ابھی دوحہ میں امریکہ کے افغان امور کے سربراہ زلمے خلیل زاد اور افغان طالبان کے نائب امیر اور ملُا برادر کے درمیان ہونے والے معاہدے کی سیاہی سوکھی بھی نہ تھی کہ اس گھمبیر، گنجلک، خونی مسئلے سے جڑے فریق ایک ایک کرکے اس کے مقابل آنا شروع ہوگئے۔ کابل، تہران اور اسلام آباد کی سرکاروں کو دور رکھ کر۔۔۔ دوحہ میں گزشتہ سات سال سے جو کھچڑی پک کر تیار ہوئی۔۔۔
سب سے پہلے تو اُس کی ٹائمنگ بڑی اہم ہے۔ کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ میں ہونے والے انتخابات سے چند ماہ پہلے اس افغان accord کے ذریعے ساری دنیا خاص طور پر امریکی ووٹروں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ یعنی صدر ٹرمپ ہی ہیں جو 19سال سے اس جاری جنگ کو اپنی Shuttle diplomacy کے ذریعے حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
یوں تو ڈیورنڈ لائن کے اِس طرف اور اُس طرف لڑی جانے والی اس جنگ کی طول طویل تاریخ ہے۔ خاص طور پر اپریل 1978میں جب روسی فوجیں گرم پانیوں تک پہنچنے کے لئے کابل میں اپنی حکومت بچانے کے لئے ٹینک اور توپیں لے کر چڑھ دوڑیں تو McCarthyism کے داعی واشنگٹن اور پینٹا گون کے ذہین و فطین حکمرانوں کے لئے یہ ایک ایسا موقع ہاتھ آیا کہ جس سے وہ اشتراکی روس کو اس طرح گھیرے میں لیں کہ نہ صرف یہ اشتراکیت کا قبرستان بن جائے بلکہ سوویت یونین جیسی ریاست کو ہی لے بیٹھے۔۔۔ جو گزشتہ نصف صدی سے سپر پاور امریکہ کے لئے بہت بڑا چیلنج بنا ہوا تھا۔
میں اس وقت اشتراکی روس کے آخری صدر میخا ئل گورباچوف کے Perestroika ڈاکٹرائن میں نہیں جاؤں گا کہ جس نے سوویت یونین جیسی سپر پاور کے تابوت میں پہلی کیل ٹھونکی۔ اور پھر اتنی تفصیل میں بھی نہیں جاؤں گا کہ میخائل گورباچوف کی اس doctrine نے ساری دنیا کی قومی آزادی کی تحریکوں اور بائیں بازو کی تنظیموں کی کمر توڑ دی۔ جس کے سبب آج ساری دنیا میں آج سپر پاور امریکہ راج کررہا ہے۔ اپریل 1978ء میں اشتراکی روس کی مداخلت نے امریکہ خاص طور پر سی آئی اے کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ اس ریجن میں اپنی بالادستی کے لئے اسے بھرپور طور پر استعمال کرے۔
یہ وہ وقت تھا جب پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کا اسلامی مارشل لاء سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ تیسری دنیا کی مضبوط آواز ذوالفقار علی بھٹو پنڈی کی کال کوٹھڑی میں اپنی زندگی کے آخری دن گن رہے تھے۔ ایران، شہنشاہ ِ ایران اور ملاؤں کے درمیان خانہ جنگی کی آگ میں جل رہا تھا۔ دوسری طر ف مشرق ِ وسطیٰ شدید شکست و ریخت سے گذر رہا تھا۔ حتیٰ کہ سعودی عرب جیسی بادشاہت میں اسلامی شدت پسندی زور پکڑ رہی تھی۔ جس کانمائندہ اسامہ بن لادن اور اس کی بنائی ہوئی القاعدہ ایک بڑی موثر قوت بن کر ابھر رہی تھی۔ یوں واشنگٹن کے لئے ایک شاندار موقع تھا کہ وہ ڈیورنڈ لائن کے اس طرف اوراُس طرف محض اشتراکی روس ہی کو دفن نہ کرے، بلکہ اس ریجن میں بھی اپنی بالادستی قائم کرے۔۔۔
دنیا کی مظبوط ترین، آزمودہ کار خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے پاکستان کی اس ریجن میں سب سے مضبوط خفیہ ایجنسی کے ساتھ مل کر ڈالروں کے منہ کھول کر اور اسلحہ کے انبار لگا کر پشاور سے جلال آباد تک ایک ایسی جنگجو فوج تیار کرلی کہ جسے صدیوں سے کابل میں بیٹھی حکومت کو کہ جسے سوویت یونین کی پشت پناہی حاصل تھی، ختم کرنے میں کچھ زیادہ دشواری پیش نہ آئی۔ قندھار سے نکلنے والا مُلّاؤں کا ایک گروہ جسے ہمارے اُس وقت کے وزیر داخلہ اپنے بچے کہا کرتے تھے، ہزاروں میل کا فاصلہ طے کر کے، کابل پہنچا تو دراصل یہ سعودیہ سے آنے والے اسامہ بن لادن کے ہزاروں جنگجوئوں کی کامیابی تھی کہ جنہیں ایک ریاست کی تلا ش تھی، جس کے ذریعے وہ ساری دنیا پر اپنی "برانڈ"کے اسلام کا پھریرا لہراسکیں۔ لیکن اسامہ بن لادن اور واشنگٹن ایک بات سے شاید ناواقف تھے۔۔۔ کہ افغانوں کی اپنی ایک تاریخ اور سرشت ہے۔ افغانستان میں جو بھی قانونی حکومت بیٹھتی ہے، اُس کا عمل دخل محض کابل تک ہوتا ہے۔ باقی افغانستان اُن افغان وار لارڈز کے ہاتھوں میں ہوتا ہے جو اپنی دائر کردہ سرحد کے اندر کسی دوسرے کوآنے نہیں دیتے۔۔۔ افغان مجاہدین اور بعد میں افغان طالبان کی سخت گیر اسلامی حکومت ایک خواب سے زیادہ نہ تھی۔۔۔ جو جلد ہی بکھر گئی۔
دو دہائی تک ڈیورنڈ کے اس طرف اور اس طرف پاکستانی، افغانی، پنجابی طالبان کابل سے اسلام آباد تک ریاستی اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجاتے رہے۔ اربوں روپے کی املاک خود کش حملوں سے اڑا دی گئیں۔ ہزاروں کے سر قلم کئے گئے۔ سب سے زیادہ ظلم و بربریت کا نشانہ خواتین اور بچے بنے۔۔۔ یہ خونی کھیل اسی طرح جاری و ساری رہتا۔ مگر جلال آباد کے ارد گرد کی پہاڑیوں میں بیٹھے اسامہ بن لادن کے سر میں یہ سودا سمایا کہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ سپر پاور امریکہ پر ہی حملہ آور ہوکر عالمی اسلامی ریاست کی بنیاد رکھ دیں۔ اور یوں پھرنائن الیون ہوتا ہے۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے دنیا کی تاریخ بدل دی۔ سپر پاور امریکہ، کابل اور اِس کے اطراف کے صوبوں سے افغانی، پاکستانی، کابلی طالبان کو نکالنے میں کامیاب ہوگیا۔
کرزئی کی صورت میں ایک پٹھو حکومت بھی بٹھا دی گئی۔ ایک حد تک تہران، افغان طالبان کے ایک موثر حلقے کو پناہ دے چکا تھا۔ خود ڈیورنڈ لائن کے اس طرف کے قبائلی علاقوں میں حقانی نیٹ ورک ڈیورنڈ لائن کو تہس نہس کرنے میں مصروف رہا۔ یقینااس ساری افغان جنگ کا سب سے بڑا شکار پاکستان ہوا۔ جس کے ایک لاکھ سے زیادہ شہری شہید ہوئے۔ ساڑھے پانچ ہزار فوجی جوانوں نے جام ِ شہادت نوش کیا۔ کم از کم 70 ارب ڈالرکی املاک تباہ ہوئیں۔ اُس کے مقابلے میں سپر پاور امریکہ، جس نے اس خونی کھیل کا آغازکیاتھا، سب سے کم نقصان میں رہا۔ ویتنام جنگ میں امریکہ کے 68 ہزار فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ کوریا جنگ میں 54 ہزار امریکی ہلاک ہوئے تھے۔ جبکہ 20سالہ افغان جنگ میں محض 2500 امریکی ہلاک ہوئے۔ مالی طور پر ایک کھرب ڈالر کا نقصان بھی ا مریکی سپر پاور کے لئے کوئی بہت بڑا نہ تھا۔ کہ ساری دنیا سے ہمیشہ کے لئے کمیونزم کا خاتمہ ایک بہت بڑا کارنامہ تھا۔ مگر 9/11 کا خوف امریکنوں اور اُن کے حکمرانوں کے دل میں ایسا بیٹھا کہ اُن کا پھر ایک ہی ہدف تھا۔۔۔ اسامہ بن لادن کا خاتمہ اور ہر برانڈ کے طالبان کو جھکانا، دبانا اور خریدنا۔
یہاں تک پہنچا ہوں تو 29 فروری کو ہونے والے accord کو آئندہ کالم کے لئے اٹھا رکھتا ہوں۔ کہ یہ خود ایک تفصیلی موضوع ہے۔ ٹرمپ کا خیال تھا کہ دوحہ ایکارڈ اُس کی کامیابی کے لئے ترپ کا پتہ ہوگا۔ مگر اب خود اُس کے الٹے گلے پڑگیا ہے۔ (جاری ہے)