ٹرمپ کا خیال تھا کہ دوحہ ایکارڈ اُس کی کامیابی کے لئے ترپ کا پتہ ہوگا۔ مگر اب خود اُس کے الٹے گلے پڑگیا ہے۔۔۔
ذرا پہلے 29 فروری کو ہونے والے معاہدے پر چلتے ہیں۔ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ دستخط کرنے کے 135 دنوں میں امریکہ اپنی فوج کی تعداد 8600 تک لے جائے گا۔ جبکہ دیگر اتحادی ممالک بھی اپنی افواج کی تعداد میں کمی لائیں گے۔
اگر ایسا ہوجاتا ہے تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے نومبر2020 میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات کی مہم میں یہ کہنا ممکن ہوگا کہ انہوں نے ماضی میں کئے گئے اپنے وعدوں پر عمل کیا۔ اس کے علاوہ معاہدے کے تحت 5000 زیر حراست افغان طالبان کی رہائی ممکن ہوگی۔ جبکہ ایک ہزار کے قریب افغان فوجیوں کو دس مارچ تک رہا کردیا جائے گا۔ توقع ہے کہ اس تاریخ تک افغان حکومت اور طالبان کے مابین گفتگو کا آغاز ہو جائے گا۔ اس معاہدے کے تحت امریکہ طالبان کے خلاف لگائی جانے والی پابندیاں اٹھالے گا اور اقوام متحدہ سے بھی سفارش کرے گا کہ اُن کی جانب سے لگائی گئی پابندیوں کو ختم کردیں۔
اس معاہدے پر نظر ڈالی جائے تو سب سے پہلے سوال یہی آئے گا کہ امریکہ نے جو دوحہ میں معاہدہ افغان طالبان سے کیا ہے، تو یہ کیسے یقین کرلیا جائے کہ دستخط کرنے والے ملا برادر کی قیادت میں افغان طالبان اُن سارے پنجابی، پاکستانی، افغانی طالبان کے نمائندہ ہیں کہ جس کے بعد وہ مکمل طور پر اس معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے، خود کش حملے اور تخریب کاری کا سلسلہ بندکردیں گے؟ پھرکیاافغان طالبان کے پاس کوئی ایسا افغانستان کا شہر موجود ہے جہاں پر اُن کی مکمل رِٹ ہو۔ اور جو اُن کا دارالحکومت ہویا باقاعدہ جہاں پر ایک ریاستی ڈھانچہ موجود ہو۔ کہا یہ گیا کہ یہ معاہدہ ریاستِ امریکہ اور امارت ِ اسلامیہ کے درمیان ہوا ہے۔
یہ امارتِ اسلامیہ، افغانستان کے نقشے پر کہاں پائی جاتی ہے؟ کیونکہ معاہدے تو حکومتوں کے درمیان ہوتے ہیں۔ یا باقاعدہ دو متحرک، محاذ آرا قوتوں کے درمیان جیسا کہ ویتنام میں ہوچی منہ سے معاہدہ ہوا۔ یا جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا سے ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ افغان تنازع سے جڑے تمام فریقوں میں سے ایک ایک نے اس کی سیاہی سوکھنے سے پہلے ہی اس سے اپنی لاتعلقی کا اعلان کر دیا۔ سب سے اہم فریق تو کابل میں بیٹھی حکومت ہے جو ایک انتخابات کے نتیجے میں، چاہے وہ نام نہاد ہی کیوں نہ ہوں، قانونی حیثیت رکھتی ہے۔ جو اقوام متحد ہ کی رکن ہے۔ اور جسے پاکستان، ایران اور مشرق وسطیٰ کے بیشترممالک سفارتی طور پر تسلیم بھی کرتے ہیں۔
دوسرے فریق ایران نے بھی اپنی لاتعلقی کا اعلان کردیا ہے۔ رہا پاکستان، تو اُس کے ہاتھ پیر بندھے ہوئے ہیں کہ سر بہ سجود ہونے کے علاوہ کوئی تیسرا راستہ نہیں۔ یوں معاہدے کے 24 گھنٹے بعد افغانستان ایک بار پھر دھماکوں سے گونج رہا ہے۔ اس ساری صورت حال میں سپر پاور امریکہ، ہمارے وزارت خارجہ کے بابوؤں کے بابو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور خود طالبان کا وہ حلقہ جو اسلام آباد سے قریب تھا، اس ریجن کی ابھرتی ہوئی دوسری بڑی طاقت بھارت کو بھول گیاکہ جو سابق صدر کرزئی کے زمانے سے کابل کی نہ صرف معاشی پشت پناہی کررہا ہے بلکہ اس ریجن میں ہونے والے پورے کھیل کا ایک فریق بن چکا ہے۔ یہ بات کس سے پوشیدہ ہے کہ افغانستان جیسے ملک میں بھارت کے ایک دیو ہیکل سفارت خانے کے ساتھ ساتھ قندھار، جلال آباد اور ہرات میں بھی قونصل خانے ہیں۔
کابل اور دہلی کے درمیان تجارتی حجم، پاک افغان تجارت سے کئی گنا زیادہ ہے۔ حتیٰ کہ کہا جاتا ہے کہ جو افغان سکیورٹی فورس تیار کی گئی ہے اس کی تربیت بھی ہندوستان ہی میں ہوئی ہے۔ یوں سپر پاور امریکہ، افغان طالبان اور اسلام آبادبڑی سادگی اور معصومیت سے دوحہ ایکارڈ کرنے میں مصروف رہے، اس بات سے بے خبر تھے؟ اور اگر بے خبر تھے تو اسے حیران کن ہی کہا جائے گا کہ اس ریجن میں ہونے والے معاہدے سے بھارت خود کو الگ رکھے۔ یوں بھی مودی سرکار ان دنوں جس بڑی عوامی مزاحمت کا سامنا کررہی ہے اور جس کے سبب پہلی بار مغربی دنیا اور اس کا میڈیا خاص طور پر کشمیر کے حوالے سے کھل کر سامنے آیا ہے، اس کے بعد مودی جیسے ذہین و فطین وزیر اعظم اپنی ناک کے نیچے کس طرح اس معاہدے کو ہوتا دیکھتے۔۔۔ اور اب تو کھل کر مودی سرکار نے یہ واضح موقف اختیار کیا ہے کہ وہ کابل میں بیٹھی اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ ہے۔ تو ابتداء میں لکھ چکا ہوں کہ امریکی صدر ٹرمپ کوپُر امن افغانستان میں کوئی بہت زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔
بنیادی طور پر اُن کے سامنے دوسری مدت کے الیکشن ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ وہ اس بات کے بھی خواہاں نظر آتے ہیں کہ افغانستان میں امن لا کر وہ امن کے نوبل پرائز کے حق دار بن جائیں۔ معاہدے کے صرف 24گھنٹے بعد، جب افغان طالبان نے اپنی آنکھیں دکھانی شروع کیں اور کابل حکومت نے دو ٹوک الفاظ میں یہ کہہ دیا کہ وہ افغانستان میں قید طالبان کو رِہا کرنے کے پابند نہیں۔ تو وہائٹ ہاؤس میں بیٹھے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا غصہ دیدنی تھا۔ جس کا انہوں نے اظہار بھی کیاکہ وہ افغانستان میں پہلے ہی سے موجود 4 ہزارامریکی فوجیوں کے ہوتے ہوئے کئی گنا امریکی فوجی لا سکتے ہیں۔
یوں گزشتہ سات سال سے دوحہ ایکارڈ کا جو ڈھول پیٹا جارہا تھا، اُس سے زیادہ زور دار دھماکے سے پھٹ پڑا ہے۔ اور تمام فریق پھر سے اپنی اپنی پرانی پوزیشنوں پر آگئے ہیں۔ در بدر افغان طالبان اسلام آباد اور واشنگٹن کے رحم و کرم پر۔۔۔ تہران اور بیجنگ اپنا اپنا حصہ لینے کے لئے بے تاب و بے قرار ہیں اوریوں ایک بار پھر افغانستان دو دہائی پہلے کے دوراہے پر کھڑا ہے۔۔۔
سب سے زیادہ حیرت یہ ہوتی ہے کہ ہمارے وزیر اعظم عمران خان جو اقتدار میں آنے سے پہلے یہ دعویٰ کیا کرتے تھے کہ ان کی پہلی ترجیح افغانستان میں امن لانے کی ہوگی۔۔۔ اس سارے کھیل میں بارہویں کھلاڑی بنے ہوئے ہیں۔ دوحہ ایکارڈ کی گیند اب کس کورٹ میں جائے گی؟ اس کے لئے ذرا انتظار کریں۔