ایک ایسے وقت میں جب ساری قوم کورونا سے دہلی ہوئی ہے، ہلاکتیں ہزاروں، متاثرین لاکھوں کو چھو رہے ہیں۔۔۔ دو کروڑ گھروں میں فاقوں کی نوبت آئی ہوئی ہے، کورونا متاثرین ہسپتال کے دروازوں پر ایڑیاں رگڑ رہے ہیں۔۔۔ اور اِدھر اسلام آباد کے سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کو ایک امریکی خاتون نے دہلایا ہوا ہے۔
اخباروں کی شہ سرخیوں اور اسکرینوں کی بریکنگ نیوز بننے والی یہ امریکی خاتون سنتھیا رچی کون ہے؟ گیارہ سال سے وہ اسلام آباد میں کس قانون کے تحت مقیم ہے اور ایوان ِ صدر اور وزیر اعظم ہاؤس میں وہ نقب لگانے میں کس طرح کامیاب ہوئی؟ ان سارے سوالوں کا جواب آگے چل کر۔ مگر امریکہ کی اعلی ٰ یونیورسٹیوں سے ایک سے زیادہ ڈگری لینے والی یہ خاتون جس دیدہ دلیری سے پی پی پی کی شہید قائد بے نظیر بھٹو اور پھر سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی، سابق وزیر داخلہ رحمان ملک اور سابق وزیر صحت مخدوم شہاب الدین پر rape اور درازدستی کے الزامات لگا رہی ہے۔۔۔ اگر سوشل میڈیا تک محدود رہتے تو "رات گئی بات گئی" کہلاتی کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا سب سے موثر ہتھیار یعنی سوشل میڈیا ایک ایسا بھونپو بن گیا ہے کہ جس کا اب صرف ایک کام رہ گیا ہے کہ۔۔۔ سرِ بازار کس طرح کپڑے اتارے جائیں۔ اسی لئے وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ایک ایک سوشل میڈیا کے سرخیل توبہ توبہ کرتے ہوئے اپنی اپنی پناہ گاہوں میں چلے گئے ہیں۔ یوں امریکی شہری سنتھیا کے سنگین الزامات اگر ٹوئٹ اور بلاگ تک رہتے تو اسے اہمیت نہیں دی جاتی۔ مگر جب سب سے زیادہ دیکھے اور پڑھے جانے والے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں۔۔۔ سنتھیا کے الزامات بریکنگ نیوز اور شہ سرخی بنیں۔۔۔ اور پھر اس کے جواب میں 50 کروڑ بلکہ 150ارب تک کے ہتک عزت کے دعووں کے باوجود یہ سلسلہ جاری رہے تو پھر یہ کیس اور اسکینڈل ایسا نہیں رہ جاتا کہ جسے لغو اور جھوٹ کہہ کر نظر انداز کردیا جائے۔
صحافت کے ایک طالب علم کی حیثیت سے ہمیں بتایا اور پڑھایا گیا ہے کہ جس کی تصدیق ہمارے سنیئر صحافی، ایڈیٹر 92 اخبار کریں گے کہ اگر کوئی خبر جھوٹ یا افواہ پر مبنی ہوتی ہے، اور اگر اگلے 24گھنٹے کے دوران یہ غلط ثابت ہو تو پھر اخبار معذرت اور معافی مانگنے کا پابند ہوتا ہے۔ یا پھر درست ہونے کی صورت میں اپنے موقف پر ڈٹ جاتا ہے(حوالے کے لئے انگریزی اخبا ر کی لیکس)۔ یہ ہماری صحافت کی روایت میں شامل ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے، ذاتی حوالے سے ایک بھولا بسرا تجربہ بیان کردوں۔۔۔ یوں تو اس کو دہائیاں بیت گئیں۔ جنرل ضیاء الحق کا سخت مارشل لاء تھا۔ ہم نے شاعر ِ عوام حبیب جالبؔ کی کراچی پریس کلب میں ساٹھویں سالگرہ کا پروگرام بنایا۔ یہ کوئی "کیک" کاٹنے والی سالگرہ نہیں تھی بلکہ مقصد یہ تھا کہ "فوجی آمریت " کے خلاف نعرہ بلند کیا جائے۔ ایم آر ڈی کی ساری قیادت اسٹیج پر تھی۔ ہزاروں کا مجمع تھا۔ وہیں جالبؔ صاحب نے اپنی مشہور ِ زمانہ نظم " ظلمت کو ضیاء، صر صر کوصبائ، بندے کو خدا کیا لکھنا" اپنے خوب صورت ترنم میں پڑھی تھی۔ جس پر پنڈال تالیوں اور نعروں سے آسمان کو چھورہا تھا۔ ہمارے کلب کے صدر عبد الحمید چھاپرا اور اس خاکسار پر مقدمہ بھی بنا۔ اگلے دن سنسرشپ کے سبب کوئی خبر تو کسی روزنامہ اخبار میں چھپی نہیں مگر روزنامہ نوائے وقت میں آخری صفحے پر سنگل کالم کی یہ خبر ضرور شائع ہوئی کہ جالبؔ صاحب کی اس تقریب کے لئے بھارتی قونصل خانے نے 25ہزار روپے اور ایک کریڈ وہسکی کراچی پریس کلب میں بھجوائے تھے۔ رات گئے واپسی ہوئی۔ ابھی بستر پر ہی تھاکہ چھاپرا صاحب کی فون پر گرجدار آواز نے اٹھا دیا۔ حکم ملا کہ نوائے وقت کے دفتر چلنا ہے۔ جو اس زمانے میں گرومندر پر ہوتا تھا۔ اتفاق سے مدیر اعلیٰ محترم مجید نظامی نہ صرف کراچی میں تھے بلکہ روایت کے مطابق صبح ہی سے دفتر میں بھی تھے۔ میں اور چھاپرا صاحب دفتر کی دوسری منزل پر داخل ہوئے تو نیوز روم میں بیٹھے تھے۔ سنجیدہ، بڑی پُر رعب شخصیت۔ چھاپرا صاحب جو منجھے ہوئے ٹریڈ یونین لیڈر تو تھے ہی مگر رپورٹنگ کا بھی بڑا تجربہ تھا۔ چھاپرا صاحب نے نظامی صاحب کی صحافیانہ عظمت کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ نظامی صاحب آپ تو اس پُرخار وادی میں چالیس سال سے ہیں، تقریب کراچی میں ہوئی ہے مگر bylineاسلام آباد کی اور وہ بھی این این آئی نامی ایجنسی کی۔ دوسرے انڈیا سے وہ بھی صرف25ہزار روپے۔۔۔ میں کامرس رپورٹر ہوں، کراچی چیمبر آف کامرس کے سامنے جھولی لئے کھڑا ہوجاؤں تو لاکھ سے اوپر تو پریس کلب کے نام پر ہی مل جاتے۔ پھر وہسکی کا کریڈ نہیں "کیس"ہوتاہے۔ یہ سارا کیس اگر اُس وقت پیا جاتا تو میرے دوست پینے والے تین، چار صحافیوں کے ایکسیڈنٹ تو ضرور ہوتے۔ مجید نظامی صاحب نے بڑے صبر و سکون سے چھاپرا صاحب کی جوشیلی تقریر سُنی۔ اور پھر ہمیں پریس ریلیز دینے کو کہا۔ اگلے دن یہ تردید ی خبر اسی جگہ شائع ہوئی جہاں پر یہ پریس کلب کے خلاف لگی تھی۔
یہ ساری تمہید اس لئے باندھی کہ جب امریکی خاتون کی یہ سنسنی خیز ٹوئیٹ ملک کے سارے اخبارات اور چینلوں میں شہ سرخیوں اور بریکنگ نیوز کی صورت میں دھوم مچا رہی تھی تو اگلے ہی دن ہمارے سابق وزیر داخلہ سینیٹ کی داخلہ کمیٹی کے چیئر مین رحمان ملک کو پہلے تو پیمرا اور سی پی این ای اور اے پی این ایس کو ایک خط یا نوٹس دینا تھا۔ پھر ہمارے ملک صاحب سارے ہی چینلوں اور اخباروں کے سرکردہ رپورٹروں اور اینکروں سے ہی نہیں مالکان سے قریبی تعلق رکھتے ہیں۔۔۔ اپنے ترجمان سے تردید کرنے کے بجائے ملک صاحب اپنی گاڑی میں بیٹھتے اور اسلام آباد میں کوئی درجن بھر چینلوں اوراخبارات میں خود چل کر انہیں قائل کرتے کہ ایک امریکی خاتون کے جھوٹ پر مبنی ٹوئیٹ اور بلاگ کو وہ اتنی کیوں اہمیت دے رہے ہیں، جو rape جیسا گھناؤنا الزام لگا کر صرف اُن کی پارٹی ہی نہیں بلکہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو، بلکہ ملک بھر کے لئے شرم کا باعث بن رہی ہے۔ یقین سے کہہ سکتا ہوں خود میں بھی ملک صاحب کے میٹھے بولوں سے متاثر ہوں کہ جو ملک صاحب دس دن سے وہ "بریکنگ نیوز" او ر شہ سرخیوں سے نہیں نکل پارہے۔۔۔ اگر یہ سلسلہ مکمل ختم نہیں ہوتا تو اندر کے صفحوں اور غیر اہم خبر کے طور پر ضرور آرہا ہوتا۔
یقینا میڈیا چاہے پرنٹ ہو یا الیکٹرانک، مسابقت کی دوڑ کے سبب "خبروں " کا بھوکا ہوتا ہے۔ مگر بہر حال اتنا نہیں کہ وہ ایک غیر ملکی خاتون کے بے سر وپا الزام کو تواتر سے نمایا ں طور پر شائع اور نشر کرتا رہے۔ اور نہیں تو ملک صاحب اور اُن کی جیالا پارٹی یہ تو کرسکتی تھی کہ سپریم کورٹ سے از خود نوٹس لینے یا خبر کی اشاعت پر حکم امتناعی ہی لے لیتی۔
معذرت کے ساتھ دال میں بہت کچھ کالا ہے۔ اسی لئے تو شہ سرخیوں اور بریکنگ نیوز رکنے کا نام نہیں لے رہیں۔۔۔