کورونا وائرس کے بیچ ہنگام میں 18ویں ترمیم کا "شوشہ" کیوں چھوڑا گیا۔۔۔ اور اس پر خود حکمراں جماعت کی قیادت کیوں متضاد بیانات دے رہی ہے۔۔۔ یہ اپنی جگہ خود ایک سوالیہ نشان ہے کہ کیا یہ بھی ایک حکمت عملی کے تحت ہے۔۔۔ یا واقعی تحریک انصاف کی حکومت، اسٹیبلشمنٹ کی چھتر چھایہ میں یہ طے کر چکی ہے کہ 18ویں ترمیم میں سے ایسی ساری ترامیم نکال دی جائیں، جس سے صوبے ماشاء اللہ مکمل خود مختار بن چکے ہیں۔
18ویں ترمیم 2010ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں کی گئی تھی۔ جس کا کریڈٹ صدر آصف علی زرداری کو دیا گیا کہ انہوں نے وہ تاریخی کارنامہ انجام دیا جوخود ماضی کی حکومتیں انجام نہیں دے سکیں۔ یقینا ہمارے سابق صدر آصف علی زرداری جیسے ذہین سیاستداں جانتے تھے کہ آئندہ باری اُن کی نہیں آنی اس لئے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھا کراپنے سیاسی گڑھ یعنی سندھ کو اتنے انتظامی اور مالی اختیارات دے دئیے جائیں کہ بعد میں وفاق میں حکومت نہ ہونے کے باوجود سندھ پر پیپلز پارٹی کی حکمرانی جاری رکھی جاسکے۔۔۔؟ اور پھر ہوا بھی ایسا ہی۔
صوبوں کو مکمل خود مختاری دینا قطعی ناجائز اور غیر جمہوری عمل ہرگز نہیں مگر سوال یہ ہے کہ صوبے اس بڑے پیمانے پر مالی، اور انتظامی اختیارات اور وسائل رکھنے کے بعد اپنے صوبے کے غریب، محنت کش عوام کو کیا کچھ دے سکے؟ 18ویں ترمیم جو ایک دہائی مکمل کرنے والی ہے، تعلیم، صحت، روزگار کے حوالے سے صوبوں کو خاص طور پر سندھ کے عوام کو کیا دے سکی۔۔۔ اس پر آگے چل کر بات ہوگی۔ اس سے بھی زیادہ بنیادی سوال یہ ہے کہ آزادی کے 26سال تک ہمارے سویلین و فوجی حکمران وطن ِعزیز کو آئین کیوں نہ دے سکے؟ 18ویں ترمیم کے خالق سابق چیئر مین سینیٹ محترم رضا ربانی 18ویں ترمیم کے حوالے سے اتنے جذباتی ہیں کہ جب بھی اس پر گفتگو کرتے ہیں تو ان پر رقت طاری ہوجاتی ہے کہ جس کے بعد صرف آنسو نکلنے کی کسر رہ جاتی ہے۔ 18ویں ترمیم کے ذریعہ 1973ء کے آئین میں 100کے قریب تبدیلیاں کی گئیں۔ جو آرٹیکل83پر نظر انداز ہوتی ہیں۔ اس آرٹیکل 83میں جنرل ضیاء الحق نے ایسی 9کے قریب ترامیم کی تھیں جس سے پارلیمانی نظام حکومت کے ساتھ انسانی اور جمہوری حقوق کا بھی جلوس نکال دیا تھا۔ رہی سہی کسر پرویز مشرف نے پوری کردی۔ مگر اس سے پہلے کہ مزید آگے بڑھوں، ذرا ایک نظر18ویں ترمیم پر۔۔۔
18ویں ترمیم کے تحت جو تاریخی فیصلے کئے گئے اُن کے مطابق شمال مغربی سرحدی صوبہ (صوبہ سرحد) کا نام تبدیل کر کے خیبر پختونخوا رکھا گیا۔ 1973 کے آئین میں شامل آرٹیکل 6 ریاست اور آئین سے غداری میں ملوث افراد کے لیے سخت سزائیں تجویز کی گئی تھی، 18ویں ترمیم کے تحت اس میں مزید تبدیلی کر کے آرٹیکل 2۔ 6 الف کا اضافہ کیا گیا ہے۔ جس کے تحت آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی میں ملوث افراد کو سپریم کورٹ سمیت کوئی بھی عدالت معاف نہیں کر سکتی، جیسا کہ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ فوجی آمروں نے مارشل لا لگانے کے بعد اپنے اقدامات کو عدالتی تحفظ فراہم کیا اور بعد میں آنے والی اسمبلیوں سے اپنے دور میں کیے جانے والے اقدامات سے استثنا حاصل کیا۔ لہٰذا آئینی طور پر مستقبل میں کسی بھی مارشل لا کا راستہ بند کر دیا گیا ہے۔
آرٹیکل 25 الف کا اضافہ کر کے 5 سے 16 برس کی عمر تک تعلیم کی لازمی اور مفت فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے۔ آرٹیکل 38 کے تحت صوبائی اکائیوں کے درمیان موجود وسائل اور دیگر خدمات کی غیر منصفانہ تقسیم کا خاتمہ کیا گیا ہے۔
بدنام زمانہ آرٹیکل 58 (2) بی جو فوجی آمر ضیا الحق نے متعارف کروائی تھی اور بعد ازاں پرویز مشرف کے دور میں اس کو دوبارہ بحال کر دیا گیا تھا کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ اس بد نیتی پر مبنی آرٹیکل کے تحت صدر کو پارلیمان تحلیل کرنے کا اختیار دیا گیا تھا جس سے پارلیمانی نظام حکومت صدارتی نظام حکومت میں تبدیل ہو کر رہ گیا تھا۔ ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار میں بھی تبدیلی کی گئی ہے، پہلے یہ اختیار صرف صدر مملکت کو حاصل تھا، اب اس کا اختیار جیوڈیشل کمشن اور پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ (گو کہ بعد میں 19ویں ترمیم کے تحت اس میں تبدیلی کی گئی ہے کیونکہ 18ویں ترمیم کے بعض حصوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا تھا اور چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں 17 رکنی بینچ نے ججوں کی تعیناتی کے اختیار میں بہت حد تک تبدیلی کر دی گئی ہے، جو بعد میں 19ویں آئینی ترمیم میں شامل کی گئی ہے)
اس ترمیم کے تحت صوبائی خود مختاری کو یقینی بنایا گیا ہے۔ اس کے تحت آرٹیکل 70، 142، 143، 144، 149، 158، 160، 161، 167، 172، 232، 233 اور 234 کو جزوی یا مکمل طور پر تبدیل کر دیا گیا ہے۔ a. اس میں بجلی کی پیداوار کا معاملہ مکمل طور پر صوبائی اختیار میں دیا گیا ہے۔ b. قومی فنانس کمیشن، قدرتی گیس، صوبائی قرضہ جات، ہنگامی صورت حال کا نفاذ اور دیگر قانون سازی جیسے معاملات کو صوبائی اختیار میں دے دیا گیا ہے۔ اس میں سب سے اہم معاملہ ہنگامی صورت حال نافذ کرنے کے متعلق ہے۔ 18ویں ترمیم کے تحت، ہنگامی صورت حال کا نفاذ صدر اور گورنر سے لے کر صوبائی اسمبلی کو دے دیا گیا ہے۔ اس ترمیم کا ایک اور بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے پارلیمانی نظام حکومت کو واپس لاگو کیا گیا ہے۔ اس کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 46، 48، 75، 90، 91، 99، 101، 105، 116، 129، 130، 131، 139، 231 اور 243 میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ مختلف تبدیلیوں کے ذریعے صدر کو حاصل اختیارات میں خاطرخواہ تبدیلی کی گئی ہے۔ اب صدارتی اختیارات، عوام کے منتخب و نمائندہ وزیر اعظم، پارلیمان، صوبائی اسمبلیوں کو منتقل کر دیے گئے ہیں۔ ان تبدیلیوں کا کیا اثر پڑا ہے، اس کی مثال یہ ہے کہ پہلے وزیر اعظم پر یہ فرض تھا کہ وہ کابینہ کے اجلاس میں ہونے والے فیصلوں سے صدر کو آگاہ کرے اور ضرورت پڑنے پر صدر کے پاس یہ اختیار تھا کہ وہ ان فیصلوں پر نظر ثانی کے لیے انہیں جزوی یا کلی طور پر منسوخ کر دے، اب ایسا نہیں ہو سکتا۔
اس سے قبل اہم عوامی أمور کے لیے ریفرنڈم کے انعقاد کا اختیار صرف صدر مملکت کے پاس تھا، اب یہ اختیار صدر سے واپس لے کر پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے ذریعے وزیر اعظم کو منتقل کر دیا گیا ہے۔ 10. اس ترمیم کے تحت آئین سے آمر ضیاالحق کے لیے"صدر"کے لفظ کو نکال دیا گیا ہے۔ مگر اس 18ویں ترمیم جسے ہمارے چیئر مین سینیٹ رضا ربانی سنہری حروف سے لکھنے کے طالب ہیں، اس سے عوام کو کیا ثمرات دے سکے ہیں، اس پر ذرا بعد گفتگو۔ (جاری ہے)