جی ہاں۔۔۔ 73سال ہوگئے۔۔۔ لاکھوں مہاجرین کی ہجرت اور پھر تقسیم کے وقت ہولناک خون ریزی کے بعد۔۔۔ اگر انسانی کوششوں کے حوالے سے تعلق ہے تو یہ صرف ایک فرد کی علمیت، ذہانت اور جرأت کی کامیابی تھی۔۔۔ قائد اعظم محمد علی جناح۔۔۔ جالب یاد آگئے؛
دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے
دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے
خامشی پر ہیں لوگ زیر عتاب
اور ہم نے تو بات بھی کی ہے
مطمئن ہے ضمیر تو اپنا
بات ساری ضمیر ہی کی ہے
اپنی تو داستاں ہے بس اتنی
غم اٹھائے ہیں شاعری کی ہے
اب نظر میں نہیں ہے ایک ہی پھول
فکر ہم کو کلی کلی کی ہے
پا سکیں گے نہ عمر بھر جس کو
جستجو آج بھی اسی کی ہے
جب مہ و مہر بجھ گئے جالب
ہم نے اشکوں سے روشنی کی ہے
مگر بدقسمتی اس اسلامی جمہوریہ پاکستان کی یہ ہے کہ اُسے ہندوستان کے جواہر لال نہرو کی طرح چند برس نہ ملے۔۔۔
یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر بانی ٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مزید پانچ، سات سال زندہ رہتے۔۔۔ تو وزرائے اعظم کا میوزیکل چیئر ہوتا۔۔۔ اور نہ ہی انگریز رنگروٹ فوجی جنرل فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کا چیختا چنگھاڑتا مارشل لاء آتا۔۔۔ محمد ایوب خان۔۔۔ یحییٰ خان۔۔۔ بھٹو صاحب اور پھر پرویز مشرف۔۔۔ شریف اور زرداری خاندان پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔۔۔ مگر آگے بڑھنے سے پہلے "پہاڑ" جیسی یہ غلط فہمی دور ہونی چاہئے کہ مشرقی پاکستان کو دولخت کرنے کے ذمہ دار صرف مغربی پاکستان کے سویلین اور فوجی حکمراں تھے۔ اور شیخ مجیب الرحمٰن اور ان کا مربی و مشفق بھارت بالکل بے قصور۔۔۔
کورونا وائرس کے دنوں میں ایک نعمت یہ ملی کہ وافر مقدار میں پڑھنے کا موقع مل گیا۔۔۔ انہی میں ایک کتاب" سر ظفر اللہ خان" کی بھی ہے۔۔۔"پاکستان کا المیہ "۔۔۔ سر ظفر اللہ خان اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے مستقل نمائندے اور پھر وزیر خارجہ تھے۔ جنہیں قائد اعظم محمد علی جناح کا بڑا قرب اور اعتماد حاصل تھا۔۔۔ یہ سر ظفر اللہ خان کی علمیت اور ذہانت ہی تھی کہ جن کے سبب دسمبر 1948ء میں جواہر لال نہرو کے ہوتے ہوئے اقوام متحدہ میں وہ قرارداد منظور ہوئی جو 72سال سے بھارت کے گلے کی ہڈی بنی ہوئی ہے۔۔۔ مگر کشمیر ایک الگ موضوع۔۔۔ اس پر بھی آگے چل کر بات ہوگی۔ سر ظفر اللہ خان کی اس کتاب میں جو 1973ء میں شائع ہوئی۔۔۔ سب سے اہم باب وہ ہے جس میں مستند اعداد و شما ر کے حوالوں سے بتا رہے ہیں کہ مشرقی پاکستان کی معاشی طور پر مغربی پاکستان کی داستانیں بیشتر مفروضوں پر ہیں۔۔۔
سر ظفر اللہ خان اپنی کتاب "پاکستان کا المیہ "میں لکھتے ہیں :"ایک مستقل مفروضہ مغربی پاکستان کے ہاتھوں مشرقی پاکستان کا اقتصادی استحصال تھا۔ اس سلسلے میں کچھ حقائق دلچسپی کا باعث ہیں :1948ء سے1970ء کے دوران حکومت پاکستان نے ترقیاتی قرضوں کی مد میں 15266ملین روپے فراہم کئے۔۔۔ ان میں سے 8419ملین روپے مشرقی پاکستان کو ملے اور 6847ملین روپے مغربی پاکستان کو۔۔۔"قیام پاکستان کے ابتدائی عشرے میں کمزور اقتصادی ڈھانچے اور جذب کرنے کی کم صلاحیتوں کے باعث غیر ملکی قرضے برابر مقدار میں تقسیم نہ کئے جاسکے۔ 1958ء کے بعد سے یہ صورت حال بتدریج مشرقی پاکستان کی موافقت میں چلی گئی۔۔۔" 1960ء سے1969ء تک مشرقی پاکستان نے کل مرکزی محصولات میں 8051ملین روپے فراہم کئے۔ اس میں سے 3884ملین روپے (48%)اسے اس کے صوبائی حصے کے مطابق واپس کر دئیے گئے۔۔۔
اس کے مقابلے میں مغربی پاکستان نے 22371ملین روپے فراہم کئے اور اسے4000ملین (صرف 18فیصد)واپس کئے گئے۔"حکومت کی ملکیت مشرقی پاکستا ن صنعتی کارپوریشن نے متعدد صنعتی منصوبے شروع کئے جن میں تقریباً ایک ارب روپے کی سرمایہ کاری کی گئی۔۔۔ اس طرح پاکستان کی واحد اسٹیل مل چٹا گانگ لگائی گئی اور کاغذ کا واحد کارخانہ کھلنا میں لگایا گیا۔ یہ دونوں مشرقی پاکستان ہی میں تھے۔۔۔"
وصول شدہ محاصل1947-48۔۔۔۔۔۔ 1969-70
ملین روپوں میں ملین روپوں میں
مشرقی پاکستان 169 1789
ڈھاکہ میونسپلٹی 6، 1 3، ، 16
چٹاگانگ میونسپلٹی 75.0 15
پٹ سن کے کارخانے کوئی نہیں 55
کپڑے کے کارخانے 5 44
ڈاکخانے (تقریباً) 3000 6000سے زائد
ٹیلی فون 3000 50، 000سے زائد
سڑکیں عمدہ 240میل 2400میل
سڑکیں عام کوئی نہیں 1400میل
بندر گاہ(بلحاظ گنجائش) چٹاگانگ 5لاکھ ٹن 47لاکھ ٹن
بندر گاہ(بلحاظ گنجائش) چالنا موجود نہ تھی 20لاکھ ٹن سے زائد
ہوئی اڈے:1947ء میں صرف دو چھوٹے ہوئی اڈے تھے۔۔۔ ایک ڈھاکہ میں اور ایک چٹاگانگ میں۔۔۔ 1970ء تک پورے مشرقی پاکستان میں درجنوں ہوائی اڈے او ر ہوائی پٹیاں قائم کی جاچکی تھیں۔ اور ڈھاکہ کے ہوائی اڈے کو بے حد وسعت دے کر جیٹ جہازوں کے اترنے کے قابل بنادیا گیا تھا۔۔۔"
ہاں۔۔۔ مگر یہاں یہ بات صرف نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ ایوب خان اور پھر۔۔۔ یحییٰ خان کے ٹولوں نے جس سازش کے بعد مشرقی پاکستان کو الگ کیا۔۔۔ وہ اُن کا اوراُن کے سویلین ٹولے کا ناقابل معافی جرم ہے جس پر آئندہ بات ہوگی۔ (جاری ہے )