Monday, 25 November 2024
  1. Home/
  2. Mujahid Barelvi/
  3. Zara Phir London Se (2)

Zara Phir London Se (2)

مہینہ دو چھوڑ کر چند دن کے لئے لندن کیا آگیا۔۔۔ کہ کراچی پریس کلب کی عندلیبوں نے وہ آہ و زاریاں کیں کہ لندن کے شدید سرد موسم میں بھی وہ کانوں کو گرما رہی ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ ادھر تو نوکریوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ فاقے پڑ رہے ہیں۔ اورخود اسکرین سے باہر ہونے کے باوجود لندن کے پبوں اور پارکوں کی رنگینیوں کے قصے، کہانیاں سنا کر سینوں پر دال مونگ رہے ہیں۔ اس لئے سوچا تو یہی تھا کہ لندن سے دوسرا کوئی love letter نہیں بھیجوں گا پھر عادت علت کا کیا جائے کہ سارے دن کی سرشاریوں اور سرمستیوں کے بعد رات کے آخری پہر میں قلم اکسا رہا ہوتا ہے۔ سو، لندن روانگی سے پہلے شہریاران ِ کراچی یہ بھی برداشت کرلیں۔ یوں تو ہمارے صحافتی استاد عبد الحمید چھاپڑا نے ابتدائی دنوں میں جب ہم نے لندن کا پہلا سفر ان کے ساتھ سن 1988 میں کیا تھا، تلقین کردی تھی کہ اچھا کرو یا بُرا، ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دو۔ کہ اس وقت بھی یارانِ طریقت نے یہ تہمت اور الزام لگایا کہ ہزار روپے کی دیہاڑی نہیں، اور کبھی ٹوکیو ہوتے ہیں، کبھی لندن، اور ہندوستا ن تو یوں آتے جاتے ہیں کہ جیسے ایک گھر سے دوسرے گھر میں جایا جاتاہے۔ اب اس کی تفصیل میں کیا جایا جائے کہ بہر حال دوستوں کی محبت اور بزرگوں کی دعاؤں سے جب جیب میں بٹوہ نہیں ہوتا تھا، اور پیروں میں جرابیں مگر سفر پیروں کو لگ گیا تھا۔

پہلی بار جب سن 1988ء میں لندن چھاپڑا صاحب کے ساتھ آئے تو شاعرِ عوام حبیب جالبؔ کی بھی ہمرہی تھی۔ اسی سفر میں اُس وقت کی تھرڈ ورلڈ فاؤنڈیشن کے سربراہ ممتا بیوروکریٹ الطاف گوہر نے اپنے بیٹے ہمایوں گوہر کی یہ ڈیوٹی لگائی کہ وہ ہمارے ساتھ مل کر جالب ؔ صاحب کا ایک نایاب، یادگاری نسخہ شائع کریں۔ تو لندن کے پہلے ہی پھیرے میں اگلے سال دوسری لندن یاترا کا موقع مل گیا۔ جالب ؔ صاحب کی کتاب "حرفِ سرِ دار" بڑے شاندار طریقے سے شائع کی گئی۔ اور پھر اس کی بڑے پیمانے پر تقریب ِ رونمائی ہوئی۔ پھر یہ بھی عجیب اتفاق اور جسے افسوس ناک ہی کہا جائے گا کہ تیسری بار شاعر ِ عوام حبیب جالبؔ کی یاد میں ہونے والے تعزیتی ریفرنس میں آنے کا موقع ملا۔ کوشش کررہاہوں کہ گزشتہ تین دہائی کے تمام سفر یادداشتوں میں آجائیں۔ اب یہی کہ دو بار اپنی بیٹیوں کی گریجویشن کے لئے آنا ہوا۔ کم سے کم چار بار میڈیا کانفرنسوں میں شرکت کی۔

سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے ساتھ دو سفر ہوئے۔ فیض ؔ میلے میں بھی کوئی چار بار شرکت کی۔ خاص طور پر اپنی شاعرہ دوست فہمیدہ ریاض کیساتھ جو سفر ہوا، اور جو انکے ساتھ ان کی جوانی کے دنوں کا لندن دیکھا۔۔۔ وہ میرا غالباً سب سے زیادہ یادگاری سفر تھا۔ یہاں تک پہنچا ہوں تو پھر دشنام دیا جائے گا کہ صحافی برادری پر پیغمبری وقت پڑا ہوا ہے اور موصوف مزے لے لے کر لندن یاترا کے کچوکے لگا رہے ہیں۔ مگر ہاں، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ یہ ذکر نہ کیا جائے کہ اب دنیا کے قدیم ترین، خوبصورت، پرشکوہ، اور تاریخی شہر لند ن میں بھی ایسی تیز بارشیں اور طوفانوں کے حملے ہوتے ہیں کہ سڑکیں جل تھل ہوجاتی ہیں۔ درخت فٹ پاتھوں پر آپڑے ہوتے ہیں۔ زندگی تقریباً مفلوج ہوجاتی ہے۔ مگر اب گوروں کا یہ صبر و تحمل دیکھیں کہ وہ اس پر اپنی حکومت اور لوکل باڈیز کو قصور وار نہیں ٹھہراتے۔ بلکہ الٹا ان کا ہاتھ بٹا رہے ہوتے ہیں۔ کہ اب برطانیہ اور یورپ میں بھی آفات ناگہانی ہمارے ملکوں ہی کی طرح ہوتی ہیں۔ کہ اپنے طوفانی ریلے میں سب کچھ خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتی ہیں۔ اُس سے بھی دلچسپ با ت یہ کہ ان ناگہانی آفات سے ہونے والی تباہیوں کی خبریں یہاں کے ٹیبلائڈز کی شہ سرخیاں نہیں بنتیں۔ صرف لندن سے درجن بھر تو ٹیبلائڈز نکلتے ہی ہونگے۔ بازاری زبان میں، بہ زبان اردو، یہ چیتھڑے کہلاتے ہیں۔ ہر ٹیوب اسٹیشن کے داخلی دروازے پر ان کا ڈھیر لگا ہوتا ہے۔ اور پھر شاید ہی کوئی گورا ایسا نہ ہو، کہ اُس کے ہاتھ میں یہ نظر نہ آئے۔

ان دنوں لندن والوں کے لئے سب سے بڑی خبر عالمی شہرت یافتہ چھوٹے صاحبزادے شہزادہ ہیری کے اپنی امریکن بیوی کے ساتھ تخت و تاج کو لات مار کے کینیڈا منتقلی ہے شہزادہ ہیری اور ان کی امریکی بیگم میگھن مارکل ان دنوں کینیڈا میں گھر کی تلا ش میں ہیں۔ جی ہاں، دنیا کی سب سے قدیم اور امیر شہنشاہیت کا وارث کرائے کے گھر کی تلاش میں ہے۔ مگر یہ بھی نہ سمجھیں کہ شہزادہ ہیری شاہی خاندان کو چھوڑ کر بے یار و مددگار اور بیروزگار گھوم رہا ہے۔ دنیا کی سب بڑی الیکٹرانک Huawei نے شہزادہ ہیری کو ایک پر کشش ملازمت کی پیشکش کی ہے۔ اور جس کا سالانہ معاوضہ لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں پاؤنڈ میں ہے۔ اور ہاں، برطانیہ کے بریگزٹ سے نکلنے کے بعد وزیر اعظم بورس جانسن ایک مضبوط وزیر اعظم کی حیثیت سے ابھرے ہیں۔ جبکہ لیبر پارٹی کا مکمل طور پر دھڑن تختہ ہوگیا ہے۔

پاکستانیوں کے لئے بری خبر۔۔۔ کہ کنزرویٹو پارٹی کی پچھلی کابینہ میں کم سے کم دو پاکستانی نژاد وزیر ہوا کرتے تھے۔ نہ صرف یہ کہ دونوں کو باہر کردیا گیا۔ بلکہ تین بھارتی نژاد وزراء کو اہم وزارتیں دے دی گئی ہیں۔ بریگزٹ کے نکلنے سے شاید گوروں کو اتنا نقصان نہ پہنچے۔ مگر تارکین ِ وطن خاص طور پر پاکستان سے آنے والوں کو سخت مشکلا ت کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔

اور ہاں، چلتے چلتے۔۔۔ کرونا وائرس۔ اتوار تک اس وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد تو محض درجن بھر سے زیادہ تھی ہی، مگر ایسا لگتا ہے کہ پورا برطانیہ اس وائرس میں مبتلا ہے۔ واپسی پرہیتھرو ایئرپورٹ پرتو قیامت کا منظر دیکھنے کوملا۔ ہر دوسرا تیسرا منہ پر ماسک لگائے ہوئے تھا۔ معذرت کے ساتھ، لفظ استعمال نہیں کرنا چاہتا۔ مگر چپٹی ناکوں والوں پر اس سے زیادہ برا وقت نہیں آیا۔ اور پھر اس میں بھی محض چینی نہیں، ان سے مشابہت رکھنے والے جاپانی، کوریائی، ویتنامی، تھائی، ملائیشین تک کو دیکھ کر گورے اس طرح بدکتے تھے کہ جیسے وہ کوئی اچھوت ہوں۔

سو، اے عزیزو۔ لندن شہر ہی ایسا ہے کہ صفحہ تمام ہوا اور مدحا باقی ہے۔ لیکن اب یہ طے کرلیا ہے کہ آئندہ کبھی لندن آنا ہوا تو اس کا ذکر کالموں میں تو کیا آس پاس کے دوستوں سے بھی نہیں کروں گا۔ کہ سنا ہے کہ عمر کے اس پہر میں آہ و زاریاں لگ بھی جاتی ہیں۔

About Mujahid Barelvi

Mujahid Barelvi is a veteran journalist from Pakistan. He has a current, daily evening show, "Doosra Pehlu", for CNBC Pakistan. He founded Sonehra Daur Karachi in the 80's. Bankari was a monthly that would help a political activist know about the economic and fiscal realities.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran