسا ریلوے وزیر بھی دوبارہ آکر ناکام رہتا ہے تو موجودہ وزیر ریلوے کو کیسے بحال اور حادثات روکنے میں کامیاب ہوں گے، یہ وزیر اعظم کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔

اہم ترین محکمہ ریلوے تین سالوں میں پھر تباہی پر گامزن ہے اور ریلوے مسافروں کا اعتماد پھر کھونے لگا ہے اور مسافروں کی تعداد کم ہونے لگی ہے اور لوگ بسوں کو ترجیح دے رہے ہیں جس کی وجہ سے نجکاری کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran