Monday, 25 November 2024
  1. Home/
  2. Mujahid Barelvi/
  3. Pakistan Steel Mills, Aik Almiya (2)

Pakistan Steel Mills, Aik Almiya (2)

پاکستان اسٹیل ملز جس کے 10ہزار ملازمین کو 140ارب کے لگ بھگ گولڈن ہنڈ شیک دے کر رخصت کیا جارہا ہے۔ ایک بار پھر ایک بڑے تنازعہ کا شکا ر ہوگئی ہے۔ نکالے جانے والے ملازمین کو تو خیر سڑکوں پر آناہی تھا جنہیں گزشتہ پانچ سال یعنی 2015ئسے گھر بیٹھے کبھی مہینے، دو کی تاخیراور کبھی کٹوتی کر کے تنخواہیں دی جارہی تھیں۔ مگر سب سے زیادہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اپوزیشن جماعتوں، خاص طور پر پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے شور ڈالا ہے۔ احتساب کا شکار پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا یوں بھی معاملہ "میں نہ مانوں " والا ہے۔ ایسے ہی جیسے پی پی اور ن لیگ کی حکومتوں کے دوران تحریک انصاف کی قیادت اسٹیل ملز سمیت ہر مسئلے پر چاہے وہ کتنا ہی قومی مفاد میں ہوتا، مخالفت کرتی تھی۔

موجودہ وزیر خزانہ اسد عمر کا تین سال پہلے کا خطاب ان دنوں اسکرینوں پر تواتر سے دکھایا جارہا ہے جس میں وہ اسٹیل ملز کے احتجاجی ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے اُس وقت کے حکمرانوں پر وہی کچھ الزامات لگا رہے تھے، جو اِن دنوں اُن پر لگ رہے ہیں۔ اسٹیل ملز کی نجکاری کس حد تک درست اور جائز ہے۔۔۔

اس سے پہلے میں اپنا ذاتی تجربہ بتاتا چلوں کہ 2004ئسے 2007ئکے دوران میرا ہر تین، چار ماہ بعد اسٹیل ملز جانا ہوتا تھا۔ اسٹیل ملز کے چیئر مین اُس وقت سینیٹر ریٹائرڈ جنرل عبد القیوم ہوا کرتے تھے۔ جنرل قیوم سے ذاتی طور پر میری یاد اللہ سال 1993ء یا1994ئسے ہے۔ اُس وقت وہ وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے ملٹری سکریٹری ہوا کرتے تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی ہمراہی میں جب ایران اور ترکی کا سفر کرنے کا موقع ملا تو ان چھ دنوں کے دوران سفر اور آفیشل میٹنگوں کے درمیان جنرل قیوم سے اچھی خاصی گپ شپ رہی۔ وزیر اعظم کے ملٹری سکریٹری سے "گپ شپ" کا جملہ استعمال کرلیا۔ مگر جنرل صاحب کی شخصیت میں اُس وقت بھی ایسی کشش اور بے تکلفی تھی کہ ایک خاص تعلق قائم ہوگیا۔ یہ تحریر لکھتے ہوئے جب جنرل قیوم سے رابطہ ہوا تو بڑی افسردگی سے کہنے لگے :"میں نے ملبے پر اسٹیل ملزکی امپائر کھڑی کی۔ افسوس کہ نادان دوستوں نے اسے پھر ملبے کا پہاڑ بنادیا۔"

جنرل قیوم جب اسٹیل ملزکے چیئرمین ہوئے تو پہلی فون کال پر ہی دعوت دے ڈالی کہ مجھے مہینہ دے دیں۔ اس کے بعد کیمرہ لے کر آجائیں۔ جنرل قیوم کا شہرہ واہ آرڈیننس فیکٹریز کے حوالے سے سُن چکا تھا۔ جہاں جنرل قیوم یہاں بننے والے پُرزہ جات کی ایکسپورٹ ریکارڈ سطح پر لے گئے، وہیں واہ میڈیکل، واہ انجینئرنگ کالج سمیت ایسے درجنوں ادارے اپنے ساڑھے پانچ سالہ دور میں قائم کئے کہ آج بھی جنرل صاحب کی اُن سرکاری کوششوں کے سبب واہ آرڈیننس فیکٹریز کا نام مثالی سرکاری اداروں میں آتا ہے۔

واہ آرڈیننس فیکٹریزکی سربراہی سے دستبردار ی کے کچھ عرصے بعد اپنے پروفیشن میں گذارا اور پھر جب دسمبر 2003ء کو ریٹائر ہوئے تو جنرل پرویز مشرف نے "واہ آرڈیننس فیکٹریز" میں اُن کی شاندار کارکردگی کے سبب پاکستان اسٹیل ملز کو سنبھالنے کے لئے کراچی بھیج دیا، جو اُس وقت معذرت کے ساتھ عثمان فاروقی جیسے چیئرمین اور ملازمین کی ٹریڈیونینوں کی لوٹ کھسوٹ کے سبب تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا تھا۔ جنرل قیوم نے جب جنوری 2004میں اس کی چیئر مین شپ سنبھالی تو یہ 18ارب کی مقروض تھی جبکہ لگ بھگ 13ارب روپے کی حبیب بینک کی مقروض تھی۔ ملک کے سب سے بڑے صنعتی یونٹ کا یہ حال تھا کہ جب اُس کے چیئرمین کرنل افضل کو دل کا دورہ پڑنے کے سبب اسٹیل ملز کے اسپتال کی ایمرجنسی میں لے جایا گیا تو وہاں ECGکی مشین نہیں تھی۔ جس کے سبب اسپتال کے بیڈ پر ہی اس جہان ِ فانی سے رخصت ہوگئے۔

پاکستان اسٹیل ملز کے قیام کے وقت اس کی پیداوار کا ٹارگٹ 30 لاکھ ٹن رکھا گیاتھا۔ تاہم پہلے مرحلے میں اس کا 11لاکھ ٹن کا ہدف تھا۔ مگر 8ارب کے قرضوں کے ساتھ اس کی پیداوار بھی 75سے80فیصد تھی۔ جنرل قیوم کہتے ہیں :میرے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں تھی۔ مگر واہ آرڈیننس فیکٹریز میں رہ کر ایک ماڈل منیجمنٹ کا تجربہ رکھتا تھا۔ جنرل صاحب کہتے ہیں کہ" اُس وقت افسران کے شاہانہ ٹھاٹ باٹ تھے۔ اُن کا ناشتہ اور کھانا فائیو اسٹار ہوٹلوں جیسا جبکہ ملازمین کو لنگر خانہ سے ملتا۔ اس فرق کو مٹانے کے لئے ہم نے ایک وسیع رابطہ ہال بنایا۔ جہاں میں خود بھی جب موقع ملتا ناشہ اور کھانا ساتھ بیٹھ کر کھاتا۔" اس کی گواہی میں اس لئے دوں گا کہ ایک سے زائد بارجب میں اسٹیل ملز کی ڈاکومنٹری بنانے جاتا تو لنچ، چیئرمین اسٹیل ملز جنرل قیوم کے ساتھ اسی رابطہ ہال میں کرتا۔

جنوری 2004ء میں جنرل قیوم چیئر مین ہوئے۔ اور صرف دو سال بعدیعنی2006ء کے آتے آتے نہ صرف8ارب کا قرضہ ختم کیا، بلکہ حبیب بینک کو سود سمیت 3ارب واپس لوٹایا۔ پیداوار جو80فیصد تھی اُسے 96فیصد تک لے گئے۔ ملازمین، افسران کی یونینوں کی قیادت اور اُن کے ممبروں کو پابند کیا گیا کہ وہ بھی پورے وقت کی ڈیوٹی دیں گے۔ جنرل صاحب کہتے ہیں : اسٹیل ملز کی ساری تباہی کی ذمہ دار ی جو ملازمین اور اُن کی یونینوں پر ڈالی جاتی ہے، وہ غلط ہے۔ کرپشن اور لوٹ کھسوٹ، اوپر سے جب وہ ختم ہوئی اُن یونینوں کے تعاون ہی سے، مقروض اسٹیل ملز کو تین سال میں اس قابل بنادیا کہ اس سے18ارب کا منافع کمایا۔ 6ارب حکومت کو انکم ٹیکس بھی دیا۔ ہماری کوشش تھی پاکستان اسٹیل ملز جس مقصد کے لئے بنائی گئی تھی، یعنی 30لاکھ ٹن کی سالانہ پیداوار، تواُسے آئندہ تین برسوں میں اس سطح تک لے جائیں جس سے ملک خود کفیل ہوہی جاتا بلکہ بڑے پیمانے پر آئرن کی ایکسپورٹ سے کروڑوں ڈالر بھی ملتے۔

جنرل قیوم کہتے ہیں کہ جس وقت انہوں نے اسٹیل ملز کی چیئر مین سپ سنبھالی تو اس کے شیئر 10روپے میں بھی کوئی نہیں لیتا تھا۔ مگر2007تک یہ 18روپے پر آگئے۔ جبکہ آئندہ کا ٹارگٹ 40روپے تھا۔ مگر یہی وہ وقت تھا جب ہمارے شوکت عزیز صاحب وزیر اعظم ہوئے، تو ان کی نجکاری کی ڈاکٹرائن کا سب سے پہلا ٹارگٹ وہ ادارہ بنا جو اربوں روپے منافع دے رہا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ جب میں نے جنرل پرویز مشرف سے کہا کہ ایک ایسا ادارہ جو حکومت کو 6ارب ٹیکس بھی دے رہا ہے، آخر اسے ہی پہلے کیوں نجکاری میں سرفہرست رکھا گیا۔ نجکاری کا تو بنیادی اصول یہ ہے کہ جو ادارے حکومت پر بوجھ ہوں جیسے کہ اُس وقت ریلوے، واپڈا، پی آئی اے تھے، انہیں پہلے فروخت کریں۔ مگر جنرل صاحب کا خود اُس وقت اقتدار ڈانواڈول ہونا شروع ہوگیا تھا اور وزیر اعظم شوکت عزیز اپنی ضد پر تھے۔ سو سب سے پہلے اس کماؤ پوت ادارے کی بولی لگائی گئی۔ 19پارٹیاں اس کی خرید کے لئے دو ڑپڑیں جن میں سے 7کو شارٹ لسٹ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ ان کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے۔ اور یوں اس کی بولی 21ارب 68کروڑ لگائی گئی۔ جنرل صاحب کہتے ہیں کہ عقیل کریم ڈھیڈی گواہ ہیں۔ اُن کی دلچسپی اسٹیل ملز کی زمین سے تھی اور اس کے لئے انہوں نے 40ارب روپے کی آفر کی تھی۔ (جاری ہے)

About Mujahid Barelvi

Mujahid Barelvi is a veteran journalist from Pakistan. He has a current, daily evening show, "Doosra Pehlu", for CNBC Pakistan. He founded Sonehra Daur Karachi in the 80's. Bankari was a monthly that would help a political activist know about the economic and fiscal realities.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran