Monday, 25 November 2024
  1. Home/
  2. Mujahid Barelvi/
  3. Besakhiyan

Besakhiyan

جولائی 2018ء کے الیکشن کے بعد جس میں تحریک انصاف واضح اکثریت نہیں حاصل کر سکی تھی۔ یعنی 382 کے ایوان میں 172 ارکان جس سے وہ بغیر کسی اتحادی کے حکومت بنا سکے۔۔۔ تو پھر یہی وہ وقت تھا کہ تحریک انصاف کے قائد عمران خان کی بے پناہ مقبولیت اور لاکھوں کی تعدادمیں نوجوانوں کی حمایت کے باوجود یہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والے جہانگیر ترین ہی تھے جو بے پناہ وسائل جن میں ان کا ذاتی جہاز اور ہیلی کاپٹر بھی شامل تھا، تن و تنہا مہینے بھر کی مشقت کے بعد اس بات میں کامیاب ہوئے کہ ہمارے خاں صاحب کو وزارت ِ عظمیٰ کی کرسی پہ لابٹھائیں۔ جولائی 2018ء کے انتخابات میں خان صاحب کے 161 ارکان کامیاب ہوئے تھے۔ جبکہ انہیں سادہ اکثریت کے لئے 11 ارکان ِ اسمبلی کی ضرورت تھی۔ جبکہ ان کے مقابل پیپلز پارٹی، ن لیگ، جمعیت علمائے اسلام اور آزاد ارکان سمیت مزید 28 ارکان کی ضرورت تھی۔ جو انہیں سادہ اکثریت دلا پاتے۔ ایک تو خان صاحب کی خوش نصیبی یہ تھی کہ میثاق ِ جمہوریت کے باوجود ن لیگ اور پیپلزپارٹی ایک دوسرے سے دست و گریباں رہے۔ پھر آزاد ارکان اور دیگر چھوٹے بڑے گروپ یعنی چوہدری پرویز الٰہی، متحدہ قومی موومنٹ، سردار اختر مینگل کی نیشنل پارٹی سمیت دیگر آزاد اراکین اسمبلی کے لئے شریفوں اور زرداریوں سے زیادہ تحریک انصاف کے قائد عمران خان انہیں اُن کی عدوی حیثیت اور سیاسی طاقت سے زیادہ دینے کی پوزیشن میں تھے۔ یوں خاں صاحب نے 18 اگست کو وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھالیا۔ مگر اُس وقت اسلام آباد کے سیاسی پنڈتوں نے یہ پیشن گوئی کردی تھی کہ تبدیلی کے خواہش مند کپتان وزیر اعظم وہی غلطی کر بیٹھے جو محترمہ بے نظیر بھٹو نے دسمبر سن1988ء کے انتخابات میں وزیر اعظم بننے کے لئے کی تھی۔

اُس وقت اسٹیبلشمنٹ کے سرخیل صدر غلام اسحاق خان، صدرِ مملکت تھے۔ پیپلز پارٹی کو94 اراکین اسمبلی کے ساتھ سادہ اکثریت تو حاصل تھی اور یوں آئینی اور جمہوری روایت کے مطابق صدر غلام اسحا ق خان کو انتخابی نتائج آنے کے فوراً بعدحکومت بنانے کی دعوت بھی دینی تھی۔ مگر اسٹیبلشمنٹ محترمہ بے نظیر بھٹو کو یہ پیغا م دینا چاہتی تھی کہ پیپلز پارٹی نے بھلے 10 سال جمہوریت کے لئے مصائب جھیلے ہوں اور قربانیاں دی ہوں۔ مگر حکومت وہ اُسی صورت میں بنا سکے گی جب اسٹیبلشمنٹ انہیں 24بے ساکھیاں فراہم کرے۔

اُس وقت متحدہ قومی موومنٹ 30 اراکین اسمبلی کے اعتبار سے پارلیمنٹ میں تیسری بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی۔ یعنی ان کے اراکین کی تعداد 18تھی۔ اور یہ ایم کیو ایم وہ تھی کہ جس کے قائد الطا ف حسین تھے۔ جن کی مٹھی میں سندھ کے شہری علاقوں کا چیختا، چنگھاڑتا مینڈیٹ تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو حکومت بنانے کے لئے متحدہ کے مرکز نائن زیرو میں حاضری دینی پڑی۔ اور ساتھ ہی ایسے 52 نکاتی فارمولے کو قبول کرنا پڑا جس کی تکمیل کے لئے محض ایک مدت نہیں، دو مدتیں بھی کم تھیں۔ مگر محترمہ کو ایم کیو ایم کا کڑوا گھونٹ پینا پڑا۔ اور پھر ان کی ہی بے ساکھیوں پر وہ سادی اکثریت لے کر صدرغلام اسحاق خان کے سامنے حاضر ہوئیں۔ جن کی شرط یہ تھی کہ صدر تو خیر وہ آئینی طور پر ہیں ہی، مگر وزیر خارجہ بھی ان کے دئیے ہوئے صاحبزادہ یعقوب علی خان ہوں گے۔

اُدھر محض تین دن بعد ہونے والے صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن میں بھی سب سے بڑے صوبے پنجاب میں میاں نواز شریف "جاگ پنجابی، جاگ" کا نعرہ لگا کر پنجاب کے تخت پر بیٹھ چکے تھے۔ خیبرپختونخوا میں اُن کے وزیر اعلیٰ آفتاب شیرپاؤ کو بھی بے ساکھیوں کی ضرورت تھی۔ بلوچستان میں توخیر سے ان کے گنتی کے ارکان کامیاب ہوئے تھے۔ اس لئے وہاں تو انہیں اپوزیشن میں ہی ہونا تھا۔ صرف ایک صوبہ سندھ ہی ایسا تھا جہاں وہ بھاری اکثریت سے اقتدار میں تھیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے محترمہ کو جس طرح اقتدار دیا، اُسی طرح محض 18 ماہ بعد کرسی سے کھینچ کر اتار بھی دیا۔

اس سارے پس منظر کو اگر ذہن میں رکھیں تو کم و بیش جولائی 2018ء میں بھی ایسا ہی سیاسی منظر نامہ سامنے نظر آتا ہے۔۔۔ وفاق کاجیسے میں نے ذکر کیا کہ پچھلے ڈیڑھ سال سے ان کے اتحادی خاص طور پر ق لیگ، متحدہ قومی موومنٹ اورہاں، پگارا لیگ کے انگلیوں میں گنے جانے والے ارکان نے محاورے کی زبان میں ان کا ناطقہ بند کیا ہوا ہے۔ سب سے بڑے صوبے پنجاب میں صورتحال یہ ہے کہ تحریک انصاف اور ان کے اتحادیوں کی تعداد 196 ہے۔ جن میں تحریک انصاف کے اراکین کی تعداد181۔ جبکہ اپوزیشن کے ارکان کی تعداد 173 ہے۔ یوں پی ٹی آئی کو صرف آٹھ ارکان سے اکثریت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ق لیگ جس کے ارکان کی تعداد محض 10 ہے۔۔۔ اُس کے چوہدری اٹھتے، بیٹھتے پنجاب میں اُن کی قیاد ت کو آنکھیں دکھا رہے ہوتے ہیں۔ رہاسندھ اور بلوچستان، تو یہاں پر تحریک انصاف اس پوزیشن میں نہیں کہ نہ تو حکومت بنا سکے اور نہ ہی گراسکے۔ ہاں، خیبرپختونخوا ایک ایساصوبہ ہے جہاں اُسے 145 میں سے 95 نشستیں حاصل ہیں۔ اور پھر اسی بھاری اکثریت کے سبب خان صاحب یہاں پر سزا اور جزا کا خوب خوب کھیل کھیل رہے ہیں۔ تین وزیروں کونکال کر جس طرح انہوں نے اپنے وزیر اعلیٰ کے خلاف سر اٹھانے والوں کو باہر کیا، اور پھر جس طرح یہ باہر نکالے جانے والے وزراء گھگھیائے ہوئے واپس لوٹے۔۔۔ اُس سے کم از کم یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ واحد صوبہ ہے جہاں کے پی حکومت نہ صرف اپنی مدت پوری کرے گی بلکہ اگلی مدت میں بھی اسی اکثریت کے ساتھ اقتدار میں ہوگی۔

اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آخر وفاق اور سب سے بڑے صوبے پنجاب میں اپنے نام نہاد اتحادیوں یعنی بے ساکھیوں کے ساتھ کب تک اقتدار میں رہے گی؟ صاف اور سیدھا جواب تو یہ ہے کہ جب تک اسٹیبلشمنٹ یعنی Game Planner کا دست ِ شفقت کپتان وزیر اعظم کے سر پر ہے۔۔۔ سب سے بڑی کپتان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ اسلام آباد کی اسٹیبلشمنٹ ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے اتنی نالاں ہے کہ وہ کسی طور انہیں کوئی رعایت دینے کے لئے تیار نہیں۔ اسی طرح خاں صاحب کے اتحادیوں کی اصل ڈوریں بھی گیم پلانر کے پاس ہیں۔۔۔

آج جب تحریک انصاف کی حکومت محض ڈیڑھ سال بعد نہ صرف یہ کہ اپنی عوامی مقبولیت کھوچکی ہے۔ بلکہ معاشی میدا ن میں مکمل طور پر ناکام بھی ہوچکی ہے۔ تو اس کا سبب یہ ہے کہ خان صاحب کو بھی ہر محاذ پر وہ سارے سمجھوتے کرنے پڑرہے ہیں جو تین دہائی قبل پیپلز پارٹی کی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو نے کئے تھے۔ بے ساکھیوں پر کھڑی حکومتوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔

About Mujahid Barelvi

Mujahid Barelvi is a veteran journalist from Pakistan. He has a current, daily evening show, "Doosra Pehlu", for CNBC Pakistan. He founded Sonehra Daur Karachi in the 80's. Bankari was a monthly that would help a political activist know about the economic and fiscal realities.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran