Monday, 25 November 2024
  1. Home/
  2. Mujahid Barelvi/
  3. Mulla Kabhi Kabul Ke Hukmaran Nahi Rahe (2)

Mulla Kabhi Kabul Ke Hukmaran Nahi Rahe (2)

پہلے تو اس بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ جب میں یہ کہنے کی جسارت کرتا ہوں کہ کابل پر کبھی مُلّاؤں کی حکومت نہیں رہی تو اس کے لئے میں عالم ِ اسلام کے سب سے بڑے شاعر شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبال کے اس شعر کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جس میں علامہ کا فرمانا تھا :

الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن

مُلا کی اذاں اور، مجاہد کی اذاں اور

جو کہ پورا کا پورا افغان ملاؤں پر پورا اترتا ہے۔۔۔ یہ درست ہے کہ افغان مجاہدین کابل میں روس کی پشت پناہی سے آنے والی کابل میں حکومت کے رد عمل کے بعد ایک بڑی تحریک کی صورت میں ابھرے۔ مگر معذرت کے ساتھ، اس تحریک کے پیچھے بہت سارے عوامل بھی تھے۔ جس کا ذکر میں نے گزشتہ کالم میں کیا تھا۔ کہ امریکہ میں میکارتھی ازم کے عروج میں پہلا اور سب سے بڑا ایجنڈا یہ تھا کہ کس طرح اشتراکی روس کا بحیثیت ریاست خاتمہ کیا جائے۔ تاکہ ساری دنیا میں کولڈ وار کا خاتمہ ہونے کے بعد سپر پاور امریکہ کا جھنڈا لہرایا جائے۔ اور اس کے لئے سوویت کامریڈوں نے اپریل 1978ء میں یہ موقع بھی فراہم کردیا۔ کہ جب وہ سردارد اؤد کی ترقی پسند ایک حد تک غیر جانبدارانہ حکومت ختم کرکے ایک ایسی مہم جوئی کربیٹھے کہ جس کی سزا افغانستان میں بائیں بازو اور ترقی پسندوں کو تو بھگتنی پڑی ہی مگر خود سب سے بڑا نشانہ اس کا افغان قوم بنی۔ جو لاکھوں کی تعداد میں ماری گئی اور اس سے بھی بڑی تعداد میں در بدر ہوئی۔

مجھے علم تھا کہ جب میں افغانستان کی تاریخ کو چھیڑوں گا تو اسے کتنا بھی سمیٹنا چاہوں، اس کے لئے ایک حد تک تو گہرائی اور گیرائی میں جانا پڑے گا ہی۔ گزشتہ کالم میں، میں افغانستا ن کی پانچ ہزار سالہ تاریخ کو سمیٹتے ہوئے ظاہر شاہ پر آیا تھا۔ 19سالہ ظاہر شاہ اپنے والد نادر شاہ کے قتل کے بعد 1933 میں تخت نشین ہوا۔ ظاہر شاہ نے کمسنی میں اپنے چچاؤں سے یہ سبق سیکھا کہ اپنے مخالفین کو ایسی سخت سزائیں دینی چاہئیں کہ عوام اس سے عبرت پکڑیں اور کبھی سر اٹھانے کی جرأت نہ کرسکیں۔ ظاہرشاہ نے اپنے باپ کے قاتل کو پھانسی دینے کے بجائے ایک آہنی پنجرے میں بند کرکے شاہی محل کے سامنے ایک چبوترے پہ رکھ دیا تاکہ عوام اس روح فرسا منظر کو دیکھ کر آئندہ بغاوت کی جرأت نہ کریں۔

نادر شاہ کے باپ کا قاتل مہینوں اس پنجرے میں پھڑپھڑاتا بڑی اذیت کی موت مرا۔ آج جب ہم ماضی ِ قریب کے یہ قصے پڑھتے ہیں کہ کس طرح یہ لوگ اسکرینوں کے سامنے اپنے مخالفین کے گلے کاٹ رہے ہوتے ہیں۔۔۔ حتیٰ کہ اسکول کے بچوں تک کو اسلام کے نام پر ذبح کررہے ہوتے ہیں تو در اصل یہ وہی سرشت اور ذہنیت ہے جو بدقسمتی سے برسہا برس سے افغان mindsetبنی ہوئی ہے۔ چاہے وہ مُلّا افغان ہو یا moderate افغان۔۔۔

ظاہر شاہ نے کوئی چالیس سال حکومت کی۔ تاہم یہ بھی اعتراف کرتے چلیں کہ ظاہر شاہ نے اپنے اقتدار کے تیس سال بعد سن1964ء میں پہلا تحریری آئین دیا اور آئینی بادشاہت کی بنیاد رکھی۔ جدید افغانستان میں انگریزوں کے انخلاء کے بعد بہر حال سوویت یونین کا اثر و رسوخ بڑھا۔ بڑی تعداد میں افغان فوجی تربیت اور اعلیٰ تعلیم کے لئے روس گئے۔ افغانستان کا معاشی اور عسکری طور پر بڑی حد تک انحصار سوویت یونین پر تھا۔ سوویت یونین اُس وقت ساری دنیا میں خاص طور پر تیسری دنیا کے ممالک میں کمیونسٹ پارٹیوں کے بیج بو رہا تھا۔۔۔ افغانستا ن میں بھی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے نام سے اس دوران ایک بائیں بازو کی سیاسی پارٹی نے جنم لیا۔۔۔ جسے ظاہر شاہ کے قریبی عزیز سردارداؤد کی سرپرستی حاصل تھی۔ جو بتدریج مختلف مراحل طے کرتا ہوا وزیر اعظم کے عہدے تک پہنچ گیا تھا۔

اور پھر جب ظاہر شاہ روم میں چھٹیاں گذرنے گیا تو اس موقع سے فائدہ اٹھا کر جولائی 1973ء میں سردار داؤد نے ظاہر شاہ کا تختہ الٹ دیا۔۔۔ بہرحال سردار داؤد ماضی کے افغان حکمرانوں کے مقابلے میں ایک ذہین و فطین حکمراں تھا۔ اور اس کو اِس بات کااحساس تھا کہ افغانستان اس ریجن میں ایک ایسی کلیدی حیثیت رکھتا ہے کہ جس کے سبب سپر پاور کوتو اس کی ضرورت ہوگی ہی مگر اپنے ہمسایہ ممالک میں بھی ایک بفر زون کی حیثیت میں وہ ایک منفرد مقام حاصل کرلے گا۔ بہرحال سردار داؤد کا اصل سیاسی بیس وہاں کے مذہبی اور روایتی افغان لارڈ نہیں تھے۔ بلکہ بائیں بازو کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی ہی اس کا سیاسی بیس تھی۔ یہ وہ دور تھا جب اشتراکی روس دنیا میں اپنی بالادستی کے لئے پہ درپہ مہم جوئی کررہا تھا۔ چیکوسلوواکیا میں اشتراکی روس نے جو بھیانک غلطی کی اور اُس سے جو نقصان پہنچا، اُس سے سبق سیکھنے کی بجائے اُس نے گرم پانیوں کا رُخ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اپریل 1978ء میں سردار داؤد کا جس طرح تختہ الٹا گیا، اور اُسے خاندان سمیت جس طرح قتل کیا گیا۔۔۔ دراصل یہ آغاز تھا ایک نہ ختم ہونے والے سیاہ خونی با ب کا۔۔۔۔

کابل پر حکمرانی کے لئے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے پرچم اور خلت دھڑوں نے جس طرح ایک دوسرے کے گلے کاٹے اُس کے بعد تو افغانستان میں امریکہ کی پشت پناہی سے دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کے لئے تو راستہ کھلنا ہی تھا۔ یہاں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اس دوران امریکی اسلحہ اور ڈالروں کے جہاز بھربھر کے ڈیورنڈ لائن کے اِس طرف اور اُس طرف ہی نہیں اترے۔۔۔ بلکہ اسامہ بن لادن کی شکل میں سارے عرب کے پُر جوش مجاہدین کو بھی کابل میں ایک اسلامی ریاست کا خواب پورا ہونے کی تعبیر نظر آئی۔

سوویت یونین کا آخری نمائندہ ڈاکٹر نجیب تھا۔ نومبر 1989ء میں مجھے صحافیوں کے ایک گروپ کے ساتھ افغانستان جانے کا موقع ملاتھا۔ کم از کم دو ہفتے ہم نے ہرات، قندھار، جلال آباد کا دورہ کیا تھا۔ اُس وقت ایک حد تک ڈاکٹر نجیب کی حکومت افغان وار لارڈ ز کی مدد سے ریاست پر اپنی گرفت مضبوط کرچکی تھی۔ مگر سپر پاورامریکہ اورمغرب نے جس بڑے پیمانے پر ڈالروں اور اسلحہ سے افغان لارڈوں کو خریدا، اور روایتی مُلاّ ؤں کو مالا مال کیا، اُس کے بعد یقینا 1990ء کے آتے آتے یہ ایک بڑی قوت بن چکے تھے۔ مگر امریکیوں اور پھر اس جنگ کے سب سے بڑے فرنٹ مین پاکستان، کی مشکل یہ تھی کہ کس طرح افغانستان میں لڑنے والے درجن بھر سے اوپر مجاہدین گروپوں کو ایک بینر کے نیچے لایا جائے۔ کہ بہر حال اس دوران "القاعدہ"بلکہ اسامہ کی صور ت میں بھی ایک بڑا فیکٹر افغان مجاہدین کی تنظیموں میں نقب لگا چکا تھا۔ جسے ماسکو کے ساتھ ساتھ واشنگٹن کی بالادستی بھی قبول نہیں تھی۔

ڈاکٹر نجیب کو بیچ چوک لٹکا کر ترقی پسندی اور روشن خیالی کو تو پھانسی دے دی گئی۔ مگر خود افغان مجاہدین کے یہ گروہ کابل پر حکومت کرنے کے لئے ایک دوسرے سے ایسے دست و گریباں ہوئے کہ جتنے افغان سوویت جنگ میں نہیں مارے گئے اُس سے زیادہ بڑی تعداد میں یہ اپنی باہمی لڑائیوں میں ہلاک ہوگئے۔ (جاری ہے)

About Mujahid Barelvi

Mujahid Barelvi is a veteran journalist from Pakistan. He has a current, daily evening show, "Doosra Pehlu", for CNBC Pakistan. He founded Sonehra Daur Karachi in the 80's. Bankari was a monthly that would help a political activist know about the economic and fiscal realities.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran