Monday, 25 November 2024
  1. Home/
  2. Mujahid Barelvi/
  3. The Battle For Pakistan (2)

The Battle For Pakistan (2)

The Battle for Pakistan یعنی پاکستان کے لئے جنگ، پر کالم سپرد قلم کرچکا تھا کہ ذرا تاخیر سے یہ خبر پہنچی کہ محترم شجاع نواز کی کتاب کی تقریب رونمائی جو کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں ہونی تھی، اُسے بحکم ِ سرکار ملتوی کردیا گیا۔ خود انگریزی کے معتبر اخبار میں ایک تفصیلی انٹرویو دیتے ہوئے شجاع نواز نے اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے کہاکہ جن وجوہ کے سبب تقریب رونمائی رکوائی گئی ہے، اِس بارے میں تو متعلقہ ادارہ ہی بتا سکتا ہے۔ دلچسپ با ت یہ ہے کہ محترم شجاع نواز جب اپنی پہلی کتاب Crossed Swords بزبان اردو "بے نیام تلواریں" ترتیب دے رہے تھے تو اس کتاب کو عسکری حوالے سے مواد جی ایچ کیو سے حاصل ہوا تھا۔ جی ایچ کیو کا شجاع نواز سے تعاون کرنے کا ایک سبب تو یہی تھا کہ اپنے مرحوم بھائی جنرل آصف نواز کے سبب انہیں جی ایچ کیو تک رسائی حاصل کرنے میں کوئی زیادہ دشواری پیش نہیں آئی ہوگی۔ پھر شجاع نواز پہلے مصنف نہیں جن سے جی ایچ کیو نے ریسرچ کے حوالے سے کام کرتے ہوئے تعاون کیا ہو۔ کئی ملکی بلکہ غیر ملکی صحافیوں اور اسکالروں کو جی ایچ کیو کی لائبریری سے انتہائی حساس موضوعات پر دستاویز تک رسائی دی جاتی رہی۔۔۔ پھر فوج کا ترجمان ادارہ آئی ایس پی آر بھی ملکی اور بین الاقوامی صحافیوں اور مصنفوں کو آف دی ریکارڈ محتاط الفاظ میں ہی سہی حسب ِ ضرورت بریف کرتا رہا ہے۔

شجاع نواز کی کتاب کے بار ے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کی معقول تعداد میں کاپیاں جی ایچ کیو نے خریدی بھی تھیں۔ پہلے بھی لکھ چکا ہوں۔۔۔ کہ پاکستانی فوج کی تاریخ اور اس کے سرد و گرم کے حوالے سے یہ ایک مستند تصنیف ہے۔ بلکہ میں تو یہ تک کہنے کی جسارت کروں گا کہ اسے ہماری یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل کیا جانا چاہئے۔ یوں تو ماضی میں بھی فوج کے سابق جنرل کتابیں لکھتے رہے ہیں۔ مگر عموماًط اس کے پیچھے Ghost Writers ہوتے ہیں۔ جنرل ایوب خان، جنرل کے ایم عارف، جنرل گل حسن، جنرل مٹھا، اور تو اور جنرل پرویز مشرف کی جو بھی کتابیں آئیں، اُن کے پیچھے یہی Ghost writers تھے۔۔۔ اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں۔ ساری دنیامیں یہی رواج عام ہے کہ بہر حال سویلین اور فوجی سربراہان مملکت باقاعدہ writer تو ہوتے نہیں مگر ہاں۔۔۔ جو اُن کا تجربہ اور انفارمیشن ان کے پاس ہوتی ہے، وہ یقینا مستقبل کے مورخین اور ہم جیسے قارئین کے لئے گراں قدر سرمایہ ہوتی ہے۔ اب محترم شجاع نواز کی کتاب ہی لے لیں۔۔۔ کہ گزشتہ ایک دہائی میں ہونے والے تمام اہم واقعات پر انہوں نے مستند حوالوں اور فرسٹ ہینڈ انفارمیشن دی ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کتاب میں جو انکشافات کئے گئے ہیں اُن کے ذرائع خود اس کا حصہ رہے۔ اس لئے یہ بھی ممکن ہے کہ ایک حد تک اس میں ان کا اپنا موقف زیادہ درست بتایا گیا ہو۔ کتاب کے پہلے باب میں پچھلے دس سال سے انتہائی متنازعہ سیاسی تنازع یعنی این آر او کے بارے میں انتہائی تفصیل سے بتایا گیا ہے۔ کہ یہ کب، کیسے اور کس طرح ہوا۔ شجاع نواز کے مطابق جنرل پرویز مشرف کے دور میں اپنی جلاوطنی کے دوران جب دہائی اوپر گزرنے لگی تو وہ اور ان کے نائبین اور مشیران نے انہیں یہ مشورہ دیا کہ انہیں ہر صورت میں اسلام آباد میں اقتدار کے لئے واشنگٹن سے رابطہ کرنا ہوگا۔ کیونکہ یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اس کے باوجود کہ 2007ء میں وکلاء تحریک کے دوران جب پرویز مشرف کا اقتدار ڈانواں ڈول ہورہا تھا، پھر بھی پرویز مشرف کی حکومت کا انحصار واشنگٹن ہی پر تھا۔ مگر واشنگٹن، افغانستان کے پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے اس نتیجے پر بھی پہنچ چکا تھا کہ محض ایک فوجی ڈکٹیٹر کے ذریعے مزید اسلام آباد سے ان کے رشتے فائدے مند نہیں ہونگے اور اس کے لئے ایک مقبول عوامی پارٹی یعنی پیپلز پارٹی اور اس کی قائد بے نظیر بھٹو کے بغیر وہ اس دلدل سے نہیں نکل سکتے۔

شجاع نوازنے اپنی کتاب میں ستمبر 2007ء میں بے نظیر بھٹو کی آمد کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس وقت تک backdoor diplomacy کے ذریعے بے نظیر بھٹو کے معتمد اور پرویز مشرف کے معتمد خاص نیشنل سیکورٹی کے ایڈ وائزر طارق عزیز کا رابطہ ہوچکا تھا۔ یہی نہیں بلکہ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی اس میں شامل تھے۔ جو ماضی میں بے نظیر بھٹو کے ڈپٹی ملٹری سکریٹری کی حیثیت سے کام کرچکے تھے۔ شجاع نواز لکھتے ہیں کہ امریکہ کی جانب سے اسسٹنٹ سیکرٹری اسٹیٹ رچرڈ باؤچر پہلے ہی سے اس پر کام کررہے تھے۔ اور پھر ایک ایسا مرحلہ آیاکہ واشنگٹن میں نمبر دو سیکرٹری آف اسٹیٹ کانڈولیزا رائس نے بھی عملی طور پر مشرف، بے نظیر کے درمیان ایک این آر او کی تشکیل دینے کے لئے گرین سگنل دے دیا تھا۔ شجاع نواز لکھتے ہیں کہ رچرڈ باؤچرکی تواتر سے محترمہ بے نظیر بھٹو سے مغرب کے مختلف شہروں میں ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ خاص طور پر واشنگٹن، نیو یارک، دبئی اور لندن میں۔۔۔ اس دوران آصف علی زرداری بھی امریکہ میں جلا وطنی کے دن گزار رہے تھے۔ شجا ع نواز نے اپنی کتاب میں ان ملاقاتوں میں سے ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ جب بے نظیر بھٹو امریکی حکام سے مذاکرات میں مصروف تھیں، تو ساتھ بیٹھے ہوئے انکے شوہر آصف علی زرداری موبائل فون میں مگن تھے۔ جس پر محترمہ بے نظیر بھٹو نے انہیں ٹوکتے ہوئے کہاکہ وہ موبائل فون لے کر برابر کے کمرے میں چلے جائیں کیونکہ وہ ایک سنجیدہ موضوع پر بات کررہی ہیں۔ شجاع نواز نے اپنی کتاب کے اس پہلے چیپٹر میں جو این آر او کے حوالے سے ہے، زیادہ انحصار اس وقت امریکہ میں مشر ف کے سفیر میجر جنرل ریٹائرڈ محمد علی درانی پر کیا ہے۔ جن سے انہیں اس سارے قضئیے کے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں۔ شجاع نواز نے جس تفصیل سے بے نظیر بھٹواور پرویز مشرف کی امریکن اہم عہدیداروں سے ملاقاتوں کا ذکر کیا ہے۔

خواہش تو یہ ہے کہ لفظ بہ لفظ اُس کا ترجمہ کر دیا جائے۔ کالم پھر اس موڑ پر آگیاہے کہ جہاں اس موضوع کو مزید طول نہیں دے سکتا۔ لیکن چلتے چلتے، این آر او کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ سن لیں۔۔۔ پرویز مشرف کے مشیر خاص اور امریکی سفیر محمود درانی اوربے نظیر بھٹو کے درمیان چند معتمدین خاص کے ساتھ ملاقات کے دوران اس لنچ کی میزبان رے محمود نے بے نظیر بھٹو کو تجویز دی کہ جب آپ پاکستان میں پرائم منسٹر ہوں تو محمود درانی کو نیشنل سیکورٹی کونسل کا سربراہ بنا دیجئے گا۔ اور پھر بعد میں ایسا ہوا بھی۔

About Mujahid Barelvi

Mujahid Barelvi is a veteran journalist from Pakistan. He has a current, daily evening show, "Doosra Pehlu", for CNBC Pakistan. He founded Sonehra Daur Karachi in the 80's. Bankari was a monthly that would help a political activist know about the economic and fiscal realities.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran