Monday, 25 November 2024
  1. Home/
  2. Mujahid Barelvi/
  3. Gumbat Ka Edhi

Gumbat Ka Edhi

شام کے آخری پہر۔۔۔ جب ہم دن بھر کی مشق سخن اور نوکری کی مشقت جھیلنے کے بعد۔۔ کراچی کے سمندر سے لگے ایک ہوٹل میں محفل ِ ہاؤ ہو میں مصروف تھے کہ تواتر سے موبائل فون کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔۔۔ ایک عرصہ ہوا کہ شام کے آخری پہر سے رات کے آخری پہر تک موبائل کو سائلنس یعنی خاموش ہی رکھا ہو۔۔۔ کہ گھر ہو یا دفتر سسکتی یا سنسنی خیز خبریں ہی ملتی ہیں۔ مگر جب گمبٹ سے ایک معتبر آواز نے درخواست کی کہ ڈاکٹر رحیم بخش بھٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس کی ایک ایسی تقریب میں شرکت کرنی ہے جہاں 150 ویں لیور ٹرانسپلانٹیشن مکمل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انٹرنیشنل کانفرنس بھی ہونے جارہی ہے، تو تجسس کے ساتھ ساتھ حیرت بھی ہوئی۔ سنا تو بہت تھا مگریقین نہ تھا کہ گمبٹ میں لیور، گردے جیسے مہنگے اور نازک اعضاء کا ٹرانس پلانٹیشن اور وہ بھی لیور کا150واں۔۔۔ پھر خیال آیا کہ رات کو آنے والے پیغامات عموماً رات گئی بات گئی والے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر علی الصبح یعنی ہم صحافیوں کیلئے کوئی ساڑھے 10 گیارہ بجے پھر یاد دہانی کے پیغام آنے لگے۔۔۔ تو جواب میں ہاں کردی اس خوف کے باوجود کہ عمر کے اس پہر میں شام ڈھلے کراچی سے چلے تو رات کے آخری پہر میں گمبٹ میں داخل ہوں گے۔

اور وہاں بھی کوئی ایسا سرکاری ہسپتال دیکھنے کو ملے گا کہ جس سے طبیعت مکّدرہی ہوگی۔۔۔ مگر گمبٹ میں داخل ہوتے ہی چند گلیوں، چوکوں سے مڑتے ہی ایک حیرت کدہ ہمارے سامنے تھا۔ گمبٹ انسٹی ٹیوٹ کی عمارت کو دیکھنے سے زیادہ حیرت یہ ہوئی کہ ٹھٹھرتی ہوئی شب میں جب ایک پُرشکوہ عمارت کے سامنے اترے تو ڈاکٹر رحیم بخش بھٹی کی گرم جوش بانہیں ہماری منتظر تھیں۔۔۔ یقین کریں، سارے پاکستان ہی نہیں آدھی دنیا میں اپنی صحافتی مشقت کی ہے۔۔۔ مگر اس طرح کسی ادارے کے سربراہ اور بانی کو رات کے آخری پہر میں اس طرح ڈیوٹی سمجھ کر استقبال کرتے صرف دوہی شخصیات کو دیکھا تھا۔۔۔ ایک برسہا برس سے اپنے SIUT والے پروفیسر ادیب الحسن رضوی اور دوسرے آج۔۔۔ سوچ کیا تصور میں بھی نہ تھا کہ سندھ کے ایک دور افتادہ شہر میں کسی ایسی شخصیت سے ملاقات ہوگی کہ جسے رات کے اس پہر میں اپنے بنائے گئے اداراے کے سامنے دیکھ کر بے ساختہ زبان پر آئے گا کہــــــــــ اچھا تو گمبٹ میں بھی ایدھی ہوتے ہیں۔۔۔

عزیزو۔۔۔ 1934 میں اس جگہ دو کمروں کی ایک ڈسپنسری ہوتی تھی۔ نصف صدی بعد بھی اس کی حالت ِ زار میں کوئی تبدیلی نہیں آئی کہ سندھ میں آنے والی حکومتوں کی اس دورانیے میں تعلیم اور صحت اولین ترجیح نہیں ہوتی تھی۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت آنے کے بعد لگ بھگ سن1974ء میں اس پر توجہ دی گئی۔۔۔ سندھ ہی نہیں، پاکستان بلکہ ایشیاء میں یہ ایک منفرد اور مقتدر ادارہ کیسے بنا، اگر بہت تفصیل میں جاؤں تو ایک اور شب یہاں گذارنی پڑے گی۔

آج اپنی آنکھوں سے سندھ ہی نہیں جہان بھر سے آئے ہزاروں مریضوں کی O.P.D میں جس طرح امراض لیور اورگردہ کو یہاں کے مستعد اسٹاف کو دیکھ بھال کرتے دیکھا۔۔۔ اس پر یقین نہیں آرہا تھا کہ بدقسمتی سے خاص طور پر سندھ میں وطن عزیز میں جس طرح صحت اور تعلیم کے کروڑوں، اربوں کی گرانٹ شاہ خرچیوں اور کرپشن کی نذر ہوتی ہے۔۔۔ وہاں گمبٹ میں فرشتہ صفت، صورت اور وہ بھی اس شہر کا اس طرح قرض اتارے گا کہ اس کے بنائے گئے ادارے سے لاکھوں شفایاب ہوں گے۔۔

ڈاکٹر بھٹی جب تقریب سے پہلے انسٹیٹیوٹ میں لے کر داخل ہوئے تو اُن کا بس نہیں چل رہا تھا کہ تیز تیز قدموں سے گھنٹے دو میں چاروں فلور دکھا دیں۔ سب سے پہلے تو ہماری اس مریض سے ملاقات کرائی گئی جس کا ایک 150واں لیور ٹرانسپلانٹ ہوا تھا۔ اس کا تعلق کوئٹہ سے تھا۔ اس وقت ہماری ملاقات کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے اس رو بہ صحت مریض سے ہورہی تھی تو ارد گرد سینکڑوں کی تعداد میں لوگ جمع ہوچکے تھے۔ جو دونوں ہاتھ اٹھا کر ڈاکٹر صاحب کو دعائیں دے رہے تھے۔ یقین کریں، بلکہ یہ زیادتی کرنے کو بھی جی چاہتا ہے کہ شوکت خانم کا لاہور، پشاور میں اسپتال اور پھر کراچی میں ایس آئی یو ٹی کے بعد جو گمبٹ کا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز دیکھا تو یہ مشکل ہو رہی تھی کہ اسے اس جیسا یا اس سے بہتر قرار دیا جائے۔ لیور کے ساتھ یہاں پر کڈنی کے مریضو ں کے لیے بھی ایک پورافلور رکھا گیا ہے، جہاں اب تک 78ٹرانسپلانٹ ہوچکے ہیں۔ لیور اور گردے کے ساتھ ساتھ، امراض ِ قلب کا بھی ایک پورا شعبہ ہے۔ اور پھر یہ دیکھ کر بھی حیرت ہوئی کہ ایک "برنس وارڈ" بھی موجود ہے۔ ان چاروں شعبوں میں جو میڈیکل سائنس کی ٹیکنالوجی موجود ہے، اس کا مقابلہ دنیا کے کسی بھی جدید ترین اسپتال سے کیا جاسکتا ہے۔ عموماً صفائی کو نصف ایمان کہا جاتا ہے۔ مگر یہاں مکمل ایمان نظر آیا۔ ڈاکٹر بھٹی کی تہنیت کے ساتھ ایک شکایت بھی کہ ہم خستہ تنوں اور خاک نشینوں کو آخر کیوں آپ نے یہ عزت بخشی۔ کسی تیل والے، کپڑے والے، مٹھو سیٹھ کو دعوت دیتے کہ اپنے ابا کے نام کی تختی لگاکر، کروڑوں کا چندہ دیتا۔۔۔ مگر ڈاکٹر بھٹی اور ان کے اس عظیم الشان ادارے کو دیکھ کر یقین کرنا پڑا کہ یہ کروڑوں، اربوں روپے کی حویلیاں، زمینیں اور جائداد یں رکھنے والے ڈاکٹر بھٹی کی ٹھوکروں پر ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر بھٹی کے بارے میں یہ بھی سنا کہ لیاقت میڈیکل کالج سے فارغ التحصیل ہوکر فوج میں چلے گئے اور میجر جیسے عہدئہ جلیلہ تک پہنچ گئے۔۔۔ مگر گمبٹ کی زرخیز زمین اور یہاں کے لوگوں کی محبت انھیں یہاں کھینچ لائی۔۔۔

گمبٹ کے عزیزو۔۔ آپ نے ڈاکٹر بھٹی کے ساتھ یا ڈاکٹر بھٹی نے اپنے ساتھ ایک زیادتی کی۔۔ کہ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ قدرت ڈاکٹر صاحب پر مہربان ہوتی۔۔ اور گمبٹ والوں کی دعائوں سے میجر سے کرنل بریگیڈئر ہوتے ہوئے۔۔۔ کور کمانڈر اور جنرل ہوجاتے۔ اور پھر جب اس مقام پر پہنچ کر انکے سر میں سودا، سماجاتا تو پہلے سندھی چیف مارشل لاء، ایڈمنسٹریٹر اور آرمی جنرل کی ٹھاٹ سے دہائی اوپر سارے ملک پر راج کرتے اور ریٹائرمنٹ کے بعد تو باقاعدہ گارڈ آف آنرملتا۔ مگر شکر کرتا ہوں کہ ڈاکٹر بھٹی میجری کے بعد ہی رخصت ہو کر اپنے آبائی گھر لوٹ آئے۔ اس پر شکر بجالانے چاہیے کہ ریٹائرڈ میجر ڈاکٹر رحیم بخش بھٹی نے وہ راستہ چنا کہ آج انہیں گمبٹ، کا ایدھی کہا جاتا ہے۔ یہ وہ منصب اور مقام ہے کہ جو رہتی دنیا تک انکا نام زندہ رکھے گا۔

(21فروری کو گمبٹ کی ایک تقریب میں یہ تحریر پڑھی گئی)

About Mujahid Barelvi

Mujahid Barelvi is a veteran journalist from Pakistan. He has a current, daily evening show, "Doosra Pehlu", for CNBC Pakistan. He founded Sonehra Daur Karachi in the 80's. Bankari was a monthly that would help a political activist know about the economic and fiscal realities.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran