پنجاب اور مرکزی حکومت کے تمام شعبے اور ان سے کسی بھی طرح سے منسلک سرکاری اور غیر سرکاری اہلکاروں کی جانب سے شور مچ اٹھا کہ تحریک انصاف کا لاہور میں ہونے والا جلسہ بری طرح ناکام ہوگیا ہے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری وساری ہے۔ عطا تارڑ اور محترمہ عظمیٰ بخاری نے ایسی ایسی مثالیں اور ثبوت دیئے کہ یقین ہوگیا کہ یہ جو چند لوگ جلسہ گاہ میں بیٹھے دکھائی دے رہے تھے ان میں کچھ تو جلسہ عام کے منتظمین اور باقی ملک کی چھ ایجنسیوں میں سے ہر ایک کے پانچ پانچ لوگ ہوں گے اور باقی کرسیاں، اسٹیج اور ڈی جے کا سامان لے جانے والے مزدور ہوسکتے ہیں۔ خواتین چاہے گھریلو ہوں یا سیا سی ہمیشہ سے حساب کتاب کی ماہر ہوتی ہیں۔
عظمیٰ بخاری نے اسی تجربے اور معلومات کی بنا پر بتا دیا کہ لاہور سے، 1660فیصل آباد پنڈی ملتان اور ڈیرہ غازی خان سے کتنے لوگ شرکت کیلئے کاہنہ لاہور کی جلسہ گاہ میں پہنچے تھے۔ عظمیٰ بخاری نے تو تحریک انصاف پر کمال مہربانی کرتے ہوئے اس جلسہ کی تعداد تین ہزار تک بتا دی ہے جبکہ عطا تارڑ کہتے ہیں کہ یہ تعداد زیا دہ بتا رہی ہیں کل شراء کی تعداد دوہزار سے زائد نہیں تھی۔ اب ہم نہ تو عظمیٰ بخاری کو جھوٹا ثابت کرسکتے ہیں اور نہ ہی تارڑ کو۔ ان دونوں میں سے کوئی ایک شرکاء جلسہ کی تعداد بارے جھوٹ بول رہا ہے تو یہ چونکہ ایک ہی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں ا سلئے یہ جانیں اور وہ ان کی جماعت لیکن اتنا ضرور ہے کہ ان دونوں میں سے جو بھی جھوٹ بول رہا ہے اسے ایک دن سچ اور حق کے سامنے جواب دہ ہونا ہے۔ وہاں ان دونوں مرکزی اور صوبائی وزراء کرام میں سے جو بھی جھوٹا ہوا اس کیلئے رب کریم کے مقرر کئے گئے داروغہ اپنے کام میں پنجاب پولیس سے بھی کئی گنا ماہر بتائے جاتے ہیں؟
اتنی شرائط تو نکاح میں نہیں رکھی جاتیں جتنی تحریک انصاف کو کسی بھی جگہ جلسہ کی اجا زت دیتے ہوئے رکھ دی جاتی ہیں ابھی سات ستمبر کو مولانا فضل الرحمان مینار پاکستان پر بھر پور جلسہ کرکے گئے ہیں ان کیلئے تو کوئی شرط نہیں تھی بلکہ مولانا رات بارہ بجے جلسہ گاہ پہنچے تھے۔ تحریک انصاف کیلئے پہلے مینار پاکستان پھر جلو موڑ اور پھر چودہ گھنٹے پہلے مویشی منڈی کاہنہ جہاں ہر وقت بدبو کے بھبکے اٹھتے ہیں۔ زمین ہموار نہیں تھی۔ بارش کا پانی کھڑا ہوا تھا اور اس کھڑے ہوئے پانی پر مچھروں کی بھر مار تھی۔ جلسہ عام کے اگلے دن بائیس تاریخ کو لاہور میں ڈینگی کے 96 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں اور یہ سرکارکی دی گئی رپورٹ ہے۔ لاہور ہی نہیں پورے پنجاب کی پولیس جلسہ سے تین روز پہلے پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ایک ایک رکن کو پکڑنے کیلئے ڈی پی اوز کے احکامات بجا لانے میں ایک دوسرے سے بازی لے جا رہے تھی۔ اگر رکن نہیں ملا تو اس کے دس سالہ بھائی یا بوڑھے باپ کو پکڑ لیا کہ چلو کچھ تو مال بنانے کا سامان ہوا؟
آسمان نے اور دیکھتی آنکھوں سمیت سنتے کانوں نے گواہی دے دی ہے کہ جس قدر دشوار گذار رستوں سے لوگ جن میں بچے بوڑھے مرد و خواتین شامل تھے گزرتے ہوئے جلسہ گاہ پہنچے اس پر تاریخ کا مورخ ابھی سے مونہہ میں انگلیاں لئے ہوئے ہیں۔ کیچڑ سے بھرے ہوئے بد بو دار لانے اور رنگ روڈ کی ڈھلوانیں حیران ہو کر تک رہی تھیں کہ" بے تیغ سپاہی بھی شائد اسی طرح میدان جنگ کی طرف جاتے تھے"۔
تسلیم کر لیا کہ عمران خان کا لاہور کا جلسہ ناکام ہوگیا یہ بھی مان لیا کہ اس کی مقبولیت بقول بلاول زرداری اور مریم نواز زمین بوس ہو چکی ہے اور یہ بھی قبول ہے کہ اب تو پی ٹی آئی کی حالت اس قدر بد تر ہوگئی ہے کہ کسی بھی جگہ جلسہ میں شرکت کیلئے اسے بندے ہی نہیں مل رہے تو اس پر بلاول، مریم، شہباز شریف، ایم کیو ایم اور ایمل ولی خان مبار کباد کے مستحق ہیں۔ انہیں تو چاہئے تھا کہ لاہور کے جلسہ کی ناکامی کی خوشی میں ایک دن کی عام تعطیل کا اعلان کر دیتے کیونکہ آج کے حکمران ٹولے کیلئے اس سے بڑی خوشخبری اور کیا ہو سکتی ہے کہ ان کا واحد مد مقابل جس نے ان کی راتوں کی نیندیں اور دن کا چین بر باد کر رکھا ہے وہ عوام میں اس قدر غیر مقبول ہوگیا ہے۔ اس کے پاس جلسہ کی اگلی دو صفیں بھرنے کیلئے بھی بندے نہیں رہے۔
دس اپریل 2022 سے اب تک کوئی ایک لمحہ کوئی ایک گھڑی بتا دیجئے جب حکمران ٹولے نے کپتان کی مقبولیت کم کرنے کیلئے سورج کی کرنوں اور ڈھلتی رات تک کوئی کہانی کوئی پلاٹ کوئی بیانیہ گھڑا ہو۔ اگر سال کے365 دن ہوتے ہیں تو ہر دن حکمران اتحاد اور ان کے اندرونی اور بیرونی آقائوں نے ہر منٹ کپتان پر اخلاقی، سیا سی، ذاتی، مذہبی، خاندانی معاملات پر گھٹیا ترین گند اچھالنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ ہر ٹی وی ہر اخبار میڈیا سے متعلق اپنے تمام ذرائع ان الزامات کی گونج کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا نے کیلئے پورا زور لگاتے ہیں۔
آسمان تک پہنچنے سے پہلے ہی ان کا ہر الزام ہر جھوٹ ہر حربہ بہتان تراشی اس تیزی سے زمین سے ٹکراتا ہے جیسے آسمان سے گرتے ہوئے تارے شیطان کی جانب لپکتے ہیں۔ کوئی شک رہ گیا ہے کہ ان کے ہر الزام کے بعد خان پہلے سے زیا دہ مضبوط اور مقبول ہوتا جا رہا ہے اور اب تو یہ حالت ہو چکی ہے کہ عالمی سطح پر ہونے والی کسی بھی کانفرنس میں حکمران جاتے ہوئے گھبرا رہے ہیں۔ وہاں ان سے جو سوالات کئے جاتے ہیں ان کا جواب دینا تو دور کی بات فارن میڈیا کا سامنا کرنے سے ان سب کی کانپیں ٹانگنا شروع ہو جاتی ہیں۔